Urwatul-Wusqaa - Al-An'aam : 11
قُلْ سِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ ثُمَّ انْظُرُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِیْنَ
قُلْ : آپ کہ دیں سِيْرُوْا : سیر کرو فِي الْاَرْضِ : زمین (ملک) میں ثُمَّ : پھر انْظُرُوْا : دیکھو كَيْفَ : کیسا كَانَ : ہوا عَاقِبَةُ : انجام الْمُكَذِّبِيْنَ : جھٹلانے والے
ان سے کہو زمین میں پھرو اور دیکھو جھٹلانے والوں کو کیسا انجام پیش آچکا ہے ؟
نبی اعظم و آخر ﷺ کے مخالفین کو حکم کہ گذشتہ امتوں کا حال پڑھ سن لو : 18: ” اے پیغمبر اسلام ! ان سے کہو زمین میں پھرو اور دیکھو جھٹلانے والوں کو کیسا انجام پیش آچکا ہے۔ ‘ ‘ اس چھوٹی سی آیت میں آخرت کی وہ زبردست دلیلیں بھی ہیں اور نصیحت بھی۔ پہلی دلیل یہ ہے کہ دنیا کی جن قوموں نے بھی آخرت کو نظر انداز کیا ہے وہ مجرم ومکذب بنے بغیر نہیں رہ سکی ہیں۔ وہ ہمیشہ غیر ذمہ دار بن کر رہیں ۔ انہوں نے ظلم وستم ڈھائے۔ وہ فسق وفجور میں غرق ہوگئیں اور اخلاق کی تباہی نے آخر کار ان کو برباد کر کے چھوڑا۔ یہ تاریخ انسانی کا مسلسل تجربہ ، جس پر زمین میں ہر طرف تباہ شدہ قوموں کے آثار شہادت دے رہے ہیں صاف ظاہر ہوتا ہے کہ آخرت کے ماننے اور نہ ماننے کا نہایت گہرا تعلق انسانی رویئے کی صحت اور عدم صحت سے ہے ۔ اس کو مانا جائے تورویہ درست رہتا ہے ۔ نہ مانا جائے تو رویہ غلط ہوجاتا ہے ۔ یہ اس امر کی صریح دلیل ہے کہ اس کا ماننا حقیقت کے مطابق ہے اس لئے اس کے ماننے سے انسانی زندگی ٹھیک ڈگر پر چلتی ہے اور اس کا نہ ماننا حقیقت کے خلاف ہے اسی وجہ سے یہ گاڑی پٹری سے اتر جاتی ہے۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ تاریخ کے اس طویل تجربے میں مجرم بن جانے والی قوموں کا مسلسل تباہ ہونا اس حقیقت پر صاف دلالت کرتا ہے کہ یہ کائنات بےشعور طاقتوں کی اندھی ، بہری فرمانروائی نہیں ہے بلکہ یہ ایک حکیمانہ نظام ہے جس کے اندر ایک اٹل قانون مکافات کام کر رہا ہے جس کی حکومت انسانی قوموں کے ساتھ سراسر اخلاقی بنیادوں پر معاملہ کر رہی ہے جس میں کسی قوم کو بدکرداریوں کی کھلی چھوٹ نہیں دی جاتی کہ ایک دفعہ عروج پا جانے کے بعد وہ ابد الاباد تک داد عیش لیتی رہے اور ظلم وستم کے ڈنکے بجائے چلی جائے بلکہ ایک خاص حد کو پہنچ کر ایک زبر دست ہاتھ آگے بڑھتا ہے اور اسکو بام عروج سے گرا کر قصر مذلت میں پھینک دیتا ہے۔ اس حقیقت کو جو شخص سمجھ لے وہ کبھی اس امر میں شک نہیں کرسکتا کہ یہی قانون مکافات اور دنیوی زندگی کے بعد ایک دوسرے عالم کا تقاضا کرتا ہے جہاں افراد کا اور قوموں کا اور بحیثیت مجموعی پوری نوع انسانی کا انصاف چکایا جائے ۔ کیونکہ محض ایک ظالم قوم کے تباہ ہوجانے سے تو انصاف کے سارے تقاضے پورے نہیں ہوگئے۔ اس سے ان مظلوموں کی تو کوئی داد رسی نہیں ہوئی جن کی لاشوں پر انہوں نے اپنی عظمت کا قصر بنایا تھا۔ اس سے ان ظالموں کو تو کوئی سزا نہیں ملی جو تباہی کے آنے سے پہلے مزے اڑا کر جاچکے تھے ۔ اس سے ان بدکاروں پر بھی کوئی مواخذہ نہیں ہوا جو پشت درپشت اپنے بعد آنے والی نسلوں کے لئے گمراہیوں اور بد اخلاقیوں کی میراث چھوڑتے چلے گئے تھے ۔ دنیا میں عذاب بھیج کر تو صرف ان کی آخری نسل کے مزید ظلم کا سلسلہ توڑ دیا گیا۔ ابھی عدالت کا اصل کام تو ہوا ہی نہیں کہ ہر ظالم کو اس کے کئے کا بدلہ دیا جائے اور ہر مظلوم کے نقصان کی تلافی کی جائے اور ان سب لوگوں کو انعام دیا جائے جو بدی کے اس طوفان میں راستی پر قائم اور اصطلاح کے لئے کوشاں رہے اور پوری عمر اس راہ میں اذیتیں سہتے رہے۔ یہ سب لازماً کسی وقت ہونا چاہئے کیونکہ دنیا میں قانوں مکافات کی مسلسل کار فرمائی کائنات کی فرمانبروا حکومت کا یہ مزاج اور طریقہ کار صاف بتا رہی ہے کہ وہ انسانی اعمال کی اخلاقی قدر کے لحاظ سے تولتی اور انکی جزاء و سزاء دیتی ہے۔ ان دلیلوں کے ساتھ اس آیت میں نصیحت کا پہلو یہ ہے کہ پچھلے مجرموں کا انجام دیکھ کر اس سے سبق سیکھ لو اور انکار رسول اور انکار آخرت کے اس احمقانہ عقیدے پر اصرار نہ کئے چلے جاؤ ورنہ جس نے انہیں مجرم بنا کر چھوڑا تھا تم کو بھی مجرم بنادے گا۔ یہ انکار زبان سے ہو یا عمل سے ایک ہی نتہج رکھتا ہے اور یہی مضمون قرآن کریم کے مختلف مقامات پر تصریف آیات کے تحت بیان کیا گیا ہے جیسے سورة النحل کی آیت 36 میں ، سورة النحل کی آیت 69 میں ، سورة العنکبوت کی آیت 20 میں اور سورة الروم کی آیت 42 میں مزید تفصیل کے لئے عروہ الوثقیٰ جلد دوم تفسیر سورة آل عمران کی آیت 137 پر نگاہ ڈال لیں۔
Top