Urwatul-Wusqaa - Al-An'aam : 10
وَ لَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِّنْ قَبْلِكَ فَحَاقَ بِالَّذِیْنَ سَخِرُوْا مِنْهُمْ مَّا كَانُوْا بِهٖ یَسْتَهْزِءُوْنَ۠   ۧ
وَلَقَدِ : اور البتہ اسْتُهْزِئَ : ہنسی کی گئی بِرُسُلٍ : رسولوں کے ساتھ مِّنْ : سے قَبْلِكَ : آپ سے پہلے فَحَاقَ : تو گھیر لیا بِالَّذِيْنَ : ان لوگوں کو جنہوں نے سَخِرُوْا : ہنسی کی مِنْهُمْ : ان سے مَّا : جو۔ جس كَانُوْا : وہ تھے بِهٖ : اس پر يَسْتَهْزِءُوْنَ : ہنسی کرتے
اور یہ واقعہ ہے کہ تم سے پہلے بھی رسولوں کی ہنسی اڑائی گئی تو جن لوگوں نے ہنسی اڑائی تھی ، وہ جس بات کی ہنسی اڑاتے تھے وہی بات ان پر آن پڑتی
آپ ﷺ سے پہلے رسولوں کی ہنسی بھی اڑائی گئی غور کرو کہ ہنسی اڑانے والوں کا انجام کیا ہوا ؟ : 17: یہ گویا نبی اعظم و آخر ﷺ کو تسلی دی جا رہی ہے کہ اے پیغمبر اسلام ! یہ استہزاء و تمسخر اور ایذاء رسانی کا معاملہ جو آپ ﷺ کی قوم آپ ﷺ کے ساتھ کر رہی ہے کچھ آپ ﷺ ہی کے ساتھ مخصوص نہیں آپ ﷺ سے پہلے بھی سب رسولوں کو ایسے دل دوز اور ہمت شکن واقعات سے سابقہ پڑا ہے مگر انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور انجام یہ ہوا کہ استہزاء اور تمسخر کرنے والی قوم کو اس عذاب نے آپکڑا جس کا تمسخر کیا کرتے تھے۔ دیکھو نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو اللہ کا پیغام سنایا لیکن قوم کی اکثریت نے اس کو قبول نہ کیا بلکہ الٹا نوح (علیہ السلام) کا مذاق اڑانا شروع کردیا نتیجہ کیا ہوا کہ سوائے چند معدودے آدمیوں کے جو نوح (علیہ السلام) پر ایمان لائے تھے پوری قوم کی قوم کو غرق کر کے رکھ دیا گیا اور ان غرق ہونے والوں میں آپ کی بیوی اور ایک بیٹا بھی تھا۔ جب ان کے اعمال غرق ہونے والوں کے سے تھے تو ان کو نبی (علیہ السلام) کا قرب بھی کچھ کام نہ آیا۔ اسی طرح ہود (علیہ السلام) کی قوم عاد کا ذکر پڑھو کہ جب انہوں نے سیدنا ہود (علیہ السلام) کی دعوت کا تمسخر اڑایا تو انجام کار وہ بھی اس لعنت کے مستحق ٹھہرے اور ان کو بھی سوائے ان لوگوں کے جو ہود (علیہ السلام) پر ایمان لائے تھے حرف غلط کی طرح مٹا کر رکھ دیا گیا پھر یہی حال صالح (علیہ السلام) کی قوم کا ہوا اور یہی معاملہ دوسرے انبیاء کرام کی امتوں کے ساتھ روا رکھا گیا تھا پھر جب سارے مخالفین کے ساتھ یہی کچھ ہورا آیا ہے تو اللہ تعالیٰ کا طریقہ کبھی بدلنے والا نہیں انجام آپ کا تمسخر اڑانے والوں کا بھی وہی ہوگا جو آپ سے پہلے دوسرے انبیاء کرام کا تمسخر اڑانے والوں کا ہوا۔ عذاب کی صورت خواہ کچھ ہو لیکن ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ ﷺ کے مخالفین کا انجام ویسا نہ ہو جیسا کہ دوسرے انبیائے کرام کے مخالفین کا ہوا ہاں ! ہماری سنت یہ بھی ہے کہ قوم کو عذاب اس وقت آتا ہے جب رسول کو اور اس کے ماننے والوں کو اس علاقہ سے نکال لیا جائے تاکہ وہ عذاب کی زد میں نہ آئیں اور یہی کچھ یہاں بھی ہوگا کہ جب تک آپ ﷺ اپنی قوم میں ہیں یہ لوگ عذاب کی گرفت سے محفوظ ہیں لیکن جب ان پر گرفت کا وقت آئے گا تو آپ ﷺ کو یقیناً یہاں سے نکل جانے کا حکم مل جائے گا اور یہی کچھ ہوا جس کا حکم آپ ﷺ کو دیا گیا اور آپ ﷺ کا تمسخر کرنے والے سب سے پہلے قحط کے عذاب میں مبتلا کردیئے گئے اور ازیں بعد انکو اپنے گھروں اور اپنے علاقے میں اللہ تعالیٰ نے ذلیل و خوار کر کے رکھ دیا اور رسول اللہ ﷺ کو کامیاب وکامران کردیا اور چونکہ آپ ﷺ کے بعد کوئی نیا نبی آنے والا نہ تھا اس لئے آپ ﷺ کی امت پر وہ عذاب نہ آیا جس کی پاداش میں پوری قوم غرق کر کے رکھ دی جاتی بلکہ آپ ﷺ کی امت تا قیامت باقی رہنا قرار پائی۔ اس لئے کہ آپ ﷺ کسی ایک علاقہ کے نبی نہیں تھے۔
Top