Tafseer-e-Majidi - Al-An'aam : 11
قُلْ سِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ ثُمَّ انْظُرُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِیْنَ
قُلْ : آپ کہ دیں سِيْرُوْا : سیر کرو فِي الْاَرْضِ : زمین (ملک) میں ثُمَّ : پھر انْظُرُوْا : دیکھو كَيْفَ : کیسا كَانَ : ہوا عَاقِبَةُ : انجام الْمُكَذِّبِيْنَ : جھٹلانے والے
آپ کہیے کہ زمین پر چلو پھرو، پھر دیکھ لو کہ تکذیب کرنے والوں کا کیا انجام ہوا،15 ۔
15 ۔ اس میں تعلیم وترغیب ہے اس کی کہ انسان پچھلی تباہ شدہ قوموں کے حالات سے عبرت ونصیحت حاصل کرے اور بڑی بڑی مہذب وبااقبال سلطنتوں کے آثار اور مٹے ہوئے کھنڈروں سے سبق لے۔۔۔۔ نقطہ نظر صحیح اور توحیدی ہوجائے تو مسلمان طالب علم کے لیے جغرافیہ تاریخ اور اثریات ان سارے علوم کا مطالعہ عبادت بن سکتا ہے۔ ھذا السفر مندوب الیہ اذا کان علی سبیل الاعتبار باثار من خلامن الامم واھل الدیار (قرطبی) (آیت) ” ثم انظروا “۔ امام رازی (رح) کی نکتہ رسی نے یہاں ایک عجیب نکتہ پیدا کیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ اگر یہاں فانظروا ہوتا تو اس کے معنی یہ ہوتے کہ اسی عبرت پذیری کی غرض سے سفر کرو۔ (آیت) ” ثم انظروا “۔ نے سفر کا دارومدار اس نظر عبرت پر نہ رکھا، بلکہ زیادہ گنجائش پیدا کردی، اب سفر ہر جائز غرض کے لیے مباح ہے۔ اور عبرت پذیری کی غرض سے واجب۔ اماقولہ سیروا فی الارض ثم انظروا فمعناہ اباحۃ السیر فی الارض للتجارۃ وغیرھا من المنافع وایجاب النظر فی اثار لھالکین (کبیر)
Top