Tafseer-e-Mazhari - Al-An'aam : 11
قُلْ سِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ ثُمَّ انْظُرُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِیْنَ
قُلْ : آپ کہ دیں سِيْرُوْا : سیر کرو فِي الْاَرْضِ : زمین (ملک) میں ثُمَّ : پھر انْظُرُوْا : دیکھو كَيْفَ : کیسا كَانَ : ہوا عَاقِبَةُ : انجام الْمُكَذِّبِيْنَ : جھٹلانے والے
کہو کہ (اے منکرین رسالت) ملک میں چلو پھرو پھر دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا
قل سیروا فی الارض (اے محمد ﷺ آپ کہہ دیجئے کہ زمین کی سیر کرو۔ خواہ جسمانی سفر کے ذریعہ سے ہو یا عقل و دانش اور عبرت اندوز سوچ بچار کی سیر ہو۔ ثم انظروا کیف کان عاقبۃ المکذبین پھر (پیغمبروں کو) جھوٹا قرار دینے والوں کے انجام کی کیفیت دیکھو یعنی دیکھو کہ ان کا انجام کار کیا ہوا اور کفر و تکذیب کے نتیجہ میں ان کی کیسی تباہی و ناکامی ہوئی۔ ایک شبہ دوسری آیت ہے قل سیروا فی الارض فانظروا کیف کان عاقبۃ المکذبین اور اس آیت میں ہے ثم انظروافاء صرف تعقیب کے لئے آتی ہے (یعنی فاء کے بعد جو مضمون ہوتا ہے وہ فاء سے پہلے والے مضمون کے بعد بغیر کسی توقف کے واقع ہوتا ہے) اور ثُمَّتراخی کے لئے آتا ہے (یعنی ثم کے بعد والا مضمون پہلے والے مضمون سے کچھ مدت اور وقفہ کے بعد واقع ہوتا ہے اب سوال یہ ہے) کہ سیر ارض کے بعد فوراً انجام نظر کے سامنے آنا ضروری ہے یا کچھ مدت کے بعد دونوں مضمونوں میں مطابقت کس طرح ممکن ہے۔ ازالہ سیر (کوئی لمحاتی اور آنی چیز نہیں بلکہ اس) کے لئے ممتد وقت اور مسافت کی ضرورت ہے ابتداء سیر اور انتہاء سیر کے درمیان کافی وقت ہوتا ہے اہل تکذیب کا کچھ انجام بد تو ابتداء سیر کے بعد ہی نظر کے سامنے آسکتا ہے اور ان کے ویران شہروں اور تباہ شدہ بستیوں کا پورا عبرت آفریں معائنہ انتہاء سیر کے بعد ہوتا ہے اوّل صورت کے لحاظ سے فاء کا استعمال کیا اور دوسری صورت کے لحاظ سے ثمَّ : کو ذکر کیا۔ بیضاوی نے لکھا ہے کہ اس آیت اور آیت سیروا فی الارض فانظروا میں فرق یہ ہے کہ فانظروا والی آیت میں تو سیرکا حکم صرف نظر کے لئے دیا گیا ہے اور اس آیت میں ایسا نہیں ہے اسی لئے کہا گیا ہے کہ اس آیت کا معنی یہ ہے کہ تجارت وغیرہ کے لئے سفر کرنا مباح ہے اور تباہ شدہ لوگوں کے آثار دیکھنا واجب ہے (یعنی تجارت وغیرہ کے لئے جاؤ تو لازم ہے کہ نافرمان کی ویران بستیاں اور ان کا انجام بد دیکھو) صاحب مدارک نے بھی یہی لکھا ہے بلکہ اتنا زائد لکھا ہے کہ اس آیت میں (سیر کا حکم بطور اباحت کے ہے اور ہلاک شدہ لوگوں کے آثار دیکھنے کا حکم وجوبی ہے اور دونوں حکموں کے درمیان) ثم ذکر کیا ہے کیونکہ اباحت و ایجاب میں کامل بعد ہے (اور ثم اس بعد پر دلالت کر رہا ہے) ۔ میں کہتا ہوں ان دونوں بزرگوں کے قول کا سنگ بنیاد یہ ہے کہ فاء کو سببیہ مانا گیا ہے اور سببیت کا تقاضا یہ ہے کہ سیر واقع میں نظر کا سبب ہے (یعنی سیر کے بعد نظر حاصل ہوتی ہی ہے) خواہ نظر مقصود اصلی ہو یا نہ ہو اب دونوں آیتوں کا مقصد یہ نکلا کہ دونوں چیزیں مطلوب ہیں مطلق سیر اور تباہ شدہ لوگوں کے انجام کا معائنہ مگر اس آیت میں چونکہ ثم ہے اس لئے سیر کا سبب نظر ہونا معلوم نہیں ہوتا اور دوسری آیت میں فاء ہے اس لئے سیر کا سبب نظر ہونا ضروری ہے اور دونوں آیتوں کا سیاق چاہتا ہے کہ امر کا اصل مقصد تو نظر انجام ہے اور سیر چونکہ نظر کا ذریعہ ہے اس لئے اس کا بھی حکم دے دیا گیا ہے اور چونکہ بالذات مقصود اور وسیلۂ مطلوب میں بہت زیادہ بعد ہے (مقصد اور ذریعہ مقصد دو الگ الگ چیزیں ہیں) اس لئے لفظ ثماستعمال کیا گیا اب دونوں آیتوں میں مطابقت پیدا کرنے کے لئے اس امر کی ضرورت نہیں رہتی کہ فانظروا والی آیت میں آغاز سیر اور ثم انظروا والی آیت میں انتہاء سیر مراد لی جائے۔
Top