Tadabbur-e-Quran - Al-Furqaan : 38
وَّ عَادًا وَّ ثَمُوْدَاۡ وَ اَصْحٰبَ الرَّسِّ وَ قُرُوْنًۢا بَیْنَ ذٰلِكَ كَثِیْرًا
وَّعَادًا : اور عاد وَّثَمُوْدَا : اور ثمود وَاَصْحٰبَ الرَّسِّ : اور کنویں والے وَقُرُوْنًۢا : اور جماعتیں بَيْنَ ذٰلِكَ : ان کے درمیان كَثِيْرًا : بہت سی
اور عاد، ثمود، اصحاب رس اور ان کے درمیان بہت سی قوموں کو ہم نے ہلاک کردیا
یہاں فعل اھلکنا بربنائے قرینہ حذف ہے۔ اصحاب الرس کون تھے ؟ اصحاب الرس کی تحقیق میں مجھے افسوس ہے کہ اب تک کامیابی نہ ہوسکی۔ ابن جریر نے متعدد نام ذکر کئے ہیں لیکن ان میں سے کسی پر ان کو خود بھی اطمینان نہیں ہے۔ انہوں نے بحث کے آخر میں یہ ظاہر بھی کردیا ہے کہ ان میں سے کسی کے متعلق بھی وثوق کے ساتھ کوئی بات نہیں کہی جاسکتی۔ صاحب کشاف نے دوسرے ناموں کے ساتھ قوم شعیب کی طرف بھی اشارہ کیا ہے بلکہ اسی کو مقدم رکھا ہے لیکن یہ بات کسی طرح بھی صحیح نہیں ہے اس لئے کہ سورة ق میں اصحاب الرس اور اصحاب الایکہ دونوں نام الگ الگ دو مستقبل قوموں کے لئے آئے ہیں اور اصحاب الایکہ سے خود قرآن کی تصریح کے مطابق جیسا کہ آگے والی سورة میں وضاحت آئے گی، اصحاب مدین یعنی حضرت شعیب کی قوم کے لوگ مراد ہیں۔ اگر اصحاب الرس سے قوم شعیب مراد ہوتی تو پھر اس کے ساتھ اصحاب الایکہ کے ذکر کا کیا محل تھا ! مولانا سید سلیمان ندوی نے ارض القرآن میں اس سے اسماعیلی قبائل کے بارہ سلسلوں میں سے قیدما کو مراد لیا ہے لیکن ساتھ ہی یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ اس کے حالات بالکل مجہول ہیں۔ حالات کے مجہول ہونے سے قطع نظر بنی اسماعیل میں آنحضرت ﷺ کے سوا کسی رسول کی بعثت ثابت نہیں ہے اور یہاں اصحاب الرس کا ذکر جس سیاق میں آیا ہے اس سے یہ بات واضح ہے کہ ان کی طرف رسول کی بعثت ہوئی اور انہوں نے عاد وثمود کی طرح اس کی تکذیب کی۔ بہرحال ان کے بارے میں وثوق کے ساتھ کچھ کہنا مشکل ہے۔ بس یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ عرب کی اقوام بادئہ میں سے کسی قوم کا حوالہ ہے جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے اپنا رسول بھیجا لیکن اس نے اس رسول کی تکذیب کی اور سنت الٰہی کے مطابق مستحق عذاب ٹھہری۔ شعرائے جاہلیت میں زہیر نے وادی رس کا ذکر کیا ہے۔ ع وھن دوادی الرس کا لیدللھم وقرونا بین ذلک کثیراً تاریخ کی نارسائی (اور وہ اور وادی رس اس طرح تھے جس طرح منہ کو ہاتھ) (اور ان کے درمیان اور بھی کتنی قومیں ہیں جن کو ہم نے ہلاک کر چھوڑا۔ قرآن میں اس بات کا جگہ جگہ ذکر ہے کہ انبیاء و رسل صرف اتنے ہی نہیں ہیں جتنے قرآن میں بیان ہوئے ہیں بلکہ ان کے علاوہ بھی ہیں جن کا علم صرف اللہ تعالیٰ ہی کو ہے۔ جو لوگ ہر چیز کو تاریخ کی روشنی میں دیکھنا چاہتے ہیں وہ تاریخ کی نارسائی سے ناواقف ہیں۔ تاریخ کی رسائی بہت محدود ہے اور اس کا بیشتر حصہ رطب دیا بس ہر قسم کے مواد پر مشتمل ہے۔ اس دنیا کے احوال سے سب سے زیادہ باخبر اس کا خالق ہی ہے اس وجہ سے اصلی اعتماد اللہ تعالیٰ کی کتاب پر ہونا چاہئے نہ کہ تاریخ کی کتابوں پر اگر قرآن نے کسی تاریخ واقعہ کا ذکر کیا ہے تو وہ ہمارے علم میں ایک بابرتک اضافہ ہے۔ اگر تاریخ سے بھی اس کی تائید ہوجائے تو فہم نہ ہو تو اس کو تاریخ کی نارسائی پر محمول کیجیے۔
Top