Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 11
قُلْ سِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ ثُمَّ انْظُرُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِیْنَ
قُلْ : آپ کہ دیں سِيْرُوْا : سیر کرو فِي الْاَرْضِ : زمین (ملک) میں ثُمَّ : پھر انْظُرُوْا : دیکھو كَيْفَ : کیسا كَانَ : ہوا عَاقِبَةُ : انجام الْمُكَذِّبِيْنَ : جھٹلانے والے
کہو ! ملک میں چلو پھرو اور دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیسا ہوا ؟
تمہید گزشتہ رکوع میں پروردگار عالم نے توحید ‘ رسالت اور آخرت جیسے اساسی عقائد کو بیان فرمایا اور ان کی تفہیم اور اثبات کے لیے ایسے دلائل فراہم کیے ‘ جن کے بعد ان عقائد کا انکار کرنا کم از کم ایک صاحب عقل و دانش اور تعصب سے خالی آدمی کے لیے ممکن نہیں رہتا۔ پھر اس ضمن میں مشرکینِ مکہ نے توحید ‘ آخرت اور ذات رسالت مآب ﷺ کے حوالے سے اعتراضات کے ساتھ ساتھ ‘ بعض عجیب و غریب مطالبات بھی کیے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کا جواب بھی عطا فرمایا۔ لیکن اس تمام اتمام حجت اور افہام و تفہیم کے بعد بھی ‘ جب مشرکینِ مکہ نے اپنا رویہ نہ بدلا ‘ بلکہ بجائے ایمان لانے کے تمسخر اور استہزاء میں اور بڑھتے چلے گئے اور وقت کے ساتھ ساتھ آنحضرت ﷺ اور آپ کے ساتھیوں کو اذیت دینے میں اور کھل کھیلنے لگے تو گزشتہ رکوع کی آخری آیت میں پروردگار نے آنحضرت ﷺ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ آپ ان بدبختوں کی ایذارسانی اور تمسخر سے دل برداشتہ نہ ہوں۔ اس لیے کہ یہ رویہ آپ کے ساتھ ایک نافرمان قوم کے حوالے سے کوئی پہلا واقعہ نہیں بلکہ تمام انبیاء و رسل کو نافرمان قوموں کے اسی رویہ سے واسطہ پڑتا رہا۔ اس راہ کی دو لازمی سنتیں رہی ہیں۔ ایک یہ کہ جب بھی کوئی رسول کسی قوم کی طرف اللہ کا دین لے کر آیا ہے تو اس قوم نے حتی الامکان اس دعوت کو قبول کرنے کی بجائے ‘ اس آنے والے رسول کا تمسخر اڑایا اور اس کے لیے زندگی دشوار کردی۔ دوسری سنت یہ رہی ہے کہ اس رویے پر اللہ کے اولوالعزم رسولوں نے کبھی حوصلہ نہیں ہارا اور انھوں نے اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی اور تبلیغ و دعوت کے فرض کی انجام دہی میں ‘ کبھی کمی نہیں آنے دی۔ یہ دونوں سنتیں یعنی دونوں رویے تبلیغ و دعوت کی تاریخ میں پہلو بہ پہلو چلتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ اس لیے اے پیغمبر ﷺ آپ کو اس سے ہرگز اثر قبول نہیں کرنا چاہیے بلکہ آپ کو اپنی تبلیغ و دعوت کی مساعی میں اضافہ کردینا چاہیے کیونکہ آپ کی نگاہوں کے سامنے ان بدبختوں کا انجام پوری طرح واضح ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ جو قوم بھی کسی رسول کی دعوت کو رد کردیتی ہے۔ بالآخر اللہ کے عذاب کا شکار ہوتی ہے۔ انھیں معلوم نہیں ہوتا کہ ان کا یہ استہزاء آمیز رویہ ‘ ان کے لیے کس بدترین عذاب کا باعث بننے والا ہے۔ لیکن آپ کو ان کے انجام سے متعلق چونکہ پوری آگاہی ہے ‘ اس لیے ان کو اس بدترین انجام سے بچانے کی یہی ایک صورت ہے کہ آپ اپنی کوششوں کو مزید تیز کردیں۔ یہ وہ باتیں ہیں جو ہم پچھلے رکوع میں پڑھ چکے ہیں۔ آج کے رکوع کی پہلی آیت میں آنحضرت ﷺ کو حکم دیا جا رہا ہے کہ آپ ان مشرکینِ مکہ کو سمجھایئے کہ تمہیں اگر دلائل کے حوالے سے میری دعوت سمجھ نہیں آرہی اور معجزات کا ظہور تمہارے لیے بےاثر ثابت ہو رہا ہے تو پھر کم از کم تاریخ کے آئینے میں ان قوموں کا انجام دیکھنے کی کوشش کرو جو تم سے پہلے اس صورتحال سے گزری تھیں۔ چناچہ ارشاد خداوندی ہے۔ قُلْ سِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ ثُمَّ انْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُکَذِّبِیْنَ ۔ (الانعام : 11) ” کہو ! ملک میں چلو پھرو اور دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیسا ہوا ؟ “۔ اللہ تعالیٰ کی آیات اور اس کے انبیاء کی تکذیب کرنے والوں کا انجام دیکھو ! انبیاء ان کی طرف دعوت لے کر آئے۔ لیکن انھوں نے اسے درخورِ اعتناء سمجھنے کی بجائے ‘ وہی رویہ اختیار کیا ‘ جو تم کرچکے ہو۔ تو دیکھو پھر ان کا انجام کیا ہوا۔ ان کی تاریخ تمہارے اپنے ملک میں جابجا پھیلی ہوئی ہے۔ تم ان قوموں کی تاریخ کے پیشتر واقعات سے واقف ہو کیونکہ وہ آج تک تمہاری قوم میں سینہ بہ سینہ منتقل ہوتے رہے ہیں اور مزید یہ کہ تم اپنے تجارتی اسفار ‘ میں ان کے کھنڈرات سے بھی گزرتے ہو اور ان کے یہ کھنڈرات ‘ ان کے اقتدار ‘ ان کی عظمت ‘ ان کی خوشحالی اور ان کی طاقت کے منہ بولتے ثبوت ہیں۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ساری قومیں ‘ اپنے اپنے وقتوں میں نہایت ترقی یافتہ قومیں تھیں اور نہایت پر تعیش زندگی گزار رہی تھیں۔ لیکن ان کے عقائد اور اخلاق کے بگاڑ نے جب ناگفتہ بہ صورت اختیار کرلی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی اصلاح کے لیے پیغمبر اور رسول بھیجے۔ جب انھوں نے ان کی دعوت قبول کرنے کی بجائے ان کے ساتھ وہی رویہ اختیار کیا جو مشرکینِ مکہ آنحضرت ﷺ سے اختیار کرچکے ہیں تو بالآخر ان میں سے ایک ایک قوم اللہ کے بدترین عذاب کا شکار ہوئی۔ یہ تاریخ کی ایسی یقینی اور قطعی شہادت ہے کہ جس سے انکار کرنا مشرکینِ مکہ کے لیے ممکن نہ تھا کیونکہ جیسا کہ عرض کیا گیا ہے ‘ وہ اپنے تجارتی اسفار میں ان علاقوں سے گزرتے تھے ‘ جہاں کبھی یہ قومیں آباد تھیں۔ ان کی توجہ اس چیز کی طرف دلائی جا رہی ہے کہ ذرا ان کھنڈرات پر کھڑے ہو کر غور کرنے کی زحمت کرو کہ یہ اتنی ترقی یافتہ قومیں ‘ آخر اس بدترین انجام کا شکار کیوں ہوئیں ؟ کہیں ایسا نہ ہو کہ جس طرح انھوں نے اپنے پیغمبروں کی ہر بات کو سمجھنے سے انکار کیا اور بالآخر اس انجام کو پہنچیں ‘ کہیں اے مشرکینِ مکہ ! تمہارا بھی یہی انجام نہ ہو۔ اس آیت کریمہ میں اگرچہ دونوں جملے آپس میں پوری طرح پیوست اور نہایت مربوط ہیں ‘ لیکن حقیقت میں دو الگ الگ باتیں ہیں ‘ جو اپنی انتہاء میں تو ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہیں ‘ لیکن اپنی ابتداء میں دونوں جدا جدا ہیں۔ پہلا یہ حکم دیا جا رہا ہے کہ زمین میں چل پھر کر دیکھو۔ اس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ شاید یہ کوئی سیرسپاٹے کا حکم ہے اور یہ کہا جا رہا ہے کہ تباہ شدہ قوموں کے آثار شاید انسانوں کے لیے دلچسپی اور خوشی کا باعث ہوتے ہیں۔ اس لیے جا کر ایسی تباہ شدہ قوموں کے کھنڈرات اور ان کے آثار کو دیکھ کر خوشی حاصل کرو اور وقت گزاری کا اچھا سامان پیدا کرو۔ لیکن دوسرے جملے میں واضح طور پر اس حکم کی وجہ بیان کی جا رہی ہے کہ ان علاقوں میں جا کر سیر کرنا مقصود نہیں ‘ نہ وہاں سے کلچر یا تاریخ نکالنا مقصود ہے۔ بلکہ مقصود صرف یہ ہے کہ اصلاً یہ تباہ شدہ بستیاں ان قوموں کی ہیں ‘ جنھوں نے اللہ کی دعوت قبول کرنے سے انکار کردیا تھا اور پیغمبروں کی تکذیب کی تھی۔ اس لیے یہ معلوم کرنے کی کوشش کرو کہ آخر یہ قومیں اس انجام کو کیوں پہنچیں ؟ جب تم اس نیت اور اس ارادے سے وہاں جاؤ گے تو تم جیسے جیسے ان کے اعمال سے واقف ہوتے جاؤ گے ‘ تمہیں ویسے ویسے وہاں سے عبرت اور نصیحت کا خزانہ ہاتھ آئے گا۔ تم اپنے بارے میں سوچنے پر مجبور ہوجاؤ گے کہ کہیں ہم اس رویے کو اختیار تو نہیں کرچکے ‘ جس رویے کے نتیجے میں ان قوموں کو یہ انجام دیکھنا پڑا۔ اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اسلام ہمیں یہ بات بتانا چاہتا ہے کہ جب کبھی تم ایسی بستیوں سے گزرو ‘ جو کبھی اللہ کے عذاب کا شکار ہوئیں اور اچانک انھیں صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا تو وہاں کسی اور چیز کو تلاش مت کرو ‘ بلکہ وہاں سے عبرت حاصل کرو۔ معذب مقامات کے متعلق حضور ﷺ کا طرز عمل یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب جنگ تبوک کے لیے تشریف لے جا رہے تھے تو راستے میں قوم صالح کے کھنڈرات سے گزرے۔ لیکن وہاں رکے نہیں۔ اگرچہ آپ نے حضرت صالح (علیہ السلام) کی طرف منسوب بعض چیزوں کی نشاندہی بھی فرمائی اور یہ بھی فرمایا کہ دیکھو ! یہ وہ کنواں ہے ‘ جس سے حضرت صالح (علیہ السلام) کی اونٹنی پانی پیا کرتی تھی۔ لیکن مسلمانوں کو حکم دیا کہ جلدی سے یہاں سے گزرنے کی کوشش کرو کیونکہ یہ ایک منحوس جگہ ہے۔ یہاں اللہ کا عذاب نازل ہوچکا ہے۔ یہاں سے جلدی نکلو اور ساتھ ہی اللہ سے پناہ مانگو کہ یا اللہ ! ہمیں ایسی صورتحال میں کبھی مبتلا نہ کرنا کہ ہم دنیا کے لیے عبرت بن کر رہ جائیں۔ اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ منیٰ کے پہلو میں وہ جگہ ہے ‘ جہاں ابرہہ پر پرندوں کے ذریعے اللہ نے سنگ باری کروائی تھی اور جس کے نتیجے میں اس کی ہزاروں افراد پر مشتمل فوج تباہ ہو کر رہ گئی اور خود ابرہہ بھی اس حال میں جہنم رسید ہوا کہ اس کا گوشت گل گل کر گرتا جا رہا تھا ‘ حتی کہ راستے ہی میں اسے موت آگئی۔ وہاں بھی آنحضرت ﷺ نے حجاج کو ٹھہرنے سے منع فرمایا ہے کہ یہ جگہ جائے عبرت ہے ‘ جائے قیام نہیں۔ اس سے مہذب قوموں کی تباہ شدہ بستیوں کے بارے میں اسلامی رویہ سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ ہم نے آج باقی دنیا کی طرح ایسی بستیوں کو یہ سمجھ رکھا ہے کہ یہ ہمارے اہل علم کی تحقیق اور ریسرچ کی جگہ ہے۔ موہنجو داڑو اور ہڑپہ جیسی جگہیں ہمارے لیے سیر گاہیں اور دلچسپی کی جگہ بن کے رہ گئی ہیں۔ ہمارے اہل علم وہاں سے کلچر نکالنے میں مصروف رہتے ہیں۔ اگرچہ بجائے خود یہ تصور کہ کلچر تباہ شدہ کھنڈرات سے نکلتا ہے اور یہ نظریات سے جنم نہیں لیتا بہت محل نظر ہے۔ تاہم میں اس کی مخالفت نہیں کرتا۔ آپ یہ کام بھی جاری رکھیئے ‘ لیکن ایسے کھنڈرات اور تباہ شدہ بستیوں سے صرف کلچر ہی نہیں ‘ عبرت حاصل کرنے کی بھی کوشش کی جائے کیونکہ اصل مقصود تو یہی ہے۔ لیکن یہاں تو حال یہ ہے ‘ جیسے مقصود انور نے نوحے کے انداز میں کہا تھا ؎ عبرت کی اک چھٹانک برآمد نہ ہو سکی کلچر نکل پڑا ہے منوں کے حساب سے مکذب قوم کسے کہتے ہیں ؟ اس آیت کا ایک اور پہلو بھی نہایت قابل توجہ ہے۔ وہ یہ کہ اس میں یہ فرمایا گیا ہے کہ اس سرزمین ‘ یعنی زمین عرب میں گھوم پھر کے دیکھو کہ مکذب قوموں کا انجام کیا ہوا۔ سوال یہ ہے کہ جن کو مکذبین کہا گیا ہے ‘ انھوں نے کس بات کی تکذیب کی ؟ اور اصل وہ موضوعِ بحث کیا تھا ‘ جس میں وہ اللہ کے رسولوں سے الجھتے تھے ؟ موضوع بحث یہ تھا کہ اللہ کے رسول انھیں یہ دعوت دیتے تھے کہ اس پوری کائنات اور خود تمہارا خالق اللہ ہے۔ اسی نے تمہیں پیدا کیا ہے ‘ اسی نے تمہیں زندگی دی ہے ‘ اسی نے تمہارے لیے زندگی کے امکانات پیدا کیے ہیں ‘ وہی تمہیں رزق دیتا ہے ‘ اس کی بیشمار نعمتیں ہیں ‘ جن سے تم لذت اندوز ہوتے ہو۔ تمہاری ساری صلاحیتیں ‘ توانائیاں ‘ احساسات ‘ انفعالات ‘ آرزوئیں اور امنگیں ‘ سب اس کی عطا کردہ ہیں۔ تم از اول تاآخر اس کے زیر احسان ہو اور اسی کی قدرت کی گرفت میں بھی ہو۔ اب سوال یہ ہے کہ جب تم اسی کی دی ہوئی زندگی گزار رہے ہو ‘ اسی کا دیا ہو ارزق کھاتے ہو ‘ اسی کی زمین پر رہتے ہو ‘ اسی کی عطاکی ہوئی قوتوں سے متمتع ہو رہے ہو ‘ تو کیا تمہاری زندگی ‘ تمہارے احساسات ‘ تمہاری صلاحیتوں ‘ تمہاری عقل و دانش اور تمہارے گھروں سے لے کر تمہارے اجتماعی اداروں تک ‘ صرف اسی کی حکومت اور اسی کی مرضی کا تسلط نہیں ہونا چاہے ؟ جب اسی نے تمہیں وجود دیا اور تمہیں زندگی بخشی ہے تو کیا اس کا یہ حق نہیں ہے کہ وہ اس وجود اور زندگی پر حکمرانی کرے ؟ جب اس نے تمہیں شعور اور عقل سے نوازا ہے تو کیا اس شعور اور عقل کی حدود مقرر کرنا اور فکری رہنمائی مہیا کرنا اسی کا حق نہیں ہے ؟ اگر تم ان باتوں کو مانتے ہو تو پھر تم اس کے سوا کسی اور کے سامنے کیسے جھکتے ہو ؟ تم اس کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کی بجائے اپنی مرضی کی زندگی کیوں گزارتے ہو ؟ لیکن ان قوموں نے بجائے ان باتوں کو سمجھنے اور قبول کرنے کے اس سے انکار کا رویہ اختیار کیا اور انھوں نے صاف کہا کہ ہم قانون خداوندی کو نہیں مانتے۔ ہم تو قانون نفس پر چلتے ہیں۔ ہم یہ مانتے ہیں کہ ہمیں سب کچھ ہمارے پروردگار نے عطا کیا ہے ‘ لیکن ہم اس پر کوئی پابندی قبول کرنے کو تیار نہیں۔ ممکن ہے یہ باتیں آپ کو عجیب لگتی ہوں کہ ان باتوں میں بڑی دانش اور بڑی اپیل ہے تو آخر وہ اس دعوت کو قبول کیوں نہیں کرتے تھے۔ لیکن اگر ہم خود اپنا جائزہ لے کر دیکھیں کہ ہم اپنی انفرادی زندگی سے لے کر اجتماعی زندگی تک ‘ کس کی راہنمائی میں زندگی گزارتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا رویہ معذب قوموں سے مختلف نہیں کیا ہم اپنی ذات میں شریعت اسلامی کی پابندیوں کو قبول کرتے ہیں اور کیا ہمارے اجتماعی ادارے ‘ اللہ کے بھیجے ہوئے قانون کی پیروی کرنے کے لیے تیار ہیں ؟ باوجود اس کے کہ ہم اللہ کی حاکمیت کے قائل ہیں ‘ لیکن کیا ہم اپنا تخت اقتدار اللہ کی شریعت کے لیے خالی کرنے کی زحمت گوارا کرسکتے ہیں ؟ پورا عالم اسلام ‘ ان تمام باتوں کو تسلیم کرتا ہے۔ لیکن عملی زندگی میں ان تمام باتوں کا انکار کرتا ہے۔ یہی رویہ ان کا بھی تھا۔ بالآخر اسی کی پاداش میں اللہ کے عذاب کا شکار ہوئے۔ یہاں معلوم ہوتا ہے پروردگار اس بات کی طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں کہ لوگو ! اگر تمہیں انبیاء کی دعوت ویسے سمجھ نہیں آتی اور تم اسے قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہو تو یہ بات سمجھنے کی کوشش کرو کہ تمہاری طرح ان قوموں نے بھی اسی طرح کی دعوت کو قبول کرنے سے انکار کیا تھا تو آج ان کا انجام تمہارے سامنے ہے۔ کیا ان کی تباہی اور بربادی کی داستانیں اور ان کے کھنڈرات تمہیں سمجھانے کے لیے کافی نہیں ہیں ؟ کاش ! کوئی ان کھنڈرات پر کھڑا ہو کر اسی طرح ان کی تباہی کے اسباب پوچھ سکتا اور اللہ کے نبیوں کی دعوت کی صداقت و حقانیت کے متعلق بھی ان سے سوال کرسکتا ‘ جیسے آنحضرت ﷺ نے غزوہ بدر کے بعد مقتولین بدر سے کیا تھا۔ آپ نے ان تمام بڑے بڑے قریش کے سرداروں سے ‘ جن کی لاشیں آپ نے ایک بند کنویں میں پھنکوا دیں تھیں ‘ کنویں کے منڈیر پر کھڑے ہو کر پوچھا تھا کہ اے ابوجہل ! اے عتبہ ! اے شیبہ اور اے فلاں اے فلاں تمہیں اب تو معلوم ہوگیا ہوگا کہ میں تمہیں جو کچھ کہتا تھا ‘ وہ سچ تھا اور تمہارا رویہ غلط تھا۔ حضرت عمر فاروق ( رض) نے عرض کیا کہ حضور ﷺ یہ لوگ تو مرچکے ہیں۔ یہ تو اب کچھ بھی سن نہیں سکتے۔ آپ نے فرمایا : یہ سنتے ہیں ‘ لیکن جواب نہیں دے سکتے۔ یہاں مکذبین کے انجام کی طرف توجہ دلا کر مشرکینِ مکہ سے بھی وہی سوال کیا جا رہا ہے جو ان قوموں اور ان کے رسولوں کے درمیان موضوع بحث اور کشمکش کا عنوان بنا رہا۔ ارشاد فرمایا :
Top