Asrar-ut-Tanzil - Al-An'aam : 11
قُلْ سِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ ثُمَّ انْظُرُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِیْنَ
قُلْ : آپ کہ دیں سِيْرُوْا : سیر کرو فِي الْاَرْضِ : زمین (ملک) میں ثُمَّ : پھر انْظُرُوْا : دیکھو كَيْفَ : کیسا كَانَ : ہوا عَاقِبَةُ : انجام الْمُكَذِّبِيْنَ : جھٹلانے والے
فرما دیجئے زمین میں چلو پھرو پھر دیکھو جھٹلانے والوں کا انجام کیسا ہوا
رکوع نمبر 2 ۔ آیات 11 تا 20 ۔ اسرار و معارف : ان سے کہیے زمین کا سینہ بھی تو کھلے ہوئے اوراق کی طرح گذشتہ قوموں کے حالات بیان کر رہا ہے ذرا تم بھی چل پھر کر دیکھو یہ اجڑی ہوئی بستیاں اور مسمار شدہ قلعے اپنے بنانے والوں کے گناہوں کی ڈھال نہ بن سکے اور نہ انہیں بچا سکے نہ خود بچ سکے اگر تم تکذیب کا راستہ اختیار کروگے تو سوائے تباہی کے تمہارے حصے میں بھی کچھ نہیں آئے گا۔ ذرا ان سے یہ تو پوچھا چاہئے کہ یہ جو کچھ زمینوں اور آسمانوں میں ہے یہ ہے کس کا اسکا مالک کون ہے پھر انہیں بتا دیجئے کہ یہ صرف اور صرف اللہ کی ملکیت ہے جس نے خود اپنی قدرت کاملہ سے یہ سب کچھ پیدا کیا ہے نہ پیدا کرنے میں کسی نے اس کی مدد کی نہ ملکیت میں کوئی اس کا کوئی حصہ دار ہے اب یہ کہیں گے کہ یہ تو اس کے دشمن بھی کھاتے ہیں اگر صرف اس کا ہے کہ تو کفار مشرکین اور منکرین کو کیوں دیتا ہے تو انہیں بتا دیجئے کہ یہ اس کی رحمت عامہ ہے اس کا کرم ہے یہ دنیا اس کے عمومی اظہار کا مقام ہے اس نے یہاں اپنی بخشش عام کردی اگر صرف ماننے والوں کو دیتا تو لوگ مجبورا مانتے اور مجبوری کا ماننا اسے قبول نہیں لہذا دنیا کی دولت ایمان کے ساتھ مشروط نہیں کی بلکہ رحمت مجسم ﷺ تمہیں دعوت دینے تمہارے پاس تشریف لائے ہیں مگر اس کا یہ معنی مت سمجھو کہ سدا ایسا ہی حال رہے گا بلکہ یہ دنیا ختم ہونے والی ہے جیسا کہ روزانہ ہمارے گرد لوگ مرتے ہیں آخر سب دنیا ختم ہو کر قیامت قائم ہوگی اور وہاں اگلے پچھلے تمہارے سمیت سب لوگ حاضر ہوں گے یہ اتنی یقینی بات ہے کہ اس میں معمولی سا شبہہ کرنے کی گنجائش نہیں وہاں رحمت خاصہ کا ظہور ہوگا اور صرف ان لوگوں تک رحمت تقسیم ہوگی جن میں ایمان ہوگا پھر تم دیکھ لو گے کہ ایمان نہ لانے والوں نے اپنا کس قدر نقصان کرلیا بلکہ اپنے آپ کو تباہ کرلیا۔ کیونکہ اللہ نے اپنے ذمہ رحمت لکھ دی تھی اس نے کسی کو اس سے محروم نہیں فرمایا یہ انسان تھا جس نے اس کے دامان رحمت کو جھٹک دیا اور خواہشاتِ نفس اور شیطان کی پیروی اختیار کرکے اللہ کی رحمت سے محروم ہوگیا۔ لوگو یقین کرو رات دن میں اگر کسی بھی چیز کا وجود ہے یا کوئی چیز قرار پکڑتی ہے تو وہ اسی کی ہے صرف اس کی اور وہ سب کچھ سنتا بھی ہے اور جانتا بھی۔ یہ اسلام کا وہ انقلابی نظریہ ہے جس نے دنیائے کفر کو ہلاکر رکھ دیا۔ کفار آخرت سے واقف نہ تھے اور نہ یہ بات ان کے بس میں تھی۔ کہ علوم آخرت کے حاصل کرنے کا ذریعہ نور نبوت ہے اور بس۔ اس سے کفار کے دل خالی تھے تو انہوں نے بعض رسومات ایجاد کرکے ان کے ساتھ بطور نتیجہ کے دنیا ہی کی نعمتوں کو منسلک کردیا اور یوں ایک مذہب نام کی شئے وجود میں آگئی یہ تمام مذاہب باطلہ کا مشترکہ فلسفہ ہے اگرچہ رسومات اور ان کے ساتھ وابستہ نتائج میں فرق ہو مگر مرکزی خیال سب میں یہی کار فرما ہے اسلام نے اس سارے فلسفے کو رد کردیا اور دو طرح سے کیا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ اللہ اکیلا خالق ہے اور باقی سب مخلوق اس لیے عبادت کا حق صرف اللہ تعالیٰ کا ہے اس کے سوا کسی دوسرے کی عبادت نہ کی جائے گی عبادت کمال اطاعت کا نام ہے بےچون و چرا غلامی یعنی یہ ساری رسومات جو مذاہب کے نام پر بنی ہیں غلط ہیں مذہب متعین کرنا اللہ کا حق ہے دوسرے ہر چیز ہے ہی اس کی مالک وہ ہے کوئی دوسرا تمہیں کیسے دے سکتا ہے وہ جو چاہے دے اور جو نہ چاہے وہ نہیں مل سکتا پھر اس کی ذات ایسی ہے کہ ہر بات کو صرف سنتا ہی نہیں ہر شخص کے اس ھال سے بھی واقف ہے جس سے وہ خود بھی واقف نہیں مانگنا تو ایک کھلی سی بات ہے آدمی تو وہی مانگے گا جس کی ضرورت کا اسے احساس ہوگا مگر اللہ تعالیٰ اس سے بہت زیادہ جانتا ہے خود آدمی کو اپنی موجودہ ضرورت کا بھی صحیح اندازہ نہیں ہوسکتا جبکہ اللہ اس کی آئندہ ضرورتوں کو بھی جانتا ہے۔ اللہ والوں کا کام : ان سے کہیے کیا یہ انصاف ہوگا کہ ایسی ہستی کو چھوڑ کر اس کے سوا دوسروں کو اپنا مددگار بناؤں اور اپنی ضروریات کے لیے تمہارے فرضی خداؤں کو پکاروں یاد رہے ہر ضرورت کا سوال اللہ تعالیٰ ہی سے کرنا اسلام ہے اور اللہ والوں سے اس کا سلیقہ سیکھا جاتا ہے اسی طرح انبیاء و صلحاء کے توسل سے دعا کرنا جائز ہے جس کی بات لفظ وسیلہ کی بحث میں گزر چکی مانگا بھی اللہ ہی سے جائیگا اور عبادت بھی اسی کی کی جائے گی ۔ پکارا بھی اسی کو جائے گا۔ اس لیے کہ وہ ارض و سما یعنی سب عالم کا بنانے والا ہے وہ خالق ہے باقی سب مخلوق۔ ساری مخلوق خود اپنی بقا کے لیے اس کی محتاج ہے کسی دوسرے کی فریاد رسی کیا کرسکے گی اور وہ کسی کا محتاج نہیں نہ اس کی بارگاہ میں کسی چیز کی کمی ہے ساری مخلوق کو رزق دیا جاتا ہے خواہ پانی میں ہے یا خشکی پر فضا میں ہے یا آسمان کا فرشتہ سب کی غذا ہے حیوانات اور نباتات کی غذا سے تو عام آدمی واقف ہے فرشتے کی غذا بھی ہے اور وہ ہے ذکر الہی اسی طرح ہر وہ شے جو اللہ کا ذکر کرتی ہے باقی رہتی ہے ورنہ فنا ہوجاتی ہے یعنی ہر شے کو رزق دیا جاتا ہے مگر وہ کسی کا محتاج نہیں نہ اسے رزق کی ضرورت ہے ساری کائنات اس کے قائم رکھنے سے قائم ہے اور وہ خود اپنی ذات سے قائم ہے کسی کا محتاج نہیں ایسی عظیم ذات کو چھوڑ کر اس کے بندوں غلاموں اور محتاجوں کو اپنا معبود مان لوں حالانکہ اس نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں ماننے والوں کے لیے مثال قائم کروں اور اطاعت کرنے والوں میں اپنے آپ کو پہلا آدمی ثابت کروں اور کبھی بھی اس کی ذات یا صفات میں کسی کی شرکت کا تصور دل میں نہ لاؤں۔ میں تو ایسا ہی کروں گا اور تمہیں بھی ایسا ہی کرنا چاہئے کہ یہی انسانیت کی عظمت کا راستہ ہے۔ اس کے خلاف جو راستہ ہے وہ نافرمانی کا راستہ ہے جس پر کسی بھی نبی کا چلنا ممکن نہیں اس لیے کہ نبی معصوم ہوتا ہے اس میں گناہ اور خطا کا مادہ ہی نہیں ہوتا لیکن اگر بفرض محال نبی بھی اس راستہ پر چل پڑے تو اس کے منطقی انجام ہی کو پالے گا یعنی اللہ کا عذاب جس کا فیصلہ ایک بہت بڑے دن میں کیا جائے گا ایک مثالی دن جس روز ساری انسانیت بیک وقت حاضر ہو کر اپنے اعمال کا بدلہ پائے گی لہذا تم نے اگر یہ راہ اپنائی ہے تو اس میں کوئی جائے پناہ نہیں۔ اور یاد رکھو سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ اس روز انسان اللہ تعالیٰ کی رحمت کو پا لے اور بخشا جائے مگر کفر رحمت کا محل ہی نہیں یہ تو غضب کا محل ہے ایمان موجود ہو تو خطائیں معاف ہو کر رحمت الہی کی پناہ مل سکتی ہے مگر کافر کے لیے اس کا کوئی موقع نہ ہوگا اور اس روز سے جو زندگی شروع ہوگی وہ کبھی ختم ہوگی نہ بنائی یا بگاڑ جاسکے گی اس دنیا میں سب کچھ کرکے جانا ہے۔ اگر اللہ تم پر مصیبت بھیج دے اور ساری مخلوق مل کر بھی اسے ہٹانا چاہے ہرگز نہ ہٹا سکے گی جب تک وہ خود ہی نہ ہٹا دے اور اگر وہ کوئی نعمت دینا چاہے تو ساری مخلوق مل کر چھین نہیں سکتی وہ خود جو چاہے کرسکتا ہے اور اپنے بندوں پہ اپنی مخلوق پہ اسے مکم اختیار حاصل ہے وہ سب کے حال سے واقف بھی ہے مگر دانا تر ہے اس کی حکمت کے تقاضے کے مطابق دنیا چل رہی ہے ایک ایک کام میں سینکڑوں حکمتیں پوشیدہ ہوتی ہیں۔ ان سب باتوں پہ اگر تمہیں گواہی کی ضرورت ہو تو اللہ سے بڑا گواہ اور کون ہوسکتا ہے اور اس کی گواہی سے بڑی گواہی کا تو کوئی تصور نہیں میرے اور تمہارے درمیان وہی گواہ ہے کہ میں کس خلوص سے اور کتنی محبت سے تمہیں حق کی طرف دعوت دے رہا ہوں اور اسی غرض سے مجھ پہ یہ قرآن نازل ہوا ہے کہ آنے والے خطرے سے تمہیں بروقت آگاہ کردوں نہ صرف تم بلکہ میرا مخاطب ہر وہ شخص ہے جس تک یہ قرآن پہنچے۔ اسی لیے ارشاد فرمایا کہ میری طرف سے پہنچا دو خواہ تمہارے پاس ایک آیت ہو اور صحابہ فرمایا کرتے تھے کہ جس نے قرآن سن لیا اس نے نہ صرف اللہ تعالیٰ کا کلام سنا آپ ﷺ کی بات اور دعوت بھی سن لی۔ لہذا قیامت تک دنیا کے جس گوشے جس حصے میں یہ کلام پہنچے گا میری بات پہنچتی رہے گی اور لوگوں کو موت سے قبل ان خطرات کی نشاندہی ہوتی رہے گی جو موت کے پردے کے پیچھے ہیں۔ اب تم بتاؤ کیا تم اب بھی یہی کہتے ہو کہ اللہ کے سوا کسی دوسرے کو بھی عبادت کا حق حاصل ہے اور بھی ہے کوئی عبادت کے قابل اگر تم اس بات پر بضد رہو تو سن لو میں یہ ہرگز نہیں کہتا بلکہ میری شہادت یہ ہے کہ اللہ کی اکیلی ذات ہے جو عبادت کے لائق ہے اور تمہاری تمام مشرکانہ باتوں اور رسومات سے بیزاری اور برات کا اعلان کرتا ہوں۔ رہ گئے یہ اہل کتاب ان کی بابت خود رب جلیل فرماتے ہیں کہ ان کی کتابوں میں اس قدر تفصیل سے نشانیاں اور حالات بیان ہوئے ہیں کہ یہ میرے رسول ﷺ کو اس طرح یقین کے ساتھ پہچانتے ہیں جس طرح کوئی اپنی اولاد کو پہچانتا ہے یا جس طرح یہ خود اپنے بچوں کو پہچانتے ہیں پھر مانتے کیوں نہیں اس لیے کہ انہوں نے خسارے کا سودا کرلیا ہے یعنی گناہ آلود زندگی اپنا لی ہے اور گناہ رفتہ رفتہ دلوں کو سیاہ کردیتا ہے پھر ان میں ایمان قبول کرنے کی اہلیت ہی نہیں رہتی۔
Top