Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 11
قُلْ سِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ ثُمَّ انْظُرُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِیْنَ
قُلْ
: آپ کہ دیں
سِيْرُوْا
: سیر کرو
فِي الْاَرْضِ
: زمین (ملک) میں
ثُمَّ
: پھر
انْظُرُوْا
: دیکھو
كَيْفَ
: کیسا
كَانَ
: ہوا
عَاقِبَةُ
: انجام
الْمُكَذِّبِيْنَ
: جھٹلانے والے
کہو ! ملک میں چلو پھرو اور دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیسا ہوا ؟
تمہید گزشتہ رکوع میں پروردگار عالم نے توحید ‘ رسالت اور آخرت جیسے اساسی عقائد کو بیان فرمایا اور ان کی تفہیم اور اثبات کے لیے ایسے دلائل فراہم کیے ‘ جن کے بعد ان عقائد کا انکار کرنا کم از کم ایک صاحب عقل و دانش اور تعصب سے خالی آدمی کے لیے ممکن نہیں رہتا۔ پھر اس ضمن میں مشرکینِ مکہ نے توحید ‘ آخرت اور ذات رسالت مآب ﷺ کے حوالے سے اعتراضات کے ساتھ ساتھ ‘ بعض عجیب و غریب مطالبات بھی کیے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کا جواب بھی عطا فرمایا۔ لیکن اس تمام اتمام حجت اور افہام و تفہیم کے بعد بھی ‘ جب مشرکینِ مکہ نے اپنا رویہ نہ بدلا ‘ بلکہ بجائے ایمان لانے کے تمسخر اور استہزاء میں اور بڑھتے چلے گئے اور وقت کے ساتھ ساتھ آنحضرت ﷺ اور آپ کے ساتھیوں کو اذیت دینے میں اور کھل کھیلنے لگے تو گزشتہ رکوع کی آخری آیت میں پروردگار نے آنحضرت ﷺ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ آپ ان بدبختوں کی ایذارسانی اور تمسخر سے دل برداشتہ نہ ہوں۔ اس لیے کہ یہ رویہ آپ کے ساتھ ایک نافرمان قوم کے حوالے سے کوئی پہلا واقعہ نہیں بلکہ تمام انبیاء و رسل کو نافرمان قوموں کے اسی رویہ سے واسطہ پڑتا رہا۔ اس راہ کی دو لازمی سنتیں رہی ہیں۔ ایک یہ کہ جب بھی کوئی رسول کسی قوم کی طرف اللہ کا دین لے کر آیا ہے تو اس قوم نے حتی الامکان اس دعوت کو قبول کرنے کی بجائے ‘ اس آنے والے رسول کا تمسخر اڑایا اور اس کے لیے زندگی دشوار کردی۔ دوسری سنت یہ رہی ہے کہ اس رویے پر اللہ کے اولوالعزم رسولوں نے کبھی حوصلہ نہیں ہارا اور انھوں نے اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی اور تبلیغ و دعوت کے فرض کی انجام دہی میں ‘ کبھی کمی نہیں آنے دی۔ یہ دونوں سنتیں یعنی دونوں رویے تبلیغ و دعوت کی تاریخ میں پہلو بہ پہلو چلتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ اس لیے اے پیغمبر ﷺ آپ کو اس سے ہرگز اثر قبول نہیں کرنا چاہیے بلکہ آپ کو اپنی تبلیغ و دعوت کی مساعی میں اضافہ کردینا چاہیے کیونکہ آپ کی نگاہوں کے سامنے ان بدبختوں کا انجام پوری طرح واضح ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ جو قوم بھی کسی رسول کی دعوت کو رد کردیتی ہے۔ بالآخر اللہ کے عذاب کا شکار ہوتی ہے۔ انھیں معلوم نہیں ہوتا کہ ان کا یہ استہزاء آمیز رویہ ‘ ان کے لیے کس بدترین عذاب کا باعث بننے والا ہے۔ لیکن آپ کو ان کے انجام سے متعلق چونکہ پوری آگاہی ہے ‘ اس لیے ان کو اس بدترین انجام سے بچانے کی یہی ایک صورت ہے کہ آپ اپنی کوششوں کو مزید تیز کردیں۔ یہ وہ باتیں ہیں جو ہم پچھلے رکوع میں پڑھ چکے ہیں۔ آج کے رکوع کی پہلی آیت میں آنحضرت ﷺ کو حکم دیا جا رہا ہے کہ آپ ان مشرکینِ مکہ کو سمجھایئے کہ تمہیں اگر دلائل کے حوالے سے میری دعوت سمجھ نہیں آرہی اور معجزات کا ظہور تمہارے لیے بےاثر ثابت ہو رہا ہے تو پھر کم از کم تاریخ کے آئینے میں ان قوموں کا انجام دیکھنے کی کوشش کرو جو تم سے پہلے اس صورتحال سے گزری تھیں۔ چناچہ ارشاد خداوندی ہے۔ قُلْ سِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ ثُمَّ انْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُکَذِّبِیْنَ ۔ (الانعام : 11) ” کہو ! ملک میں چلو پھرو اور دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیسا ہوا ؟ “۔ اللہ تعالیٰ کی آیات اور اس کے انبیاء کی تکذیب کرنے والوں کا انجام دیکھو ! انبیاء ان کی طرف دعوت لے کر آئے۔ لیکن انھوں نے اسے درخورِ اعتناء سمجھنے کی بجائے ‘ وہی رویہ اختیار کیا ‘ جو تم کرچکے ہو۔ تو دیکھو پھر ان کا انجام کیا ہوا۔ ان کی تاریخ تمہارے اپنے ملک میں جابجا پھیلی ہوئی ہے۔ تم ان قوموں کی تاریخ کے پیشتر واقعات سے واقف ہو کیونکہ وہ آج تک تمہاری قوم میں سینہ بہ سینہ منتقل ہوتے رہے ہیں اور مزید یہ کہ تم اپنے تجارتی اسفار ‘ میں ان کے کھنڈرات سے بھی گزرتے ہو اور ان کے یہ کھنڈرات ‘ ان کے اقتدار ‘ ان کی عظمت ‘ ان کی خوشحالی اور ان کی طاقت کے منہ بولتے ثبوت ہیں۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ساری قومیں ‘ اپنے اپنے وقتوں میں نہایت ترقی یافتہ قومیں تھیں اور نہایت پر تعیش زندگی گزار رہی تھیں۔ لیکن ان کے عقائد اور اخلاق کے بگاڑ نے جب ناگفتہ بہ صورت اختیار کرلی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی اصلاح کے لیے پیغمبر اور رسول بھیجے۔ جب انھوں نے ان کی دعوت قبول کرنے کی بجائے ان کے ساتھ وہی رویہ اختیار کیا جو مشرکینِ مکہ آنحضرت ﷺ سے اختیار کرچکے ہیں تو بالآخر ان میں سے ایک ایک قوم اللہ کے بدترین عذاب کا شکار ہوئی۔ یہ تاریخ کی ایسی یقینی اور قطعی شہادت ہے کہ جس سے انکار کرنا مشرکینِ مکہ کے لیے ممکن نہ تھا کیونکہ جیسا کہ عرض کیا گیا ہے ‘ وہ اپنے تجارتی اسفار میں ان علاقوں سے گزرتے تھے ‘ جہاں کبھی یہ قومیں آباد تھیں۔ ان کی توجہ اس چیز کی طرف دلائی جا رہی ہے کہ ذرا ان کھنڈرات پر کھڑے ہو کر غور کرنے کی زحمت کرو کہ یہ اتنی ترقی یافتہ قومیں ‘ آخر اس بدترین انجام کا شکار کیوں ہوئیں ؟ کہیں ایسا نہ ہو کہ جس طرح انھوں نے اپنے پیغمبروں کی ہر بات کو سمجھنے سے انکار کیا اور بالآخر اس انجام کو پہنچیں ‘ کہیں اے مشرکینِ مکہ ! تمہارا بھی یہی انجام نہ ہو۔ اس آیت کریمہ میں اگرچہ دونوں جملے آپس میں پوری طرح پیوست اور نہایت مربوط ہیں ‘ لیکن حقیقت میں دو الگ الگ باتیں ہیں ‘ جو اپنی انتہاء میں تو ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہیں ‘ لیکن اپنی ابتداء میں دونوں جدا جدا ہیں۔ پہلا یہ حکم دیا جا رہا ہے کہ زمین میں چل پھر کر دیکھو۔ اس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ شاید یہ کوئی سیرسپاٹے کا حکم ہے اور یہ کہا جا رہا ہے کہ تباہ شدہ قوموں کے آثار شاید انسانوں کے لیے دلچسپی اور خوشی کا باعث ہوتے ہیں۔ اس لیے جا کر ایسی تباہ شدہ قوموں کے کھنڈرات اور ان کے آثار کو دیکھ کر خوشی حاصل کرو اور وقت گزاری کا اچھا سامان پیدا کرو۔ لیکن دوسرے جملے میں واضح طور پر اس حکم کی وجہ بیان کی جا رہی ہے کہ ان علاقوں میں جا کر سیر کرنا مقصود نہیں ‘ نہ وہاں سے کلچر یا تاریخ نکالنا مقصود ہے۔ بلکہ مقصود صرف یہ ہے کہ اصلاً یہ تباہ شدہ بستیاں ان قوموں کی ہیں ‘ جنھوں نے اللہ کی دعوت قبول کرنے سے انکار کردیا تھا اور پیغمبروں کی تکذیب کی تھی۔ اس لیے یہ معلوم کرنے کی کوشش کرو کہ آخر یہ قومیں اس انجام کو کیوں پہنچیں ؟ جب تم اس نیت اور اس ارادے سے وہاں جاؤ گے تو تم جیسے جیسے ان کے اعمال سے واقف ہوتے جاؤ گے ‘ تمہیں ویسے ویسے وہاں سے عبرت اور نصیحت کا خزانہ ہاتھ آئے گا۔ تم اپنے بارے میں سوچنے پر مجبور ہوجاؤ گے کہ کہیں ہم اس رویے کو اختیار تو نہیں کرچکے ‘ جس رویے کے نتیجے میں ان قوموں کو یہ انجام دیکھنا پڑا۔ اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اسلام ہمیں یہ بات بتانا چاہتا ہے کہ جب کبھی تم ایسی بستیوں سے گزرو ‘ جو کبھی اللہ کے عذاب کا شکار ہوئیں اور اچانک انھیں صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا تو وہاں کسی اور چیز کو تلاش مت کرو ‘ بلکہ وہاں سے عبرت حاصل کرو۔ معذب مقامات کے متعلق حضور ﷺ کا طرز عمل یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب جنگ تبوک کے لیے تشریف لے جا رہے تھے تو راستے میں قوم صالح کے کھنڈرات سے گزرے۔ لیکن وہاں رکے نہیں۔ اگرچہ آپ نے حضرت صالح (علیہ السلام) کی طرف منسوب بعض چیزوں کی نشاندہی بھی فرمائی اور یہ بھی فرمایا کہ دیکھو ! یہ وہ کنواں ہے ‘ جس سے حضرت صالح (علیہ السلام) کی اونٹنی پانی پیا کرتی تھی۔ لیکن مسلمانوں کو حکم دیا کہ جلدی سے یہاں سے گزرنے کی کوشش کرو کیونکہ یہ ایک منحوس جگہ ہے۔ یہاں اللہ کا عذاب نازل ہوچکا ہے۔ یہاں سے جلدی نکلو اور ساتھ ہی اللہ سے پناہ مانگو کہ یا اللہ ! ہمیں ایسی صورتحال میں کبھی مبتلا نہ کرنا کہ ہم دنیا کے لیے عبرت بن کر رہ جائیں۔ اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ منیٰ کے پہلو میں وہ جگہ ہے ‘ جہاں ابرہہ پر پرندوں کے ذریعے اللہ نے سنگ باری کروائی تھی اور جس کے نتیجے میں اس کی ہزاروں افراد پر مشتمل فوج تباہ ہو کر رہ گئی اور خود ابرہہ بھی اس حال میں جہنم رسید ہوا کہ اس کا گوشت گل گل کر گرتا جا رہا تھا ‘ حتی کہ راستے ہی میں اسے موت آگئی۔ وہاں بھی آنحضرت ﷺ نے حجاج کو ٹھہرنے سے منع فرمایا ہے کہ یہ جگہ جائے عبرت ہے ‘ جائے قیام نہیں۔ اس سے مہذب قوموں کی تباہ شدہ بستیوں کے بارے میں اسلامی رویہ سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ ہم نے آج باقی دنیا کی طرح ایسی بستیوں کو یہ سمجھ رکھا ہے کہ یہ ہمارے اہل علم کی تحقیق اور ریسرچ کی جگہ ہے۔ موہنجو داڑو اور ہڑپہ جیسی جگہیں ہمارے لیے سیر گاہیں اور دلچسپی کی جگہ بن کے رہ گئی ہیں۔ ہمارے اہل علم وہاں سے کلچر نکالنے میں مصروف رہتے ہیں۔ اگرچہ بجائے خود یہ تصور کہ کلچر تباہ شدہ کھنڈرات سے نکلتا ہے اور یہ نظریات سے جنم نہیں لیتا بہت محل نظر ہے۔ تاہم میں اس کی مخالفت نہیں کرتا۔ آپ یہ کام بھی جاری رکھیئے ‘ لیکن ایسے کھنڈرات اور تباہ شدہ بستیوں سے صرف کلچر ہی نہیں ‘ عبرت حاصل کرنے کی بھی کوشش کی جائے کیونکہ اصل مقصود تو یہی ہے۔ لیکن یہاں تو حال یہ ہے ‘ جیسے مقصود انور نے نوحے کے انداز میں کہا تھا ؎ عبرت کی اک چھٹانک برآمد نہ ہو سکی کلچر نکل پڑا ہے منوں کے حساب سے مکذب قوم کسے کہتے ہیں ؟ اس آیت کا ایک اور پہلو بھی نہایت قابل توجہ ہے۔ وہ یہ کہ اس میں یہ فرمایا گیا ہے کہ اس سرزمین ‘ یعنی زمین عرب میں گھوم پھر کے دیکھو کہ مکذب قوموں کا انجام کیا ہوا۔ سوال یہ ہے کہ جن کو مکذبین کہا گیا ہے ‘ انھوں نے کس بات کی تکذیب کی ؟ اور اصل وہ موضوعِ بحث کیا تھا ‘ جس میں وہ اللہ کے رسولوں سے الجھتے تھے ؟ موضوع بحث یہ تھا کہ اللہ کے رسول انھیں یہ دعوت دیتے تھے کہ اس پوری کائنات اور خود تمہارا خالق اللہ ہے۔ اسی نے تمہیں پیدا کیا ہے ‘ اسی نے تمہیں زندگی دی ہے ‘ اسی نے تمہارے لیے زندگی کے امکانات پیدا کیے ہیں ‘ وہی تمہیں رزق دیتا ہے ‘ اس کی بیشمار نعمتیں ہیں ‘ جن سے تم لذت اندوز ہوتے ہو۔ تمہاری ساری صلاحیتیں ‘ توانائیاں ‘ احساسات ‘ انفعالات ‘ آرزوئیں اور امنگیں ‘ سب اس کی عطا کردہ ہیں۔ تم از اول تاآخر اس کے زیر احسان ہو اور اسی کی قدرت کی گرفت میں بھی ہو۔ اب سوال یہ ہے کہ جب تم اسی کی دی ہوئی زندگی گزار رہے ہو ‘ اسی کا دیا ہو ارزق کھاتے ہو ‘ اسی کی زمین پر رہتے ہو ‘ اسی کی عطاکی ہوئی قوتوں سے متمتع ہو رہے ہو ‘ تو کیا تمہاری زندگی ‘ تمہارے احساسات ‘ تمہاری صلاحیتوں ‘ تمہاری عقل و دانش اور تمہارے گھروں سے لے کر تمہارے اجتماعی اداروں تک ‘ صرف اسی کی حکومت اور اسی کی مرضی کا تسلط نہیں ہونا چاہے ؟ جب اسی نے تمہیں وجود دیا اور تمہیں زندگی بخشی ہے تو کیا اس کا یہ حق نہیں ہے کہ وہ اس وجود اور زندگی پر حکمرانی کرے ؟ جب اس نے تمہیں شعور اور عقل سے نوازا ہے تو کیا اس شعور اور عقل کی حدود مقرر کرنا اور فکری رہنمائی مہیا کرنا اسی کا حق نہیں ہے ؟ اگر تم ان باتوں کو مانتے ہو تو پھر تم اس کے سوا کسی اور کے سامنے کیسے جھکتے ہو ؟ تم اس کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کی بجائے اپنی مرضی کی زندگی کیوں گزارتے ہو ؟ لیکن ان قوموں نے بجائے ان باتوں کو سمجھنے اور قبول کرنے کے اس سے انکار کا رویہ اختیار کیا اور انھوں نے صاف کہا کہ ہم قانون خداوندی کو نہیں مانتے۔ ہم تو قانون نفس پر چلتے ہیں۔ ہم یہ مانتے ہیں کہ ہمیں سب کچھ ہمارے پروردگار نے عطا کیا ہے ‘ لیکن ہم اس پر کوئی پابندی قبول کرنے کو تیار نہیں۔ ممکن ہے یہ باتیں آپ کو عجیب لگتی ہوں کہ ان باتوں میں بڑی دانش اور بڑی اپیل ہے تو آخر وہ اس دعوت کو قبول کیوں نہیں کرتے تھے۔ لیکن اگر ہم خود اپنا جائزہ لے کر دیکھیں کہ ہم اپنی انفرادی زندگی سے لے کر اجتماعی زندگی تک ‘ کس کی راہنمائی میں زندگی گزارتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا رویہ معذب قوموں سے مختلف نہیں کیا ہم اپنی ذات میں شریعت اسلامی کی پابندیوں کو قبول کرتے ہیں اور کیا ہمارے اجتماعی ادارے ‘ اللہ کے بھیجے ہوئے قانون کی پیروی کرنے کے لیے تیار ہیں ؟ باوجود اس کے کہ ہم اللہ کی حاکمیت کے قائل ہیں ‘ لیکن کیا ہم اپنا تخت اقتدار اللہ کی شریعت کے لیے خالی کرنے کی زحمت گوارا کرسکتے ہیں ؟ پورا عالم اسلام ‘ ان تمام باتوں کو تسلیم کرتا ہے۔ لیکن عملی زندگی میں ان تمام باتوں کا انکار کرتا ہے۔ یہی رویہ ان کا بھی تھا۔ بالآخر اسی کی پاداش میں اللہ کے عذاب کا شکار ہوئے۔ یہاں معلوم ہوتا ہے پروردگار اس بات کی طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں کہ لوگو ! اگر تمہیں انبیاء کی دعوت ویسے سمجھ نہیں آتی اور تم اسے قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہو تو یہ بات سمجھنے کی کوشش کرو کہ تمہاری طرح ان قوموں نے بھی اسی طرح کی دعوت کو قبول کرنے سے انکار کیا تھا تو آج ان کا انجام تمہارے سامنے ہے۔ کیا ان کی تباہی اور بربادی کی داستانیں اور ان کے کھنڈرات تمہیں سمجھانے کے لیے کافی نہیں ہیں ؟ کاش ! کوئی ان کھنڈرات پر کھڑا ہو کر اسی طرح ان کی تباہی کے اسباب پوچھ سکتا اور اللہ کے نبیوں کی دعوت کی صداقت و حقانیت کے متعلق بھی ان سے سوال کرسکتا ‘ جیسے آنحضرت ﷺ نے غزوہ بدر کے بعد مقتولین بدر سے کیا تھا۔ آپ نے ان تمام بڑے بڑے قریش کے سرداروں سے ‘ جن کی لاشیں آپ نے ایک بند کنویں میں پھنکوا دیں تھیں ‘ کنویں کے منڈیر پر کھڑے ہو کر پوچھا تھا کہ اے ابوجہل ! اے عتبہ ! اے شیبہ اور اے فلاں اے فلاں تمہیں اب تو معلوم ہوگیا ہوگا کہ میں تمہیں جو کچھ کہتا تھا ‘ وہ سچ تھا اور تمہارا رویہ غلط تھا۔ حضرت عمر فاروق ( رض) نے عرض کیا کہ حضور ﷺ یہ لوگ تو مرچکے ہیں۔ یہ تو اب کچھ بھی سن نہیں سکتے۔ آپ نے فرمایا : یہ سنتے ہیں ‘ لیکن جواب نہیں دے سکتے۔ یہاں مکذبین کے انجام کی طرف توجہ دلا کر مشرکینِ مکہ سے بھی وہی سوال کیا جا رہا ہے جو ان قوموں اور ان کے رسولوں کے درمیان موضوع بحث اور کشمکش کا عنوان بنا رہا۔ ارشاد فرمایا :
Top