Tafheem-ul-Quran - Al-Baqara : 276
یَمْحَقُ اللّٰهُ الرِّبٰوا وَ یُرْبِی الصَّدَقٰتِ١ؕ وَ اللّٰهُ لَا یُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ اَثِیْمٍ
يَمْحَقُ : مٹاتا ہے اللّٰهُ : اللہ الرِّبٰوا : سود وَيُرْبِي : اور بڑھاتا ہے الصَّدَقٰتِ : خیرات وَاللّٰهُ : اور اللہ لَا يُحِبُّ : پسند نہیں کرتا كُلَّ : ہر ایک كَفَّارٍ : ناشکرا اَثِيْمٍ : گنہگار
اللہ سُود کا مَٹھ ماردیتا ہے اور صدقات کو نشونما دیتا ہے۔ 320اور اللہ کِسی ناشکرے بد عمل انسان کو پسند نہیں کرتا 321
سورة الْبَقَرَة 320 ”اس آیت میں ایک ایسی صداقت بیان کی گئ ہے، جو اخلاقی و روحانی حیثیت سے بھی سراسر حق ہے اور معاشی و تمدنی حیثیت سے بھی۔ اگرچہ بظاہر سود سے دولت بڑھتی نظر آتی ہے اور صدقات سے گھٹتی ہوئی محسوس ہوتی ہے، لیکن درحقیقت معاملہ اس کے برعکس ہے۔ خدا کا قانون فطرت یہی ہے کہ سود اخلاقی و روحانی اور معاشی و تمدنی ترقی میں نہ صرف مانع ہوتا ہے بلکہ تنزل کا ذریعہ بنتا ہے۔ اور اس کے برعکس صدقات سے (جن میں قرض حسن بھی شامل ہے) اخلاق و روحانیت اور تمدن و معیشت ہر چیز کو نشونما نصیب ہوتا ہے۔ اخلاقی و روحانی حیثیت سے دیکھیے، تو یہ بات بالکل واضح ہے کہ سود دراصل خود غرضی، بخل، تنگ دلی اور سنگ دلی جیسی صفات کا نتیجہ ہے اور وہ انہی صفات کو انسان میں نشونما بھی دیتا ہے۔ اس کے برعکس صدقات نتیجہ ہیں فیاضی، ہمدردی، فراخ دلی اور عالی ظرفی جیسی صفات کا، اور صدقات پر عمل کرتے رہنے سے یہی صفات انسان کے اندر پرورش پاتی ہیں۔ کون ہے جو اخلاقی صفات کے ان دونوں مجموعوں میں سے پہلے مجموعے کو بدترین اور دوسرے کو بہترین نہ مانتا ہو ؟ تمدنی حیثیت سے دیکھیے، تو بادنٰی تامل یہ بات ہر شخص کی سمجھ میں آجائے گی کہ جس سوسائیٹی میں افراد ایک دوسرے کے ساتھ خود غرضی کا معاملہ کریں، کوئی شخص اپنی ذاتی غرض اور اپنے ذاتی فائدے کے بغیر کسی کے کام نہ آئے، ایک آدمی کی حاجت مندی کو دوسرا آدمی اپنے لیے نفع اندوزی کا موقع سمجھے اور اس کا پورا فائدہ اٹھائے، اور مالدار طبقوں کا مفاد عامة الناس کے مفاد کی ضد ہوجائے، ایسی سوسا ئیٹی کبھی مستحکم نہیں ہو سکتی۔ اس کے افراد میں آپس کی محبت کے بجائے باہمی بغض و حسد اور بےدردی و بےتعلقی نشو نما پائے گی۔ اس کے اجزا ہمیشہ انتشار و پراگندگی کی طرف مائل رہیں گے۔ اور اگر دوسرے اسباب بھی اس صورت حال کے لیے مددگار ہوجائیں، تو ایسی سوسائیٹی کے اجزا کا باہم متصادم ہوجانا بھی کچھ مشکل نہیں ہے۔ اس کے برعکس جس سوسائیٹی کا اجتماعی نظام آپس کی ہمدردی پر مبنی ہو، جس کے افراد ایک دوسرے کے ساتھ فیاضی کا معاملہ کریں، جس میں ہر شخص دوسرے کی حاجت کے موقع پر فراخ دلی کے ساتھ مدد کا ہاتھ بڑھائے، اور جس میں با وسیلہ لوگ بےوسیلہ لوگوں سے ہمدردانہ اعانت یا کم از کم منصفانہ تعاون کا طریقہ برتیں، ایسی سوسائیٹی میں آپس کی محبت، خیر خواہی اور دلچسپی نشونما پائے گی۔ اس کے اجزا ایک دوسرے کے ساتھ پیوست اور ایک دوسرے کے پشتیبان ہوں گے۔ اس میں اندرونی نزاع و تصادم کو راہ پانے کا موقع نہ مل سکے گا۔ اس میں باہمی تعاون اور خیر خواہی کی وجہ سے ترقی کی رفتار پہلی قسم کی سوسائیٹی کی بہ نسبت بہت زیادہ تیز ہوگی۔ اب معاشی حیثیت سے دیکھیے۔ معاشیات کے نقطہ نظر سے سودی قرض کی دو قسمیں ہیں׃ ایک وہ قرض جو اپنی ذاتی ضروریات پر خرچ کرنے کے لیے مجبور اور حاجت مند لوگ لیتے ہیں۔ دوسرا وہ قرض جو تجارت و صنعت و حرفت اور زراعت وغیرہ کے کاموں پر لگانے کے لیے پیشہ ور لوگ لیتے ہیں۔ ان میں سے پہلی قسم کے قرض کو تو ایک دنیا جانتی ہے کہ اس پر سود وصول کرنے کا طریقہ نہایت تباہ کن ہے۔ دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں ہے جس میں مہاجن افراد اور مہاجنی ادارے اس ذریعے سے غریب مزدوروں کا، کاشتکاروں اور قلیل المعاش عوام کا خون نہ چوس رہے ہوں۔ سود کی وجہ سے اس قسم کا قرض ادا کرنا ان لوگوں کے لیے سخت مشکل، بلکہ بسا اوقات ناممکن ہوجاتا ہے۔ پھر ایک قرض کو ادا کرنے کے لیے وہ دوسرا اور تیسرا قرض لیتے چلے جاتے ہیں۔ اصل رقم سے کئی کئی گنا سود دے چکنے پر بھی اصل رقم جوں کی توں باقی رہتی ہے۔ محنت پیشہ آدمی کی آمدنی کا پیشتر حصہ مہاجن لے جاتا ہے اور اس غریب کی اپنی کمائی میں سے اس کے پاس اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے لیے بھی کافی روپیہ نہیں بچتا۔ یہ چیز رفتہ رفتہ اپنے کام سے کارکنوں کی دلچسپی ختم کردیتی ہے۔ کیونکہ جب ان کی محنت کا پھل دوسرا لے اڑے تو وہ کبھی دل لگا کر محنت نہیں کرسکتے۔ پھر سودی قرض کے جال میں پھنسے ہوئے لوگوں کو ہر وقت کی فکر اور پریشانی اس قدر گھلا دیتی ہے، اور تنگ دستی کی وجہ سے ان کے لیے صحیح غذا اور علاج اس قدر مشکل ہوجاتا ہے، کہ ان کی صحتیں کبھی درست نہیں رہ سکتیں۔ اس طرح سودی قرض کا حاصل یہ ہوتا ہے کہ چند افراد تو لاکھوں آدمیوں کا خون چوس چوس کر موٹے ہوتے رہتے ہیں، مگر بحیثیت مجموعی پوری قوم کی پیدائش دولت اپنے امکانی معیار کی بہ نسبت بہت گھٹ جاتی ہے، اور مآل کار میں خود وہ خون چوسنے والے افراد بھی اس کے نقصانات سے نہیں بچ سکتے کیونکہ ان کی اس خود غرضی سے غریب عوام کو جو تکلیفیں پہنچتی ہیں ان کی بدولت مال دار لوگوں کے خلاف غصے اور نفرت کا ایک طوفان دلوں میں اٹھتا اور گھٹتا رہتا ہے، اور کسی انقلابی ہیجان کے موقع پر جب یہ آتش فشاں پھٹتا ہے تو ان ظالم مالداروں کو اپنے مال کے ساتھ اپنی جان اور آبرو تک سے ہاتھ دھونا پڑجاتا ہے۔ رہا دوسری قسم کا قرض جو کاروبار میں لگانے کے لیے لیا جاتا ہے، تو اس پر ایک مقرر شرح سود کے عائد ہونے سے جو بیشمار نقصانات پہنچتے ہیں ان میں سے چند نمایاں ترین یہ ہیں (1) جو کام رائج الوقت شرح سود کے برابر نفع نہ لا سکتے ہوں، چاہے ملک اور قوم کے لیے کتنے ہی ضروری اور مفید ہوں، ان پر لگانے کے لیے روپیہ نہیں ملتا اور ملک کے تمام مالی وسائل کا بہاؤ ایسے کاموں کی طرف ہوجاتا ہے، جو بازار کی شرح سود کے برابر یا اس سے زیادہ نفع لاسکتے ہوں، چاہے اجتماعی حیثیت سے ان کی ضرورت اور ان کا فائدہ بہت کم ہو یا کچھ بھی نہ ہو۔ (2) جن کاموں کے لیے سود پر سرمایہ ملتا ہے، خواہ وہ تجارتی کام ہوں یا صنعتی یا زراعتی، ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے، جس میں اس امر کی ضمانت موجود ہو کہ ہمیشہ تمام حالات میں اس کا منافع ایک مقرر معیاد، مثلاً پانچ، چھ یا دس فیصدی تک یا اس سے اوپر اوپر ہی رہے گا اور کبھی اس سے نیچے نہیں گرے گا۔ اس کی ضمانت ہونا تو درکنار، کسی کاروبار میں سرے سے اسی بات کی کوئی ضمانت موجود نہیں ہے کہ اس میں ضرور منافع ہی ہوگا، نقصان کبھی نہ ہوگا۔ لہٰذا کسی کاروبار میں ایسے سرمایے کا لگنا جس پر سرمایہ دار کو ایک مقرر شرح کے مطابق منافع دینے کی ضمانت دی گئی ہو، نقصان اور خطرے کے پہلوؤں سے کبھی خالی نہیں ہو سکتا۔ (3) چونکہ سرمایہ دینے والا کاروبار کے نفع و نقصان میں شریک نہیں ہوتا بلکہ صرف منافع اور وہ بھی ایک مقرر شرح منافع کی ضمانت پر روپیہ دیتا ہے، اس وجہ سے کاروبار کی بھلائی اور برائی سے اس کو کسی قسم کی دلچسپی نہیں ہوتی۔ وہ انتہائی خود غرضی کے ساتھ صرف اپنے منافع پر نگاہ رکھتا ہے، اور جب کبھی اسے ذرا سا اندیشہ لاحق ہوجاتا ہے کہ منڈی پر کساد بازاری کا حملہ ہونے والا ہے، تو وہ سب سے پہلے اپنا روپیہ کھینچنے کی فکر کرتا ہے۔ اس طرح کبھی تو محض اس کے خود غرضانہ اندیشوں ہی کی بدولت دنیا پر کساد بازاری کا واقعی حملہ ہوجاتا ہے، اور کبھی اگر دوسرے اسباب سے کساد بازاری آگئی ہو تو سرمایہ دار کی خود غرضی اس کو بڑھا کر انتہائی تباہ کن حد تک پہنچا دیتی ہے۔ سود کے یہ تین نقصانات تو ایسے صریح ہیں کہ کوئی شخص جو علم المعیشت سے تھوڑا سا مس بھی رکھتا ہو ان کا انکار نہیں کرسکتا۔ اس کے بعد یہ مانے بغیر کیا چارہ ہے کہ فی الواقع اللہ تعالیٰ کے قانون فطرت کی رو سے سود معاشی دولت کو بڑھاتا نہیں بلکہ گھٹاتا ہے۔ اب ایک نظر صدقات کے معاشی اثرات و نتائج کو بھی دیکھ لیجیے۔ اگر سوسائیٹی کے خوشحال افراد کا طریق کار یہ ہو کہ وہ اپنی حیثیت کے مطابق پوری فراخ دلی کے ساتھ اپنی اور اپنے اہل و عیال کی ضروریات خریدیں، پھر جو روپیہ ان کے پاس ان کی ضروریات سے زیادہ بچے اسے غریبوں میں بانٹ دیں تاکہ وہ بھی اپنی ضروریات خرید سکیں، پھر اس پر بھی جو روپیہ بچ جائے اسے یا تو کاروباری لوگوں کو بلا سود قرض دیں، یا شرکت کے اصول پر ان کے ساتھ نفع و نقصان میں حصہ دار بن جائیں، یا حکومت کے پاس جمع کردیں کہ وہ اجتماعی خدمات کے لیے ان کو استعمال کرے، تو ہر شخص تھوڑے سے غور و فکر ہی سے اندازہ کرسکتا ہے کہ ایسی سوسائیٹی میں تجارت اور صنعت اور زراعت، ہر چیز کو بےانتہا فروغ حاصل ہوگا۔ اس کے عام افراد کی خوشحالی کا معیار بلند ہوتا چلا جائے گا اور اس میں بحیثیت مجموعی دولت کی پیداوار اس سوسائیٹی کی بہ نسبت بدرجہا زیادہ ہوگی جس کے اندر سود کا رواج ہو۔ سورة الْبَقَرَة 321 ظاہر ہے کہ سود پر روپیہ وہی شخص چلا سکتا ہے جس کو دولت کی تقسیم میں اس کی حقیقی ضرورت سے زیادہ حصہ ملا ہو۔ یہ ضرورت سے زیادہ حصہ، جو ایک شخص کو ملتا ہے، قرآن کے نقطہ نظر سے دراصل اللہ کا فضل ہے۔ اور اللہ کے فضل کا صحیح شکر یہ ہے کہ جس طرح اللہ نے اپنے بندے پر فضل فرمایا ہے، اسی طرح بندہ بھی اللہ کے دوسرے بندوں پر فضل کرے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا، بلکہ اس کے برعکس اللہ کے فضل کو اس غرض کے لیے استعمال کرتا ہے کہ جو بندے دولت کی تقسیم میں اپنی ضرورت سے کم حصہ پا رہے ہیں، ان کے قلیل حصے میں سے بھی وہ اپنی دولت کے زور پر ایک جز اپنی طرف کھینچ لے، تو حقیقت میں وہ ناشکرا بھی ہے اور ظالم، جفا کار اور بد عمل بھی۔
Top