Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ahkam-ul-Quran - Al-Baqara : 286
لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا١ؕ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَ عَلَیْهَا مَا اكْتَسَبَتْ١ؕ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَاۤ اِنْ نَّسِیْنَاۤ اَوْ اَخْطَاْنَا١ۚ رَبَّنَا وَ لَا تَحْمِلْ عَلَیْنَاۤ اِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهٗ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِنَا١ۚ رَبَّنَا وَ لَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهٖ١ۚ وَ اعْفُ عَنَّا١ٙ وَ اغْفِرْ لَنَا١ٙ وَ ارْحَمْنَا١ٙ اَنْتَ مَوْلٰىنَا فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكٰفِرِیْنَ۠ ۧ
لَا يُكَلِّفُ
: نہیں تکلیف دیتا
اللّٰهُ
: اللہ
نَفْسًا
: کسی کو
اِلَّا
: مگر
وُسْعَهَا
: اس کی گنجائش
لَهَا
: اس کے لیے
مَا
: جو
كَسَبَتْ
: اس نے کمایا
وَعَلَيْهَا
: اور اس پر
مَا اكْتَسَبَتْ
: جو اس نے کمایا
رَبَّنَا
: اے ہمارے رب
لَا تُؤَاخِذْنَآ
: تو نہ پکڑ ہمیں
اِنْ
: اگر
نَّسِيْنَآ
: ہم بھول جائیں
اَوْ
: یا
اَخْطَاْنَا
: ہم چوکیں
رَبَّنَا
: اے ہمارے رب
وَلَا
: اور نہ
تَحْمِلْ
: ڈال
عَلَيْنَآ
: ہم پر
اِصْرًا
: بوجھ
كَمَا
: جیسے
حَمَلْتَهٗ
: تونے ڈالا
عَلَي
: پر
الَّذِيْنَ
: جو لوگ
مِنْ قَبْلِنَا
: ہم سے پہلے
رَبَّنَا
: اے ہمارے رب
وَلَا
: اور نہ
تُحَمِّلْنَا
: ہم سے اٹھوا
مَا
: جو
لَا طَاقَةَ
: نہ طاقت
لَنَا
: ہم کو
بِهٖ
: اس کی
وَاعْفُ
: اور در گزر کر تو
عَنَّا
: ہم سے
وَاغْفِرْ لَنَا
: اور بخشدے ہمیں
وَارْحَمْنَا
: اور ہم پر رحم
اَنْتَ
: تو
مَوْلٰىنَا
: ہمارا آقا
فَانْصُرْنَا
: پس مدد کر ہماری
عَلَي
: پر
الْقَوْمِ
: قوم
الْكٰفِرِيْنَ
: کافر (جمع)
خدا کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا اچھے کام کرے گا تو اس کو ان کا فائدہ ملے گا برے کرے گا تو اسے نقصان پہنچے گا اسے پروردگار اگر ہم سے بھول یا چوک ہوگئی ہو تو ہم سے مواخذہ نہ کیجیو اے پروردگا ہم ایسا بوجھ نہ ڈالیو جیسا تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا تھا، اے پروردگار جتنا بوجھ اٹھانے کی ہم میں طاقت نہیں اتنا ہمارے سر پر نہ رکھیو اور (اے پروردگار) ہمارے گناہوں سے درگزر کر اور ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم فرما تو ہی ہمارا مالک ہے اور ہم کو کافروں پر غالب فرما
ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ بعض لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ امام مالک کا قول ظاہر قرآن سے زیادہ قریب ہے۔ کیونکہ قول باری ہے (قرھان مقبوضۃ) اللہ تعالیٰ نے رہن کو گواہی کے قائمقام کردیا ہے اور اس شخص پر اعتماد نہیں کیا جس پر حق ہے کیونکہ اس سے وثیقہ لیا ہے جس طرح کہ دین کی مقدار کے متعلق اس پر بھروسہ نہیں کیا اس لئے کہ اس پر گواہی قائم کی ہے۔ دستاویز اور گواہ اس پر لازم آنے والے حق کی مقدار کا پتہ دیتے ہیں اس لئے راہن کے قول کی تصدیق نہیں کی گئی اور رہن اس حد تک گواہوں کے قائم مقام ہوگیا جس حد تک اس کی مقدار رہن کی قیمت کے اندر رہی لیکن جب یہ مقدار اس کی قیمت سے تجاوز کر جائے تو پھر وثیقہ کا کوئی کام نہیں اس صورت میں مرتہن مدعی ہوگا اور مدعی علیہ۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ درج بالا استدلال عجیب و غریب قسم کا استدلال ہے۔ وہ اس طرح کہ مستدل کا یہ کنا ہے کہ جب راہن پر اعتماد نہ کیا گیا یہاں تک کہ اس سے رہن رکھوا لیا گیا تو رہن گواہی کے قائم مقام بن گیا اور پھر یہ دعویٰ کیا کہ یہ ظاہر قرآن کے موافق ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اس شخص کا قول معتبر قرار دیا جس پر حق ہے۔ کیونکہ قول باری ہے (والیملل الذی علیہ الحق والیتق اللہ ربہ ولا یبخس منہ شیئاً ) اللہ تعالیٰ نے اس حالت میں بھی اس کے قول کو معتبر قرار دیا جس میں اسے گواہی قائم کرنے اور دستاویز لکھوانے کا حکم دیا اور طالب یعنی قرض خواہ کی طرف سے مطلوب پر عدم اعتماد کو مطلوب کے قول کے اعتبار کے لئے مانع قرار نہیں دیا۔ تو پھر مرتہن کی طرف سے راہن سے رہن رکھوا کر معاملہ پختہ کرنے کے ذریعے عدم اعتماد کا اظہار مطلوب کے قول کو قبول کرنے سے کس طرح مانع ہوسکتا ہے اور یہ کس طرح طالب کے دعوے کی تصدیق کا موجب بن سکتا ہے۔ مستدل کی بیان کردہ بات ظاہر قرآن کے مخالف ہے اور مرتہن کی طرف سے عدم اعتماد کی تصدیق کے لئے اس کی قائم کردہ علت نص کتاب کی رو سے غلط ہے۔ پھر اس کا یہ دعویٰ کہ اس کی بات ظاہر قرآن کے موافق ہے۔ اتنہائی تعجب انگیز دعویٰ ہے ۔ وہ اس طرح کہ قرآن مجید نے اس کے دعوے کے بطلان کا اس وقت فیصلہ دے دیا جب کہ اس حالت میں بھی مطلوب کے قول کو تسلیم کیا جس میں اس پر اعتماد نہیں کیا گیا۔ بلکہ دستاویز اور گواہوں کے ذریعے اس سے معاملے کو پختہ کرایا گیا اور مستدل کا گمان یہ ہے کہ اس سے رہن رکھوا کر گویا اس پر عدم اعتماد کا اظہار کیا تو اس سے یہ ضروری ہوگیا کہ طالب کے قول کا اعتبار کیا جائے اور پھر یہ گمان کرلیا کہ اس کا قول ظاہر قرآن کے موافق ہے اور پھر اس پر اس بات کی بنیاد رکھی کہ اللہ تعالیٰ نے اس پر اعتماد نہیں کیا اور یہ کہ رہن پختگی اور بھروسے کا ذریعہ بنا جس طرح گواہی پختگی اور اعتماد کا ذریعہ ہے اور اس طرح رہن گواہی کے قائم مقام ہوگیا۔ مستدل نے یہ جو کچھ بیان کیا ہے اس کا ظاہر قرآن سے کوئی واسطہ نہیں اور ہم نے پہلے ہی دلائل سے ثابت کردیا ہے کہ یہ قرآن کے خلاف ہے۔ دراصل یہ قیاس ہے اور اس میں رہن کے مسئلے کو گواہی کے مسئلے پر قیاس کیا گیا ہے اور علت یہ بیان کی گئی ہے کہ رہن اور گواہی دونوں صورتوں میں مقروض پر قرض کی اس مقدار کے متعلق اعتماد اور بھروسہ نہیں کیا گیا جو اس کے ذمے ہے یہ قیاس کئی وجوہ سے باطل ہے۔ اول یہ کہ ظاہر قرآن سے اس کی تردید ہو رہی ہے اس کی تفصیل ہم پچھلی سطور میں بیان کر آئے ہیں۔ دوم یہ قیاس ایک مسئلے پر سب کے اتفاق کی وجہ سے منتقض ہوجاتا ہے۔ یہ وہ یہ کہ اگر کسی پر کسی کا قرض ہو اور قرض خواہ مقروض سے کفیل یعنی ضامن لے لے اس کے بعد قرض کی مقدار میں دونوں کا اختلاف ہوجائے تو اس صورت میں سب کے نزدیک مطلوب یعنی مقروض کا قول اس پر لازم آنے والے قرض کے متعلق معتبر ہوگا۔ اور اس طرح کفیل لے کر اس پر جس عدم اعتماد کا اظہار کیا گیا تھا۔ وہ طالب یعنی قرض خواہ کے قول کی تصدیق کا موجب نہیں بنا حالانکہ مستدل کی بیان کر علت یہاں موجود ہے اس طرح کفالت کے مسئلے میں آ کر اس کی علت منتقض ہوگئی۔ سوم یہ کہ ثبوت یعنی گواہی وغیرہ ملنے کی صورت میں جس سبب کی بنا پر طالب کے قول کی تصدیق نہیں کی گئی وہ یہ ہے کہ گواہوں کی اس بارے میں گواہی قابل قبول ہوتی ہے اور ان کی تصدیق کی بناء پر یہ فیصلہ کیا جاتا ہے۔ ان گواہوں نے راہن کے بیان کردہ رقم سے زائد رقم کے متعلق مرتہن کے اقرار کے خلاف اور مدعی کے دعوے کے حق میں گواہی دینی ہے اور اس طرح زائد رقم کے متعلق مرتہن کا یہ اقرار قاضی کی عدالت میں اقرار کرنے کے مترادف ہوگیا۔ دوسری طرف رہن کی قیمت کے بارے میں ایسی کوئی دلیل موجود نہیں جس سے پتہ چل سکے کہ دین کی مقدار اس قیمت کے مساوی ہے۔ اس لئے کہ اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ قرض کی تھوڑی سی رقم کے بدلے اس سے بڑھ کر قیمت والی چیز رہن رکھی جاسکتی ہے اور اس کے برعکس بھی کیا جاسکتا ہے۔ رہن کی قیمت قرض کی مقدار کا پتہ نہیں دے سکتی اور نہ ہی اس میں اس پر دلالت ہی پائی جاتی ہے تو اب بتائیں کہ رہن کس طرح گواہی کے مساوی اور ہم پلہ ہوسکتی ہے ؟ مستدل کے قیاس کے بطلان پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ اگر راہن اور مرتہن دونوں اس پر متفق ہوجائیں کہ قرض کی مقدار رہن کی قیمت سے کم تھی تو اس سے عقد رہن کا بطلان لازم نہیں آئے گا لیکن اگر طالب اقرار کرتا اس کا قرض اس سے کم ہے جس کی گواہوں نے گواہی دی ہے تو اس صورت میں گواہوں کی گواہی باطل ہوجاتی ہے یہ وہ وجوبات ہیں جو اس مستدل کے استدلال کے بطلان پر دلالت کرتے ہیں۔ قول باری ہے (ومن یکتمھا فانہ اثم قلبہ) ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ قول باری (ولا تکتموا الشھادۃ) ایک خود مکتفی فقرہ ہے اگرچہ اس کا عطف بیع و شراء کے وقت گواہی قائم کرلینے کے اس امر پر ہے جو پہلے گذر چکا ہے یعنی قو ل باری (واشھدوا اذا تبایعتم) اس لئے یہ فقرہ ان تمام گواہوں کے متعلق عام ہے جن میں گواہ پر گواہ بننا اور پھر عدالت میں اس کی گواہی دینا لازم ہوتا ہے۔ اس کی مثال یہ قول باری ہے (واقیموا الشھادۃ للہ) نیز (یایھا الذین امنوا کونوا قوا مین بالقسط شھدآء للہ ولو علی انفسکم) اللہ تعالیٰ نے ان آیات کے ذریعے گواہ کو گواہی چھپانے سے منع فرما دیا ہے کہ اس کے نتیجے میں لوگوں کے حقوق ضائع ہوتے ہیں۔ لیکن یہ گواہی فرض کفایہ ہے جیسا کہ ہم نے دستاویزوں کی تحریر کے سلسلے میں گواہی ثبت کرنے اور بعد میں یہ گواہی پیش کرنے کے ضمن میں ذکر کردیا ہے لیکن اگر ایسا موقع ہو کہ ان دو گواہوں کے سوا اور کوئی گواہی دینے والا موجود نہ ہو تو پھر گواہی کی فرضیت کا ان ہی دونوں گواہوں پر ہوجائے گا اور اگر وہ اس فرض کی ادائیگی سے پیچھے ہٹ گئے تو آیت میں مذکورہ وعید کے وہ سزا وار ہوں گے۔ آیت میں کتمان شہادت سے نہی اس کی ادائیگی کے وجوب پر دلالت کر رہی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے اس فرضیت کی اور تاکید فرما دی چناچہ قول باری ہے (ومن یک تھا فافہ اثم قلیہ) اللہ تعالیٰ نے گناہ کی نسبت قلب کی طرف کی اگرچہ حقیقت میں گواہی چھپانے والا گنہگار ہوتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ گناہ کا تعلق عقد قلب یعنی قلب کے اندر پیدا ہونے والے ارادے سے ہوتا ہے۔ نیز گواہی کو چھپا جانا دراصل اس نیت کے تحت ہوتا ہے کہ اس گواہی کو زبان پر نہیں لائیں گے اب نیت کا معاملہ خلاص دل کے افعال میں سے ایک ہے جس کے ساتھ اعضاء و جوارح کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس بنا پر گواہی کو چھپا جانے والا دو طرح سے گناہ کا مرتکب قرار پائے گا۔ ایک گواہی نہ دینے کے ارادے کی وجہ سے اور دوسرا اپنی زبان پر گواہی کے الفاظ نہ لانے کی وجہ سے۔ قول باری (فانہ ، ثم قلبہ) مجاز ہے، حقیقت نہیں ہے اور اس مقام پر یہ مجاز حقیقت سے زیادہ مئوکد ہے یعنی اس کی جگہ یہ فقرہ کہا جاتا کہ ” جو شخص گواہی کو چھپائے گا وہ گنہگار ہوگا۔ “ تو اس میں اتنی تاکید نہ ہوتی جتنی قرآنی فقرے میں ہے۔ نیز حقیقت کے مقابلے میں یہ زیادہ بلیغ اور وعید پر بڑھ کر دلالت کرنے والا ہے۔ اس میں بیان کی ندرت اور اچھوتا پن نیز معافی کا لطیف انداز میں اظہار پایا جاتا ہے۔ اس کلام کو نازل کرنے والی ذات بہت ہی بلند اور حکیم ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ آیت دین میں دستاویز تیار کرنے میں احتیاط نیز پسندیدہ گواہوں کے حصول اور عقد رھن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے جو کچھ بیان فرمایا ہے اسکے ذریعے دراصل دین اور دنیا کی فلاح و صلاح کی صورتوں کے متعلق بندوں کو آگاہ کیا گیا ہے۔ دنیاوی لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو اس کے ذریعے آپس کے تعلقات کی درستی اور باہمی تنازعات اور اختلافات کا خاتمہ ہوتا ہے کیونکہ یہی وہ چیزیں ہیں جو آپس کے تعلقات کو خراب کرتی ہیں اور دین و دنیا دونوں کے ہاتھ سے نکل جانے کا سبب بنتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے (ولا تنازعوا فتفثلوا وتذھب ریحکم، آپس میں نہ لڑو ورنہ تم ناکام ہو جائو گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔ ) تنازعہ ختم ہونے کی صورت یہ ہے کہ جب مطلوب یعنی مقروض کو یہ معلوم ہوگا کہ اس پر قرض ہے اور گواہ بھی موجود ہیں یا دستاویز موجود ہے یا رہن رکھا ہوا ہے جو قرض خواہ کے ہاتھ میں اس کے ذمے عائد شدہ رقم کا ایک ٹھوس ثبوت موجود ہے تو اس میں گڑ بڑ کرنے کی ہمت پیدا نہیں ہوگی۔ کیونکہ اسے اس بات کا علم ہوگا کہ اگر وہ گڑ بڑ کرے گا یا قرض کی رقم کو گھٹا کر پیش کرنے کی کوشش کرے گا تو اس سے اسے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ بلکہ گواہوں کی اس کے خلاف گواہی سے الٹا اس کا جھوٹ ظاہر ہوجائے گا دوسری طرف اس انتظام میں قرض خواہ کے لئے بھی اعتماد اور احتیاط کا سامان موجود ہے اس طرح اس انتظام میں قرض خواہ اور قرض دار دونوں کے دین اور دنیاوی صلاح و فلاح کا ذریعہ موجود ہے اس لئے کہ مقروض کا قرض خواہ کے حق کو کم کر کے ظاہر نہ کرنے میں اس کے دین کی بھلائی اور اس کے برعکس عمل کرنے میں اس کے دین کا نقصان ہے کیونکہ وہ جانتے بوجھتے ایسا کر رہا ہے۔ دوسری طرف طالب یعنی قرض خواہ کے پاس اگر ثبوت اور گواہ ہوں گے تو وہ اس کے دعوے اور قرض کو ثابت کردیں گے اور اگر گواہ نہ ہوں اور مقروض انکار کر بیٹھے تو اس سے وہ اس بات پر مجبور ہوجائے گا کہ اپنا حق وصول کرنے کے لئے مقروض کا پوری طرح مقابلہ کرے اور اس کے خلاف ہر قسم کی تدبیر اور چارہ جوئی سے کام لے جس کے نتیجے میں بعض دفعہ وہ صرف اپنا حق لینے پر اکتفا نہیں کرے گا بلکہ مقروض کو پہنچانے کے لئے حتی الامکان اپنے حق سے کئی گناہ زیادہ وصول کرنے کی کوشش کرے گا۔ لوگوں کے آپس کے لین دین کے طور پر نظر رکھنے والوں کو یہ باتیں اچھی طرح معلوم ہیں۔ یہ باتیں بعینہ ان امور کی طرح ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم ﷺ کی زبان مبارک کے ذریعے حرام قرار دیا ہے یعنی ایسے سودے جن میں مبیع یا ثمن کی مقدار یا مدت کی مقدار نامعلوم ہو۔ ان باتوں پر لوگ زمانہ جاہلیت میں چلتے تھے جبکہ ابھی حضور ﷺ کی بعثت نہیں ہوئی تھی جس کے نتیجے میں آپس میں اختلافات پیدا ہوتے ، تعلقات بگڑ جاتے ، بعض عداوت اور نفرت کے بیج بو دیئے جاتے۔ انہی برائیوں کی بیخ کنی کے لئے اللہ تعالیٰ نے قمار، جواء، شراب خوری اور منشیات کے استعمال کو حرام قرار دیا کیونکہ یہی چیزیں نفرت، عداوت، بعض اور کینہ جیسی برائیوں کا سبب بنتی ہیں۔ چنانچہ قول باری ہے (انما یرید الشیطان ان یوقع بینکم العداوۃ والغضآء فی الخمر والمیسر ویصدکم عن ذکر اللہ وعن الصلاۃ فھل انتم منتھون شیطان چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے تمہارے درمیان عداوت اور بعض پیدا کر دے اور تمہیں اللہ کی یاد اور نماز سے روک دے آیا اب تم باز آ جائو گے ؟ ) اللہ تعالیٰ نے آیت کے ذریعے یہ بتادیا کہ اس نے جوئے اور شراب سے آپس کے اختلافات اور عداوتیں ختم کرنے کے لئے تمہیں روکا ہے۔ نیز ان باتوں میں مشغولیت اللہ کی یاد اور نماز کی ادائیگی کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔ اس لئے جو شخص اللہ کے بتائے ہوئے طریقوں کو اپنائے گا، اس کے اوامر کو بجا لائے گا اور اس کے زواجر سے باز رہے گا وہ دین و دنیا دونوں کی صلاح و فلاح کو سمیٹ لے گا۔ ارشاد باری ہے (ولو انھم فعلوا مایو عظون بہ لکان خیراً لھم واشد تثبیتاً واذ الاتینھم من لدنا اجراً عظیماً ولھدینا ھم صراط مستقیماً انہیں جو نصیحت کی جاتی ہے اگر وہ اس پر عمل کرتے تو یہ ان کے لئے زیادہ بہتری اور زیادہ ثابت قدمی کا موجب ہوتا اور جب یہ ایسا کرتے تو ہم انہیں اپنی طرف سے بہت بڑا اجر دیتے اور انہیں سیدھا راستہ دکھا دیتے۔ ) ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے دیوان اور عقود کے متعلق دستاویزات لکھنے اور گواہی قائم کرنے کا حکم دیا ہے نیز ان میں کبھی گواہی کے ذریعے اور کبھی رہن رکھ کر احتیاط کرنے کے لئے کہا ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ مال کی حفاظت واجب ہے اور اسے اڑانے اور ضائع کرنے سے روک دیا گیا ہے ۔ حضور ﷺ سے بھی اسی قسم کی روایت ہے ۔ ہمیں ایسے شخص نے روایت بیان کی جس پر روایت حدیث کے متعلق مجھے کوئی اعترا ض نہیں، انہیں معاذ بن المثنٰی نے انہیں مسدد نے انہیں بشربن الفضل نے ، انہیں عبدالرحمٰن بن اسحاق نے سعید المقبری سے، انہوںں نے حضرت ابوہریرہ سے، انہوںں نے حضور ﷺ سے کہ آپ نے فرمایا (لایحب اللہ اضاعۃ المال ولا قیل ولا قال اللہ تعالیٰ اللہ تعالیٰ مال ضائع کرنے اور بحث و تکرار نیز سوال و جواب کو پسند نہیں کرتا۔ ) ہمیں ایسے شخص نے روایت بیان کی جس پر مجھے کوئی اعتراض نہیں، انہیں محمد بن اسحاق نے انہیں موسیٰ بن عبدالرحمٰن المسروقی نے، انہیں حسن الجعفی نے محمد بن سوقہ سے، انہوں نے وراد سے کہ حضرت معاوضہ نے حضرت مغیرہ بن شعبہ کو لکھا کہ مجھے وہ حدیثیں لکھ کر بھیجو جو تم نے حضور ﷺ سے اس طرح سنی ہیں کہ تمہارے اور حضور ﷺ کے درمیان اور کوئی واسطہ نہ ہو۔ وراد کہتے ہیں کہ حضرت مغیرہ نے مجھے یہ لکھوایا :” میں نے حضور ﷺ سے سنا کہ آپ نے فرمایا (ان اللہ حرم ثلاثا و نھی عن ثلاث فاما الثلاث التی حرم فعقوق الامھات ووأ دا البنات ولا وھات والثلاث التی تھی عنھھن فقیل وقال والحاف السوال واضاعۃ المال، اللہ تعالیٰ نے تین باتیں حرام کردی ہیں اور تین باتوں سے روکا ہے جن تین باتوں کو حرام قرار دیا وہ مائوں کی نافرمانی، ڑکیوں کو زندہ درگور کرنا، اپنے اوپر عائد شدہ حق ادا نہ کرنا اور جس پر حق نہ ہو اس کا مطالبہ کرنا، جن تین باتوں سے منع فرمایا ہے وہ یہ ہیں بحث و مباحثہ اور سوال و جواب، مال برباد کرنا اور اصرا رسے مانگنا ۔ ۔۔۔ آیت 282 اور 283 کی تفسیر ختم ہوئی۔ ۔۔۔۔۔ آیت 284 ، 285 اور 286 کی تفسیر : قول باری ہے (وان تبدوا ما فی انفسکم او تخفوہ یحاسبکم بہ اللہ تم اپنے دل کی بات خواہ ظاہر کردو خواہ چھپی رہنے دو اللہ اس کا تم سے حساب لے گا۔ ) ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ایک روایت کے مطابق یہ آیت قول باری (لایکلف اللہ نفساً الا وسعھا ، اللہ تعالیٰ کسی متنفس پر اس کی مقدریت سے بڑھ کر ذمہ داری نہیں ڈالتے) کی وجہ سے منسوخ ہوگئی ہے۔ ہمیں عبداللہ بن محمد بن اسحاق مروزی، انہیں الحسن بن ابی ربیع جرجانی نے، انہیں عبدالرزاق نے معمر سے، انہوں نے قتادہ سے اس آیت کی تفسیر میں یہ روایت بیان کی کہ حضرت ابن عمر نے جب یہ آیت پڑھی تو رونے لگے اور فرمایا :” ہمارے دل میں جو خیالات ابھرتے ہیں ان پر بھی ہمارا مواخذہ ہوگا۔ “ یہ کہہ کر روتے ہوئے ان کی ہچکیاں بندھ گئیں۔ ان کے پاس ایک شخص موجود تھا وہ اٹھا اور سیدھا حضرت ابن عباس کے پاس آیا اور حضرت ابن عمر کی حالت بیان کی۔ آپ نے یہ سن کر فرمایا :” اللہ ابن عمر پر رحم فرمائے ! اس آیت سے مسلمانوں کو بھی وہی تشویق لاحق ہوگئی تھی جو انہیں ہوئی ہے پھر سا کے بعد یہ آیت (لایکلف اللہ نفساً الا وسعھا) نازل ہوئی۔ “ شعبی سے مروی ہے کہ انہوں نے ابوعبیدہ سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت کی کہ یہ آیت اس کے بعد والی آیت (لھا ما کسبت وعلیھا مااکتسبت، ہر شخص نے جو نیکی کمائی ہے اس کا پھل اسی کے لئے ہے اور جو بدی سمیٹی ہے اس کا وبال اسی پر ہے) سے منسوخ ہوگئی ہے۔ معاویہ بن صالح نے عبداللہ بن ابی طلحہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس سے قول باری (وان تبدوا ما فی انفسکم او تخفوہ یحاسبکم بہ اللہ) کی تفسیر میں یہ روایت کی ہے کہ یہ آیت منسوخ نہیں ہوئی۔ اللہ تعالیٰ جب قیامت کے دن تمام انسانوں کو اکٹھا کرے گا تو اس سے فرمائے گا کہ میں تمہیں تمہارے دلوں کی ان باتوں کی اطلاع دیتا ہوں جن سے میرے فرشتے بھی آگاہ نہ ہو سکے۔ پھر اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو ان کے دلوں میں ابھرنے والے خیالات سے آگاہ کر کے انہیں معاف کر دے گا اسی لئے فرمایا (یحاسبکم بہ اللہ فیغفرلمن یشآء و یعذب من یشآء ، اللہ تم سے اس کا حساب لے گا پھر جسے چاہے گا معاف کر دے گا اور جسے چاہے گا عذاب دے گا) قول باری ہے (لون یواخذکم بما کسبت قلوبکم، لیکن اللہ تعالیٰ تم سے ان باتوں پر مئواخذہ کرے گا جو تمہارے دلوں نے کمائے ہیں) یعنی شک اور نفاق کی کمائی۔ ربیع بن انس سے اسی قسم کی روایت ہے۔ عمرو بن عبید نے کہا کہ حسن بصری کہا کرتے تھے کہ یہ آیت محکم ہے یعنی منسوخ نہیں ہوئی۔ مجاہد سے روایت ہے کہ یہ آیت شک اور یقین کے متعلق محکم یعنی غیر منسوخ ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ دو وجوہ کی بنا پر اس آیت کو منسوخ نہیں مانا جاسکتا۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ اخبار (یعنی ایسی آیتیں جن میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں کو آگاہ کیا گیا ہو) میں نسخ جائز نہیں۔ اس لئے کہ ان کے تحت دی گئی خبروں کا نسخ بداء یعنی ایک چیز کے پہلے نامعلوم ہونے اور پھر معلوم ہوجانے پر دلالت کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کو عواقب یعنی ہر چیز کے انجام کی خبر ہے۔ اس لئے اس کی طرف اس کی نسبت جائز نہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ کسی کو ایسی بات کا مکلف بنانا اور اس پر اس کی ذمہ داری ڈالنا جائز نہیں جو اس کی طاقت سے باہر ہو یہ ایک فضول اور بے وقوفانہ حرکت ہوگی اور اللہ تعالیٰ کی ذات فضول کاموں سے بلند و برتر ہے جن حضرات سے اس آیت کے منسوخ ہونے کی روایت مقنول ہے تو اس میں راوی سے لفظی غلطی سرزد ہوئی ہے۔ انہوں نے اس آیت کے معنی بیان کرنے اور اسے کسی اور طرف موڑنے کے تو ہم کے ازالے کا ارادہ کیا تھا۔ مقسم نے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے کہ یہ آیت گواہی چھپانے کے متعلق نازل ہوئی۔ عکرمہ سے بھی اسی قسم کی روایت ہے۔ ان دونوں حضرات کے سوا دوسرے مفسرین سے منقول ہے کہ آیت تمام باتوں کے متعلق ہے۔ یہ تفسیر اولیٰ ہے کیونکہ اس میں عموم ہے اور یہ خود مکتفی بھی ہے۔ اس لئے یہ گواہی اور اس کے علاوہ تمام دوسری باتوں کے لئے عام ہے۔ کسب قلب پر مواخذہ کے متعلق اس آیت کی نظیر یہ قول باری ہے (ولکن یواخذکم بما کسبت قلوبکم) نیز ان الذین یحبون ان تشیع الفاحشۃ فی الذین امنوا لھم عذاب الیم، جو لوگ یہ پسند کرتے ہیں کہ اہل ایمان میں فواحش پھیل جائیں ان کے لئے درد ناک عذاب ہے) نیز (فی قلوبھم مرض، ان کے دلوں میں بیماری ہے) یعنی شک کی بیماری۔ اگر یہ کہا جائے کہ حضور ﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا (ان اللہ عفا لامتی عما حدثت بہ انفسھا مالم یتکلموا بہ اولعلموابہ، اللہ تعالیٰ نے میری امت کے افراد کے دلوں میں پیدا ہونے والے خیالات کو معاف کردیا ہے جب تک وہ انہیں اپنی زبان پر نہ لائیں اور انہیں عملی شکل نہ دے دیں۔ ) اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس روایت میں بیان کردہ حکم کا تعلق ان خیالات سے ہے جن کی وجہ سے شرعی احکام لازم ہوتے ہیں۔ اس لئے کسی کی طرف اپنے غلام کو آزاد کرنے یا بیوی کو طلاق دینے یا بیع کرنے یا صدقہ یا ہبہ کا وقوع صرف ارادے اور نیت کی بنا پر نہیں ہوگا جب تک وہ انہیں الفاظ کی شکل نہ دے دے اور اپنی زبان پر نہ لائے۔ آیت میں جس مواخذہ کا ذکر ہے اس کا تعلق ان امور سے ہے جو ” مابین اللہ وبین العبد، ہیں حسن بن عطیہ نے اپنے والد سے، انہوں نے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے کہ انہوں نے قول باری (وان تبدوا ما فی انفسکم او تخفوہ یحاسبکم بہ اللہ) کے سلسلے میں فرمایا : تمہارے اعلانیہ اور خفیہ اعمال کا اللہ تعالیٰ حساب لے گا اور جو بھی بندئہ مومن اپنے دل میں کسی نیکی کا ارادہ کرتا ہے اس پر عمل کرنے کی صورت میں اس کے نامہ اعمال میں دس نیکیاں لکھ دی جاتی ہیں۔ اگر وہ اس نیکی پر عمل نہ کرسکتا ہو تو اس کے نامہ اعمال میں اس بنا پر ایک نیکی لکھ دی جاتی ہے کہ وہ بندہ مومن ہے۔ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کے اعلانیہ اور خفیہ دونوں قسموں کے اعمال سے خوش ہوتا ہے۔ اگر بندہ مومن اپنے دل میں کسی بدکاری کا ارادہ کرتا ہے تو اللہ کو اس کی خبر ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے اس سے آگاہ کر دے گا۔ اگر وہ اس بدی کو عملی شکل نہیں دے گا تو اللہ تعالیٰ اس پر اس کا مئواخذہ نہیں کرے گا۔ اگر اس نے اسے عملی شکل دیح دی تو اللہ تعالیٰ در گذر کر دے گا۔ جیسا کہ قول باری ہے (اولئک الذین نتقبل عنھم احسن ما عملوا ونتجاوز عن سیاتھم) یہی وہ لوگ ہیں جن کے اچھے اعمال ہم قبول فرماتے اور ان کی سیآت سے درگذر کرتے ہیں) حضرت ابن عباس کی یہ وضاحت حضور ﷺ سے مروی درج بالا حدیث کی روشنی میں ہے۔ قول باری ہے (لایکلف اللہ نفساً الا وسعھا) یہ آیت اس بارے میں نص ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی پر ایسی ذمہ داری کا بوجھ نہیں ڈالتا جسے اٹھانے کی اس کے اندر طاقت قدرت نہ ہو اگر اللہ تعالیٰ ایسا کرتا تو وہ اپنے بندے پر اس کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ ڈالنے والا قرار پاتا۔ (تعالیٰ اللہ عن ذلک) آپ نہیں دیکھتے کہ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ ” لیس فی وسعی کیت وکیت “ تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ فلاں فلاں کام کرنے کی مجھ میں قدرت نہیں ہے اور نہ ہی میں اس کی طاقت رکھتا ہوں بلکہ لفظ الوسع مفہوم کے لحاظ سے لفظ الطاقۃ سے کم تر ہے۔ امت میں اس کے متعلق کوئی اختلانہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کی شان کے خلاف یہ بات ہے کہ وہ اپاہج کو چلنے کا اور اندھے کو دیکھنے کا اور ہتھ کٹے کو پنجہ آزمائی کا مکلف بنائے۔ اس لئے کہ ان میں سے کوئی بھی متعلقہ کام کی نہ طاقت رکھتا ہے اور نہ قدرت ۔ اس کے متعلق امت میں کوئی اختلاف نہیں۔ حضور ﷺ سے یہ مروی ہے کہ جو شخص کھڑے ہو کر نماز ادا نہیں کرسکتا تو وہ نماز میں قیام کا مکلف نہیں ہے اور جو بیٹھ کر نماز پڑھنے کی طاقت نہیں رکھتا وہ بیٹھ کر نماز پڑھنے کا مکلف نہیں بلکہ پہلو پر لیٹ کر اشارے سے پڑھے گا کیونکہ اسے اس صورت کے سوا اور کسی طرح نماز پڑھنے کی قدرت اور طاقت نہیں ہے۔ نص قرآنی نے ان لوگوں سے تکلف ساقط کردی ہے یعنی مکلف ہونے کی حیثیت ختم کردی ہے جو فعل پر اس کی قدرت اور اس کی طاقت نہیں رکھتے۔ جاہلوں کے ایک گروہ کا جن ہوں نے اللہ تعالیٰ کی طرف (نعوذ باللہ) فضول اور بےوقوفانہ افعال کی نسبت کی ہے۔ … یہ خیال ہے کہ ہر وہ کام جس کے کرنے کا کسی مکلف کو حکم دی اگیا ہو یا جس سے روکا گیا ہو تو جس کام کے کرنے کا حکم دیا گیا ہے ضروری نہیں کہ مکلف کو اس کے کرنے کی قدرت بھی دی گئی ہو اسی طرح منہی عنہ فعل کے لئے ضروری نہیں اس کے ترک کی اسے قدرت دی گئی ہو۔ اللہ تعالیٰ نے ان جاہلوں کے اس قول کی تکذیب یہ فرما کردی ہے کہ (لایکلف اللہ نفساً الا وسعھا) نیز عقل انسانی بھی تکلیف مالایطاق ، (کسی پر اس کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ) کی قباحت کی گواہی دے رہی ہے جو ذات فعل قبیح سے باخبر ہو اور اسے اس فعل قبیح کو روبکار لانے کی ضرورت بھی نہ ہو اس سے اس کا صدور نہیں ہوسکتا۔ اس مسئلے کے ساتھ جن احکام کا تعلق ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ مکلفین سے ایسے افعال کی فرضیت ساقط ہوجاتی ہے جن کی ادائیگی کی ان کے قویٰ میں طاقت ہی نہ ہو اس لئے کہ لفظ الوسع کا مفہوم لفظ الطاقۃ کے مفہوم سے کم تر ہے۔ نیز ان کے لئے یہ ضروری نہیں کہ ایک فرض کی ادائیگی میں اپنی پوری طاقت صرف کردیں مثلاً ایک بوڑھا آدمی جس کے لئے روزہ رکھنا بڑی مشقت کی بات ہے اور جسے روزے کی وجہ سے کسی جسمانی تکلیف کے لاحق ہوجانے کا خطرہ ہو اگرچہ اسے موت کا خطرہ نہ ہو، تو اس پر روزہ رکھنا فرض نہیں ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے صرف اسی کام کا مکلف بنایا ہے جو اس کے مقدور میں ہو اور جس کی وجہ سے وہ موت کی حالت تک نہ پہنچے۔ یہی حکم اس مریض کا ہے جسے روزہ رکھنے یا پانی استعمال کرنے کی صورت میں نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ بتادیا ہے کہ وہ کسی کو ایسے کام کا مکلف نہیں بناتا ہے جو اس کے مقدور سے باہر ہو اور اس کے امکان سے خارج ہو۔ اس سے اس کا مقصد کسی کو تنگی میں ڈالنا یا مشقت میں مبتلا کرنا نہیں ہوتا۔ چنانچہ ارشاد ہوا (ولو شآء اللہ لاعنتکم، اور اگر اللہ چاہتا تو تمہیں دشواری میں مبتلا کردیتا) اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم ﷺ کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا (عزیز علیہ ما عنتم تمہارا دشواری اور مشقت میں پڑجانا ان پر بہت بوجھل ہے ) اللہ کے تمام اوامر اور نواہی کے متعلق یہ ایک مستقل حکم اور طریق کار ہے۔ ان کے ساتھ مکلف ہونے کا انحصار بندے کی طاقت و قدرت پر ہے۔ قول باری ہے (ربنالا تواخذنا ان نسینا اواخطانا اے ہمارے پروردگار ! اگر ہم بھول جائیں یا غلطی کر بیٹھیں تو ہمارا مواخذہ نہ کرنا) ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ نسیان کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ انسان بھول کر کوئی کام بیٹھتا ہے اس صورت میں اگر اس سے بھول کر کوئی غلطی سر زد ہوجائے تو معذرت کرلینا بہتر ہوتا ہے۔ دوسری یہ کہ جس کام کے کرنے کا حکم دیا گیا ہو اسے کسی پیدا ہونے والے شبہ یا غ لط تاویل کی بنا پر ترک کر دے۔ اگرچہ خود اس فعل کا وقوع سہو اور نسیان کی بنا پر نہ ہو اس صورت میں یہ بہتر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ایسے افعال کی معافی مانگے۔ نسیان بمعنی ترک لغت میں مصروف ہے۔ قول باری (نسو اللہ فنسیھم) وہ اللہ کو بھول گئے پھر اللہ نے انہیں بھلا دیا یعنی انہوں نے اللہ کے حکم کو ترک کردیا اور اس کے ثواب اور اجر کے مستحق نہیں ٹھہرے۔ اللہ پر نسیا ن کے اسم کا اطلاق اسم کے بالمقابل اسم کے طور پر ہوا ہے جیسا کہ ارشاد باری ہے (وجزاء سیئۃ سیئۃ مثلھا ، برائی کا بدلہ اس جیسی برائی ہے) نیز (فمن اعتدی علیکم فاعتدوا علیہ بمثل ماعتدی علیکم ، جو تم سے زیادتی کرے تو تم بھی اس پر اسی قدر زیادتی کرو جس قدر کہ اس نے تم سے کی ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ نسیان ذکر یعنی یاد کی ضد ہے اللہ اور اس کے بندے کے مابین جہاں تک مئواخذہ اور استحقاق عقاب کے معاملے کا تعلق ہے نسیان کی بنا پر اس کا حکم مرتفع ہوجاتا ہے اور اس جیسی صورت میں بندے کے مکلف ہونے کی حیثیت بھی ختم ہوجاتی ہے اور اس پر آخرت میں مواخذہ بھی درست نہیں ہوتا۔ نسیان کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بندے کو جن عبادات کا مکلف بنایا ہے نسیان کی وجہ سے ان کا حکم بندے پر باقی نہیں رہتا اس لئے کہ حضور ﷺ نے نسیان کے ہوتے ہوئے بہت سی عبادتوں کے لزوم کا نصاً حکم دیا ہے اور امت کا بھی اس پر اتفاق رہا ہے۔ ان میں سے ایک حکم نماز کے متعلق ہے فرمایا (من نام عن صلوۃ اونسیھا فلیمصلھا اذا ذکرھا، جو شخص کسی نماز کے وقت سوتا رہا یا اسے ادا کرنا بھول گیا تو جب اسے یاد آئے ادا کرے) یہ فرما کر آپ نے یہ آیت تلاوت کی (واقم الصلوۃ لذکری، اور میری یاد میں نماز قائم کرو) آپ کی تلاوت سے اس بات پر دلالت حاصل ہوئی کہ قول باری (اقم الصلوۃ لذکری) میں اللہ کی مراد یہ ہے کہ بھولی ہوئی نماز یاد آ تے ہی ادا کرلی جائے۔ اسی طرح قول باری ہے ۔ واذکر ربک اذا نسیت جب تجھے نسیان لاحق ہوجائے تو اپنے رب کو یاد کرے۔ ) یہ آیت ہر بھولی ہوئی عبادت کو یاد آ جانے پر قضا کرنے کے لزوم کے لئے ایک عام حکم پر مشتمل ہے۔ فقہاء کے درمیان اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ روزہ، زکواۃ اور دوسری تمام فرض عبادات کو بھول جانے والا یا د آنے پر قضا کرنے کے لزوم کے اعتبار سے نماز کو بھول جانے والے کی طرح ہے۔ اسی طرح ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ نماز میں بھول کر بات کرلینے والے کا حکم عمداً بات کرنے والے کی طرح ہے۔ اس لئے کہ اصول یہ ہے فرض عبادات میں ناسی اور عامد دونوں کا حکم یکساں ہے۔ ان میں سے کسی عبادت کے اسقاط میں نسیان کا کوئی اثر نہیں ہوتا سوائے ان عبادات کے جن کے متعلق شریعت کی طرف سے ہدایات آئی ہوں اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ نمازی اگر وضو کرنا بھول گیا ہو تو اس کی نماز بھی اسی طرح باطل ہوجائے گی جس طرح جان بوجھ کر وضو نہ کرنے والے کی نماز۔ فقہاء نے رمضان میں دن کے وقت بھول کر کھا لینے کے متعلق کہا ہے کہ قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ اس کا روزہ ٹوٹ جانے اور اس پر قضاء لازم آ جائے لیکن اس سلسلے میں حدیث کی موجودگی کی بنا پر قیاس رتک کردیا گیا۔ ہم نے جو کچھ کہا ہے اس کے ساتھ سات ھیہ بات بھی ہے کہ ناسی جس طریقے پر بھی فرض کی ادائیگی کرے لے گا وہ اس بوجھ سے سبکدوش سمجھا جائے گا اور سا کا فرض ادا ہوجائے گا۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے حالت نسیان میں اسے اس کے سوا اور کسی طریقے سے ادائیگی کا مکلف نہیں بنایا۔ قضاء درحقیقت ایک اور فرض ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس پر لازم ہوجاتا ہے۔ ہم نے اس کے متعلق دلائل کا تذکرہ پہلے کردیا ہے۔ اس لئے نسیان کا اثر صرف یہ ہے کہ اس کی وجہ سے فقط گناہ ساقط ہوجاتا ہے لیکن جہاں تک فرضیت کے لزوم کا تعلق ہے اس پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ حضور ﷺ کا یہ قول کہ (رفع عن امتی) الخطائو النسیان، میری امت کو غلطی اور بھول چوک کی معافی ہے) اس کا بھی تعلق گناہ کی معافی تک ہے اس سے رفع حکم مراد نہیں ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ نے غلطی سے کسی کو قتل کردینے پر دیت اور کفارہ کے لحاظ سے اس کے حکم کے لزوم کو نصاً برقرار رکھا ہے۔ اسی لئے حضور ﷺ نے اپنے ارشاد میں خطاء کے ذکر کے ساتھ نسیان کا بھی ذکر کیا ہے جو اسی معنی پر محمول ہے۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ آپ کا یہ ایک اصل اور قاعدہ ہے کہ ذبیحہ پر بسم اللہ پڑھنا واجب ہے اور اگر کوئی شخص جان بوجھ کر بسم اللہ نہیں پڑھتا تو اس کے اس ذبیحے کی حیثیت مردار کی طرح ہوگی اور اگر بسم اللہ پڑھنا بھول گیا ہو تو ذبیحہ حلال ہوگا اور ذبح کا عمل مکمل ہوگا۔ اب سوال یہ ہے کہ آپ نے اس ذبیحہ کو اس شخص کی نماز کی طرح کیوں نہیں قرار دیا جو وضو کرنا بھول گیا ہو۔ وہ تو قطعی طور پر وضو کر کے نماز لوٹانے کا پابند ہوگا۔ اسی طرح کی بات بھول کر نماز پڑھ لینے کے متعلق بھی کہی جاسکتی ہے اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ہم نے یہ بیان کردیا ہے کہ نسیان کی صورت میں اس نے فرض کی ادائیگی جس طرقیے سے کی ہے اس کے سوا کسی اور طریقے کا وہ مکلف ہی نہیں تھا۔ یاد آنے کے بعد اس پر لازم ہونے والا فرض درحقیقت وہ ایک اور فرض ہے جو نئے سرے سے عائد ہوا ہے۔ اسی طرح ہم ذبیحہ پر بسم اللہ نہ پڑھنے کی صورت کو یہ کہہ کر جائز قرار دیں گے کہ وہ نسیان کی حالت میں بسم اللہ پڑھنے کا مکلف ہی نہیں تھا۔ اس لئے ذبیحہ درست ہوگیا اور چونکہ ایک دفعہ ذبح کرنے کے بعد دوسری مرتبہ ذبح کا عمل نہیں ہوسکتا۔ اس لئے وہ اس کا مکلف نہیں ہوگا جس طرح نماز، روزہ وغیرہ کے اعادے کا مکلف تھا۔ قول باری ہے (لھا ماکسبت وعلیھا ما اکتسبت، ہر شخص نے جو نیکی کمائی ہے۔ اس کا پھل اس کے لئے ہے اور جو بدی سمیٹی ہے اس کا وبال اس پر ہے) یہ قاس قول باری کی طرح ہے (ولا تکسب کل نفس الا علیھا اور جو متنفس بھی جو کچھ کماتا ہے اس کی ذمہ داری اس پر ہوتی ہے۔ ) نیز (وان لیس للانسان الا ما سعی وان سعیہ سوف یری، اور یہ کہ انسان کے لئے وہی کچھ ہے جس کی وہ دوڑ دھوپ کرتا ہے اور اس کی اس دوڑ دھوپ کا نتیجہ اسے عنقریب دکھا دیا جائے گا۔ ) ان آیات میں یہ دلالت موجود ہے کہ ہر مکلف کے اعمال کا اس کی ذات کے ساتھ تعلق دوسرے کسی اور کے ساتھ نہیں ہے اور یہ کہ کسی شخص کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے فعل کی ذمہ داری کسی اور پر ڈال دے اور اس کے گناہ کسی اور سے مواخذہ ہو۔ حضور ﷺ نے بھی ابورمثہ کو ان کے اپنے بیٹے کے ساتھ دیکھ کر یہی فرمایا تھا۔ آپ نے ان سے استفسار کیا کہ آیا یہ تمہارا بیٹا ہے، انہوں نے اثبات میں جواب دیا اس پر آپ نے فرمایا (انک لاتجنی علیہ ولایجنی علیک تم اس کے جرم کے ذمہ دار نہیں ہو گے اور وہ تمہارے جرم کا ذمہ دار نہیں ہوگا) آپ کا یہ بھی ارشاد ہے (لا یواخذ احد بجریرۃ ابیہ ولابجریرۃ اخیہ، کوئی شخص اپنے باپ یا اپنے بھائی کے جرم میں نہیں پکڑا جائے گا۔ ) یہ ہے وہ میزان عدل کہ عقل انسانی اس سے بہتر سوچ ہی نہیں سکتی۔ قول باری ہے (لھا ما کسبت و علیھا ما اکتسبت) اس آیت سے کسی شخص پر شرعی وجوہات کی بنا پر پابندی عائد کرنے کی نفی اور اس کی طرف سے قاضی یا کسی اور شخص کو اس کے مال کی خرید و فروخت کی اجازت کے امتناع پر استدلال کیا گیا ہے البتہ وہ صورتیں اس میں شامل نہیں ہیں جن کی تخصیص کے لئے دوسرے دلائل موجود ہیں۔ اس آیت سے امام مالک کے اس قول کے بطلان پر بھی استدلال کیا گیا گیا ہے کہ جو شخص کسی کی طرف سے اس کے امر کے بغیر اس کا قرض ادا کردیتا ہے تو اسے یہ اختیار ہے کہ رقم کے لئے اس کی طرف رجوع کرے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کی کمائی کا اس شخص کو ہی ذمہ دار قرار دیا ہے کسی اور کو نہیں اس کا فائدہ بھی اسی کو ملے گا اور اس کا نقصان بھی اسی کو اٹھانا پڑے گا۔ قول باری ہے (ربنا ولا تحمل علینا اصراً کما حملتہ علی الذین من قبلنا، اسے ہمارے پروردگار ! ہم پر ایسا بوجھ نہ لاد دے جس طرح تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر لاد دیا تھا) الاصر کے معنی کے بارے میں ایک قول ہے کہ یہ ثقل یعنی بوجھ ہے۔ لغنت میں اس کے اصل معنی کے متعلق کہا گیا ہے کہ یہ عطف یعنی تعلق اور رشتہ داری ہے۔ اسی سے اواصر الرحم، کا محاورہ بنا ہے جس کے معنی نسبی رشتہ داری اور تعلقات کے ہیں۔ اس لئے کہ رحم یعنی نسبی تعلق ان رشتہ داریوں کو جوڑے سے رکھتا ہے۔ اس کا واحد، آمرۃ ہے ۔ لفظ الماصر کے متعلق کہا گیا ہے کہ یہ وہ رسی ہے جسے رکاوٹ کی خاطر کسی شاہراہ یادریا کے گھاٹ پر باندھ دیا جائے تاکہ لوگوں کو وہاں سے گذرنے سے روک کر ان سے چنگی اور عشر وغیرہ وصول کیا جاسکے۔ قول باری (لاتحمل علینا اصراً ) میں اصر سے مراد عہد ہے یعنی ایسا حکم جو بوجھل اور بھاری ہو۔ حضرت ابن عباس، مجاہد اور قتادہ سے اسی قسم کی روایت ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کے قول (وما جعل علیکم فی الدین من حرج اللہ تعالیٰ نے دین کے معاملے میں تم پر کوئی تنگی کا سامان پیدا نہیں کیا) کے ہم معنی ہے۔ آیت میں حرج سے مراد تنگی ہے۔ نیز (یرید اللہ بکم الیسر، اللہ تعالیٰ تمہارے لئے نرمی کا سامان پیدا کرنا چاہتا ہے) نیز (مایرید اللہ لیجعل علیکم من حرج ، اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا کہ تمہارے لئے تنگی کا سامان پیدا کر دے) حضور ﷺ کی حدیث ہے۔ آپ نے فرمایا (جئتکم بالحنیفیۃ (السمعۃ، میں تمہارے پاس دین حنیف لے کر آیا ہوں جس میں بڑی وسعت اور کشادگی ہے) آپ ﷺ سے یہ بھی مروی ہے کہ (ان بنی اسرائیل شددوا علی انفسھم فشدد اللہ علیھم ، بنی اسرائیل نے اپنے اوپر سختیاں کیں پھر اللہ تعالیٰ نے بھی ان پر سختی کردی۔ ) قول باری (ولا تحمل علینا اصراً ) میں مراد و امرو نواہی کا بوجھ ہے اور قو ل باری (کما حملتہ علی الذین من قلنا) اس قول باری کی طرح ہے (ویضع عنھم اصرھم والا غلال التی کانت علیھم اور ان سے ان کا بوجھ اور زنجیریں اتارتا ہے جو ان پر پڑی ہوئی تھیں۔ ) اس آیت اور اسی طرح کی دوسری آیتوں سے ہر ایسے مسئلے میں تنگی، شدت اور دبائو کی نفی پر استدلال کیا گیا ہے جس میں فقہاء کا اختلاف ہو اور فقہاء نے اس میں اجتہاد کی گنجائش نکالی ہو۔ اس لئے جو شخص مسائل میں تنگی، شدت اور سختی کو واجب سمجھتا ہے مثلاً وضو میں نیت کا وجوب، نیز اس میں ترتیب کا ایجاب اور اسی قسم کی اور باتیں آیت میں اس کے خلاف دلیل موجود ہے۔ اور ہمارے لئے ان مذکورہ آیات کے ظواہر سے تنگی اور شدت کی نفی پر استدلال کا جو ازموجود ہے۔ قول باری ہے (ربنا ولا تحملنا مالا طاقۃ لنابہ، اے ہمارے پروردگار ! ہم پر ایسا بوجھ نہ ڈال جسے اٹھانے کی ہم میں طاقت نہیں ہے) اس کی تفسیر میں دو قول ہیں۔ اول مکلف بنانے کی وہ صورت جس میں شدت اور بوجھ ہو جس طرح بنی اسرائیل کو اس کا مکلف بنادیا گیا تھا کہ وہ اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں سے قتل کریں۔ اس میں یہ بھی جائز ہے کہ ایک شخص جس کام کی طاقت نہ رکھتا ہو اس کے اس عدم طاقت کی تعبیر سختی اور شدت جیسے الفاظ سے کی گئی ہو جس طرح کہ آپ کہیں ” مااطیق کلام فلان ولا اقدران اراہ ‘(میں فلاں سے کلام کرنے کی طاقت نہیں رکھتا نیز اسے دیکھنے کی قدرت نہیں رکھتا۔ اس جملے سے نفی قدرت مراد نہیں ہے بلکہ اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ میرے لئے یہ کام بہت بھاری اور سخت ہے اس طرح اس فقرے کو بولنے والا بمنزلہ اس عاجز کے ہوتا ہے جو فلاں شخص سے گفتگو کرنے اور اسے دیکھنے کی قدرت نہیں رکھتا اس لئے کہ مذکورہ شخص دلی طور سے اس سے دور ہوتا ہے اور اس سے کلام کرنے اور اسے دیکھنے میں وہ کراہت محسوس کرتا ہے۔ اس کی مثال یہ قول باری ہے (وکانوا لایستعطیعون سمعاً ) اور وہ لوگ سن نہیں سکتے تھے) یعنی ان کی سماعت بالکل ٹھیک ٹھاک تھی لیکن انہوں نے کلام الٰہی سننے سے اپنے کان بوجھل کر لئے تھے اور اس سے منہ پھیرلیا تھا اس طرح ان کی حیثیت اس شخص کی طرح ہوگئی تھی جو گویا سنتا ہی نہ تھا۔ ) دوسرا قول یہ ہے کہ اللہ ہم پر عذاب کا ایسا بوجھ نہ لاد دے جسے برداشت کرنے کی ہم میں طاقت نہ ہو۔ یہاں اس بارے میں گنجائش موجود ہے کہ آیت سے دونوں معنی مراد لئے جائیں۔ (واللہ اعلم بالصواب)
Top