Al-Qurtubi - Al-An'aam : 11
قُلْ سِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ ثُمَّ انْظُرُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِیْنَ
قُلْ : آپ کہ دیں سِيْرُوْا : سیر کرو فِي الْاَرْضِ : زمین (ملک) میں ثُمَّ : پھر انْظُرُوْا : دیکھو كَيْفَ : کیسا كَانَ : ہوا عَاقِبَةُ : انجام الْمُكَذِّبِيْنَ : جھٹلانے والے
کہو کہ (اے منکرین رسالت) ملک میں چلو پھرو پھر دیکھو کہ جھٹلانے نے والوں کا کیا انجام ہوا۔
آیت نمبر : 11 تا 12۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” قل سیروا فی الارض “ یعنی اے پیارے محمد ﷺ ان استہزا کرنے والوں اور جھٹلانے والوں کو کہو کہ زمین میں سفر کرو اور دیکھو اور خبر طلب کرو تاکہ تم جان لو جو عذاب اور عقاب تم سے پہلے کافروں پر اترا ایسا سفر کرنا مستحب ہے جب کہ پہلی امتوں اور اجڑے ہوئے شہروں کے کھنڈرات سے عبرت حاصل کرنے کے لیے ہو اور ان کا آخری انجام دیکھنے کے لیے ہو، یہاں مکذبون سے مراد وہیں جنہوں نے حق اور حق والوں کو جھٹلایا نہ کہ وہ جنہوں نے باطل کو جھٹلایا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” قل لمن مافی السموت والارض “ یہ بھی ان کے خلاف حجت ہے یعنی اے محمد ﷺ آپ سے پوچھئے : کس کا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے ؟ اگر وہ کہیں کہ کس کا ہے ؟ تو تم کہو : اللہ کے لیے ہے یعنی جب ثابت ہوگیا کہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے وہ اس کا ہے اور وہی تمام کا خالق ہے، ان کے اعتراف کرنے کے ساتھ یا ان پر حجت قائم کرنے کے ساتھ تو اللہ تعالیٰ پھر اس پر بھی قادر ہے کہ وہ انہیں جلدی عذاب دے اور انہیں موت کے بعد اٹھائے لیکن (آیت) ” کتب علی نفسہ الرحمۃ “ اس نے اپنے آپ پر رحمت کرنا لازم کرلیا ہے، اس نے اپنی جناب سے فضل وکرم کا وعدہ فرمایا ہے اس لیے اس نے ڈھیل دی ہے، یہاں نفس کا ذکر فرمایا مراد اس کو وجوب ہے اور وغدہ کی تاکید ہے اور اس کے علاوہ وسائط اٹھانا ہے کلام کا مطلب یہ ہے کہ اس نے روگردانی کرنے والوں پر مہربانی فرمائی ہے کہ وہ انہیں ڈھیل دیتا ہے کہ وہ اس کی بارگاہ کی طرف لوٹ آئیں اس نے خبر دی کہ وہ اپنے بندوں پر رحیم ہے وہ انہیں جلدی عذاب نہیں دیتا بلکہ وہ ان سے تو بہ اور رجوع کو قبول فرماتا ہے۔ صحیح مسلم میں ہے حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے فرمایا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا فرمایا تو اس نے کتاب میں اپنے اوپر یہ لازم کرلیا، وہ کتاب اس کے پاس ہے، کہ میری رحمت میری غضب پر غالب ہے ‘(1) (صحیح مسلم، کتاب التوبہ، جلد 2 صفحہ 356 ) یعنی جب اس نے اپنا فیصلہ ظاہر فرمایا اور جس کے لیے چاہا ظاہر فرمایا تو اس نے لوح محفوظ میں یہ تحریر ظاہر فرمائی یا جس میں ظاہر کرنا چاہا، اس کا مقتضا یہ ہے کہ خبر سچ ہے اور وعدہ حق ہے کہ میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے یعنی میری رحمت میرے غضب سے سبقت لے جاتی ہے اور اس پر زائد ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” لیجمعنکم “ لام قسم ہے نون تاکید ہے، فراء وغیرہ نے کہا : یہ جائز ہے کہ (آیت) ” الرحمۃ پر کلام مکمل ہو اور بابعد وضاحت کی جہت سے نئی کلام ہو، پس (آیت) ” لیجمعنکم “ کا معنی ہوگا وہ تمہارے جمع کرنے کو مؤخر کرے گا اور وہ تمہیں مہلت دے گا، بعض علماء نے فرمایا : وہ تمہیں قبور میں جمع کرے گا اس دن تک جس کا تم انکار کرتے ہو بعض علماء نے فرمایا : الی بمعنی فی ہے یعنی وہ تمہیں قیامت کے دن میں جمع کرے گا، بعض علماء نے فرمایا : یہ بھی جائز ہے کہ (آیت) ” لیجمعنکم “ الرحمۃ “ سے بدل کی بنا پر منصوب ہو اس صورت میں لام بمعنی ان ہوگا، معنی یہ ہوگا کہ تمہارے رب نے تمہیں جمع کرنا اپنے اوپر لازم کرلیا ہے، اسی طرح بہت سے نحویوں نے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں کہا ہے : (آیت) ” ثم بدالھم من بعد ماراوالایت لیسجننہ (یوسف : 35) یعنی ان یسجنوہ، بعض علماء نے فرمایا : (آیت) ” کتب کی وجہ سے محل نصب میں ہے، جیسا کہ (ان) اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں ہے : (آیت) ” کتب ربکم علی نفسہ الرحمۃ انہ من عمل منکم سوءا بجھالۃ “۔ یہ رحمت کی تفسیر کرنے والا ہے۔ کہ وہ قیامت تک مہلت دیتا ہے یہ زجاج سے مروی ہے۔ (آیت) ” لاریب فیہ “ اس میں شک نہیں (آیت) ’ الذین خسروا انفسھم فھم لایؤمنون “۔ یہ مبتدا خبر ہیں، یہ زجاج نے کہا ہے۔ یہ عمدہ قول ہے اس میں سے جو کچھ اس کے متعلق کہا گیا ہے، تو کہتا ہے : الذی یکرمنی فلہ درہم، فاشرط اور جزا کے معنی کے مضمن ہونے کی وجہ سے ہے اخفش نے کہا : اگر تو چاہے تو (آیت) ” الذین “ کو (آیت) ” لیجمعنکم “ میں کم ضمیر سے بدل ہونے کی بنا پر محل نصب میں بنا دے یعنی وہ ضرور ان مشرکوں کو جمع کرے گا جنہوں نے نقصان میں ڈال دیا اپنے آپکو، مبرد نے اس اسکا انکار کیا ہے، اس نے کہا : یہ خطا ہے کیونکہ اس کو مخاطب اور مخاطب سے بدل نہیں بنایا جاتا یہ نہیں کہا جاتا : مررت بک زید اور نہ یہ کہا جاتا ہے : لا امررت بی زید کیونکہ یہ مشکل ہی نہیں ہے کہ بیان کیا جائے قتبی نے یہ جائز ہے کہ (آیت) ” الذین المکذبین “ سے بدل ہو جس کا ذکر پہلے ہوچکا ہے یا یہ ان کی صفت ہو بعض نے فرمایا (آیت) ” نداء مفرد ہے۔
Top