بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Mutaliya-e-Quran - An-Nisaa : 1
وَّ عَادًا وَّ ثَمُوْدَاۡ وَ اَصْحٰبَ الرَّسِّ وَ قُرُوْنًۢا بَیْنَ ذٰلِكَ كَثِیْرًا
وَّعَادًا : اور عاد وَّثَمُوْدَا : اور ثمود وَاَصْحٰبَ الرَّسِّ : اور کنویں والے وَقُرُوْنًۢا : اور جماعتیں بَيْنَ ذٰلِكَ : ان کے درمیان كَثِيْرًا : بہت سی
لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اُسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد و عورت دنیا میں پھیلا دیے اُس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو، اور رشتہ و قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے
(یٰٓــاَیـُّــہَا النَّاسُ : اے لوگو ! ) (اتَّقُوْا : تم تقویٰ اختیار کرو) (رَبَّـکُمُ : اپنے رب کا ) (الَّذِیْ : جس نے ) (خَلَقَکُمْ : پیدا کیا ) (تم کو ) (مِّنْ نَّـفْسٍ وَّاحِدَۃٍ : ایک ہی جان سے) (وَّخَلَقَ : اور (اس نے) پیدا کیا) (مِنْہَا : اس سے ) (زَوْجَہَا : اس کا جوڑا) (وَبَثَّ : اور (اس نے) پھیلائے) (مِنْہُمَا : ان دونوں سے ) (رِجَالاً کَثِیْرًا : بہت سے مرد) (وَّنِسَآئً : اور عورتیں) (وَاتَّقُوا : اور تم بچو) (اللّٰہَ الَّذِیْ : اس اللہ (کی ناراضگی) سے ) (تَسَآئَ لُوْنَ : تم لوگ باہم مانگتے ہو) (بِہٖ : جس (کے حوالے ) سے ) (وَالْاَرْحَامَ : اور رشتہ داروں (کی حق تلفی) سے) (اِنَّ : یقینا) (اللّٰہَ : اللہ ) (کَانَ : ہے ) (عَلَیْکُمْ : تم پر ) (رَقِـیْـبًا : نگران ) ح و ب حَابَ یَحُوْبُ (ن) حَوْبًا : کسی جرم کا ارتکاب کرنا ‘ گنہگار ہونا۔ حُوْبٌ (اسم ذات) : جرم ‘ گناہ۔ آیت زیر مطالعہ۔ ترکیب : ” وَاتَّـقُوْا “ کا مفعولِ اوّل ” اَللّٰہَ “ ہے اور ” اَلْاَرْحَامَ “ مفعولِ ثانی ہے۔ ” تَسَآئَ لُـوْنَ “ دراصل ” تَتَسَائَ لُـوْنَ “ ہے۔ ” کَانَ “ کی خبر ہونے کی وجہ سے ” رَقِـیْـبًا “ حالت ِ نصبی میں ہے۔ نوٹ : کَانَکا ترجمہ ” تھا “ کے بجائے ” ہے “ کیا گیا ہے ‘ کیونکہ یہاں آفاقی صداقت کا بیان ہے۔ اسی طرح ” لَا تَتَـبَدَّلُوا الْخَبِیْثَ بِالطَّیِّبِ “ کا ترجمہ قاعدے کے مطابق کیا گیا ہے۔ قاعدہ یہ ہے کہ بدلے میں جو لیتے ہیں وہ بِنَفْسِہٖ آتا ہے اور جو دیتے ہیں اس پر ” بِ “ کا صلہ آتا ہے۔ لیکن یہاں معنی مراد یہ نہیں ہے کہ یتیم کے مال میں سے گندی چیز لے کر اس کی جگہ پاکیزہ چیز مت رکھو ‘ بلکہ مراد اس کے برعکس ہے۔ مفسرین نے اس کی یہ توجیہہ کی ہے کہ یتیم کے مال سے اچھی سمجھ کر جو چیز لوگے وہ تمہارے لیے حرام ہے ‘ اس لیے گندی ہے اور اپنی جو ناکارہ چیز اس کی جگہ رکھو گے وہ تمہارے لیے حلال ہے ‘ اس لیے پاکیزہ ہے۔
Top