Ruh-ul-Quran - Al-Furqaan : 38
وَّ عَادًا وَّ ثَمُوْدَاۡ وَ اَصْحٰبَ الرَّسِّ وَ قُرُوْنًۢا بَیْنَ ذٰلِكَ كَثِیْرًا
وَّعَادًا : اور عاد وَّثَمُوْدَا : اور ثمود وَاَصْحٰبَ الرَّسِّ : اور کنویں والے وَقُرُوْنًۢا : اور جماعتیں بَيْنَ ذٰلِكَ : ان کے درمیان كَثِيْرًا : بہت سی
اور عاد اور ثمود اور اصحاب الرس اور بیچ کی صدیوں کی بہت سی قوموں کو ہم نے ہلاک کردیا
وَّعَادًا وَّثَمُوْدَاْ وَاَصْحٰبَ الرَّسِّ وَقُرُوْنًا م بَیْنَ ذٰلِکَ کَثِیْرًا۔ (الفرقان : 38) (اور عاد اور ثمود اور اصحاب الرس اور بیچ کی صدیوں کی بہت سی قوموں کو ہم نے ہلاک کردیا۔ ) یہاں فعل اَھَلَـکْنَا قرینے کی دلالت کے باعث محذوف ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جس طرح ہم نے قوم فرعون اور قوم نوح کو تباہ کیا صرف اس بنیاد پر کہ انھوں نے اپنے اپنے رسول کی تکذیب کی۔ اسی طرح ہم نے قوم عاد، قوم ثمود اور اصحابِ الرس اور ان کے درمیان کئی صدیوں میں گزرنے والی قوموں کو تباہ کردیا۔ ان کا جرم بھی صرف یہ تھا کہ جو رسول ان کی طرف مبعوث ہوئے انھوں نے ان پر ایمان لانے سے انکار کردیا تھا۔ اور جب تک وہ اپنی تبلیغی مساعی میں مصروف رہے انھوں نے کبھی انھیں آرام سے جینے نہ دیا، حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب نے آکر ان کا کام تمام کردیا۔ اصحابُ الرس سے کیا مراد ہے ؟ اس آیت میں قوم عاد اور قوم ثمود تو تاریخ میں جانی پہچانی قومیں ہیں اور عرب ان سے اچھی طرح واقف تھے۔ البتہ اصحاب الرس کے بارے میں کوئی متعین بات کہنا بہت مشکل ہے۔ کیونکہ آج تک تحقیق نہ ہوسکا کہ یہ کون لوگ تھے۔ ابن جریر نے متعدد نام ذکر کیے ہیں، لیکن ان میں سے کسی پر ان کو خود بھی اطمینان نہیں۔ صاحب کشاف نے دوسرے ناموں کے ساتھ ساتھ قوم شعیب کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔ لیکن یہ بات صحیح معلوم نہیں ہوتی۔ کیونکہ سورة ق میں اصحاب الرس اور اصحاب الایکۃ دونوں نام الگ الگ اور مستقل قوموں کے لیے آئے ہیں اور اصحاب الایکۃ سے خود قرآن کریم کی تصریح کے مطابق اصحابِ مدین یعنی حضرت شعیب کی قوم کے لوگ مراد ہیں۔ اگر اصحاب الرس سے مراد قوم شعیب ہوتی تو پھر اس کے ساتھ اصحاب الایکۃ کے ذکر کا کیا محل تھا۔ بعض لوگوں نے یہ کہا ہے کہ یہ قوم ثمود کے کچھ بقایا تھے جو کسی کنویں کے پاس رہتے تھے، لیکن یہ محض ایک قول ہے جس کی کوئی دلیل نہیں۔ سید سلیمان ندوی (رح) نے ارض القرآن میں اس سے اسماعیلی قبائل کے بارہ سلسلوں میں سے قیدار کو مراد لیا ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ اس کے حالات بالکل مجہول ہیں۔ حالات کے مجہول ہونے سے قطع نظر بنی اسماعیل میں آنحضرت ﷺ کے سوا کسی رسول کی بعثت ثابت نہیں۔ اور یہاں اصحاب الرس کا ذکر جس سیاق میں آیا ہے اس سے یہ بات واضح ہے کہ ان کی طرف رسول کی بعثت ہوئی اور انھوں نے عادوثمود کی طرح اس کی تکذیب کی۔ اس وضاحت سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ اصحاب الرس کے بارے میں کوئی چیز قابل اطمینان نہیں۔ زیادہ سے زیادہ جو بات کہی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ ایک ایسی قوم تھی جو کسی کنویں کے پاس آباد تھی۔ اور اس بدبخت قوم نے اپنی طرف مبعوث ہونے والے پیغمبر کو کنویں میں پھینک کر یا لٹکا کر مارا تھا۔ عربی زبان میں پرانے کنویں، کچے کنویں یا اندھے کنویں کو ” رس “ کہتے ہیں۔
Top