Urwatul-Wusqaa - Al-Furqaan : 38
وَّ عَادًا وَّ ثَمُوْدَاۡ وَ اَصْحٰبَ الرَّسِّ وَ قُرُوْنًۢا بَیْنَ ذٰلِكَ كَثِیْرًا
وَّعَادًا : اور عاد وَّثَمُوْدَا : اور ثمود وَاَصْحٰبَ الرَّسِّ : اور کنویں والے وَقُرُوْنًۢا : اور جماعتیں بَيْنَ ذٰلِكَ : ان کے درمیان كَثِيْرًا : بہت سی
اور عاد وثمود اور اصحاب الرس اور ان کے درمیان بیشمار امتوں کو (ہلاک کیا گیا)
عاد ‘ ثمود اور اصحاب الرس اور ان کے درمیان کتنی قومیں ہلاک کی گئیں : 38۔ قوم عاد اور قوم ثمود بھی قرآن کریم کی بیان کردہ اقوام میں سے بڑی اہم قومیں تھیں اور اسی طرح اصحاب الرس کو بھی اس زمین پر اللہ نے ایک وقت بہت بڑا اقتدار دیا تھا اور انکے درمیان بھی بہت سی اقوام گزر چکی ہیں ان سب کا رعب ودبدبہ اپنے اپنے وقت میں ضرب المثل رہا لیکن جب ان کے ختم ہونے کا وقت آیا تو اچانک ان کو اللہ نے اپنی لپیٹ میں لے لیا اور اس طرح ملیامیٹ کیا کوئی نام لینے والا بھی باقی نہ رہا جب ان سب کے ساتھ ایسا ہوچکا تو آخر تمہارے ساتھ ایسا کیوں نہیں ہو سکتا ؟ تم کو ابھی وقت دیا جارہا ہے اس مہلت سے فائدہ اٹھاؤ گے تو تمہارا فائدہ ہوگا ورنہ ان گزشتہ قوموں کی طرح تم کو بھی نیست ونابود کر کے رکھ دیا جائے گا ۔ اصحاب الرس کون تھے ؟ اس میں لوگوں نے اختلاف کیا اور جو کچھ ہم کو معلوم ہوا وہ پیش خدمت ہے : اصحاب الرس کے متعلق واضح طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ کون تھے ؟ اصحاب الرس کا ذکر قرآن کریم میں دو بار آیا ہے ایک اس جگہ زیر نظر آیت میں اور دوسری جگہ سورة ق کی آیت 12 میں اور سورة ق میں قوم نوح کے بعد اور ثمود وعاد سے پہلے ذکر کیا گیا ہے اور اس جگہ قوم نوح اور قوم عاد وثمود کے بعد اس کا ذکر کیا گیا ہے اندریں وجہ ان کے زمانہ کا تعین قرآن کریم کی روشنی میں نہیں کیا جاسکتا اور ویسے ہی قرآن کریم قصص کا ذکر الترتیب نہیں کرتا بلکہ تذکیر کے طور پر جہاں جس کا ذکرمناسب سمجھتا ہے کردیتا ہے مورخین نے جو تحقیق کی ہے اگر اس پر بحث کی جائے تو ہر ایک کی تحقیق کی مشکوک کہا جاسکتا ہے اس لئے صحیح اور واضح یہی ہے کہ انکے زمانہ کا تعین نہایت مشکل ہے البتہ تقریبا 630 ق م کہا جاسکتا ہے ۔ ” رس “ لغت میں پرانے کنوئیں کو کہا جاتا ہے اس لئے (اصحاب الرس) کے معنی پرانے کنوئیں والے لوگوں کے کئے گئے ہیں جیسا کہ زیرنظر آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس قوم کی طرف بھی کوئی رسول بھیجا گیا اگرچہ اس نبی کا نام واضح نہیں اور اس قوم نے بھی گزشتہ دوسری قوموں کی طرح اپنے رسول کی تکذیب کی اور ان کو اس تکذیب کی پاداش میں ہلاک کیا گیا جس طرح قوم نوح ‘ ثمود اور عاد کو ہلاک کیا گیا تھا فرق ہے تو صرف یہ کہ باقی قوموں میں جن کے نام لئے گئے ان کے نبیوں کا حال بھی کچھ نہ کچھ معلوم ہے اس لئے ان کا زمانہ بی متعین کیا گیا ہے ان کے نبی ورسول کا نام بھی وضاحت کے طور پر نہیں لیا گیا اس لئے اس کا زمانہ بھی متعین نہیں کیا جاسکتا ۔ لیکن زیر نظر آیت میں (آیت) ” وقرونا بین ذلک کثیر “ ‘ کے الفاظ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اصحاب الرس کے آگے بیچھے اور بھی بہت سی اقوام گزر چکی تھیں اور انہوں نے بھی اپنے اپنے ادوار میں اپنے اپنے رسول کی تکذیب کی تھی اور ان کو بھی اسی طرح ہلاک کیا گیا تھا اگرچہ ان اقوام کا ” اصحاب الرس “ کی طرح کوئی نام بھی قرآن کریم نے ذکر نہیں کیا اور تاریخ نے بھی ان اقوام عالم کے ناموں اور ان کی تفصیل کا کوئی ذکر نہیں کیا اور نہ ہی ان کے دور متعین کئے ، البتہ جو کچھ یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے وہ یہی ہے کہ ان کا زمانہ مسیح (علیہ السلام) سے بہرحال پہلے کا ہے مسیح (علیہ السلام) کے بعد کا نہیں۔ 1۔ ابن عساکر کے قول کے مطابق اصحاب الرس کا زمانہ عاد سے بھی صدیوں پہلے کا ہے ، ان کے ہاں اللہ تعالیٰ نے حنظلہ بن صفوان کو رسول بنا کر مبعوث کیا تھا انہوں نے ان کو دین کی تبلیغ کی مگر اصحاب الرس نے حق کو قبول نہ کیا اور اپنے رسول حنظلہ بن صفوان کو قتل کردیا اور اسی پاداش میں اللہ تعالیٰ نے ان کو ہلاک کردیا لیکن اس سے یہ بات معلوم نہیں ہوتی کہ ان کو کنوئیں والے کیوں کہا گیا اور یہ نسبت اس واقعہ کے ساتھ کیا نسبت رکھتی ہے ، ملخص تاریخ ابن کثیر جلد اول۔ 2۔ ابن ابی حاتم نے بروایت عبداللہ بن عباس ؓ نقل کیا ہے کہ آذر بائی جان کے قریب ایک کنواں تھا یہ قصہ چونکہ اس سے تعلق رکھتا ہے اس لئے وہاں کے بسنے والے اصحاب الرس کہلائے ، عکرمہ نے کہا کہ اس کنوئیں کے قریب آباد قوم نے اپنے نبی کو چونکہ اس کنوئیں میں ڈال کر زندہ دفن کردیا تھا اس لئے ان کو اصحاب الرس کہا گیا ۔ تاریخ ابن کثیر ج اول۔ 3۔ قتادہ (رح) کا بیان ہے کہ یمامہ کے علاقہ میں فلیح نام کی ایک بستی تھی اور اصحاب الرس وہی آباد تھے اور یہ اور اصحاب القریہ جن کا ذکر سورة یس میں کیا گیا ہے ایک ہی ہیں کیونکہ یہ مختلف نسبتوں سے پکارے جاتے ہیں ۔ تاریخ ابن کثیر ج اول۔ 4۔ ایک روایت عکرمہ سے اس طرح کی بھی مشہور ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن ابی حاتم اور عکرمہ دونوں کی روایت کا ایک ہی مطلب ہے اگرچہ یہ دونوں رائیں بھی مشکوک ہیں اس لئے کہ قرآن کریم نے اصحاب القریہ اور اصحاب الرس دونوں کا تذکرہ جدا جدا کیا ہے دونوں تذکروں میں کسی ایک جگہ بھی یہ اشارہ نہیں ملتا کہ یہ دونوں قومیں ایک ہیں اور اگر بات اسی طرح ہے تو اصول بلاغت کے خلاف ہے کہ ایک ہی قوم کو جدا جدا نسبتوں اور کیفیتوں کے ساتھ بیان کیا جائے اور ان میں سے کسی ایک میں بھی یہ اشارہ موجود نہ ہو کہ یہ مختلف نسبتیں اور تعبیریں ایک ہی معاملہ سے تعلق رکھتی ہیں اور یہ بات اپنی جگہ صحیح اور درست ہے کہ یہ تفسیر نبی اعظم وآخر ﷺ یا کسی دوسرے اس قوم کے بعد کے نبی ورسول کی بیان کردہ نہیں اور تاریخی حیثیت میں اس کا ماخذ بھی معلوم نہیں البتہ ان دونوں قوموں کو الگ الگ قوم ماننے کے لئے بطور واصل یہ موجود ہے کہ اصحاب الرس کا تعلق قبل مسیح کی اقوام سے ہے اور اصحاب القریہ یقینی طور پر مسیح (علیہ السلام) سے بعد کی قوم ہے اس کی تفصیل عنقریب آئے گی ۔ 5۔ ابوبکر عمر بن حسن نقاش اور سہیل کہتے ہیں کہ اصحاب الرس کی آبادی میں ایک بہت بڑا کنواں تھا جس کے پانی سے وہ لوگ پانی پیتے تھے اور کھیتی کو چلانے کا کام لیتے تھے اور اس بستی کا بادشاہ بہت ہی عادل تھا اور لوگ بھی اس سے بیحد محبت کرتے تھے اس کا جب انتقال ہوگیا تو اہل شہر اس کی موت سے سخت غمگین اور حزین تھے کہ ایک دن شیطان اس بادشاہ عادل کی شکل میں ظاہر ہوا اور اہل شہر کو جمع کرکے تقریر کی کہ میں سے کچھ دنوں کے لئے جدا ہوگیا تھا ‘ مرا نہیں تھا اب آگیا ہوں اور ہمیشہ زندہ رہوں گا لوگوں نے اس کی بات پر یقین کرلیا اور اس کی آمد پر ایک بہت بڑا جشن منایا تب شیطان نے ان کو حکم دیا کہ وہ مجھ سے ہمیشہ پس پردہ باتیں کیا کریں چناچہ اس کے حکم کی تعمیل کی گئی اور وہ پس پردہ بیٹھ کر گمراہی پھیلانے لگا اس وقت بقول سہیل صاحب ” روض الانف “ ایک شخص حنظلہ بن صفوان کو خواب میں بتا دیا گیا کہ ان کو اس آبادی میں راہ ہدایت دکھانے کے لئے پیغمبر بنا دیا گیا ہے ۔ صفوان نے ان کے پاس جا کر توحید الہی کا درس دیا اور شرک سے اجتناب کی تلقین کی اور ان لوگوں کو بتایا کہ یہ تمہارا بادشاہ نہیں ہے بلکہ یہ تو پس پردہ شیطان ہے تو لوگوں کو اس کی یہ بات سخت ناگوار گزری اور بجائے اس کے کہ وہ اس کی بات مانتے اور حق کو قبول کرتے اس پیغمبر پر حملہ کرکے اس کو قتل کردیا اور اس المیہ کی پاداش میں اللہ تعالیٰ نے انکو ہلاک کردیا اور اس طرح کل جس بستی میں چہل پہل تھی اور باغات اور نہروں سے گویا جنگل میں منگل ہو رہا تھا آج وہ جل بھن کر چٹیل میدان ہو کر رہ گئی جس میں کتوں ‘ شیروں اور بھیڑیوں کے مسکن کے سوا کچھ باقی نہ رہا ۔ یہ روایت پہلی روایتوں سے بڑی اور مفصل ہے تاہم اصول روایت ودرایت کے لحاظ سے سخت ساقط الاعتبار ہے اور ایک من گھڑت داستان کے سوا اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے (البدایہ والنھایہ جلد اول) 6۔ محمد بن کعب قرضی فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ” ان اول الناس یدخل الجنۃ یوم القیمۃ العبد الاسود “۔ (جنت میں سب سے پہلے جو شخص داخل ہوگا وہ ایک سیاہ فام غلام ہوگا) کیوں ؟ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک بستی میں اپنا پیغمبر بھیجا مگر اس کو اس کالے کلوٹے غلام کے سوا کسی نے بھی نبی تسلیم نہ کیا اور اس کے سوا ایک بھی ایمان نہ لایا پھر اہل شہر نے اس پر اکتفا نہیں کیا بلکہ نبی کو ایک کنوئیں میں بند کردیا اور اس پر ایک بہت بھاری اور وزنی پتھر رکھ دیا تاکہ اس کو کوئی کھول نہ سکے اور یہ نبی اس طرح سسکیاں لیتے لیتے اس میں مرجائے لیکن یہ سیام فام شخص بہت قوی ہیکل تھا وہ جنگل کی طرف جاتا وہاں سے لکڑیاں کاٹ کر لاتا ‘ بازار میں فروخت کرتا اور انکی قیمت سے کھانا خرید کر روزانہ کنوئیں پر پہنچ کر پتھر کو ہٹاتا اور اللہ کے رسول کی خدمت میں کھانا پہنچاتا کچھ عرصہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس پر جنگل میں نیند طاری کردی اور یہ چودہ سال تک اس حالت میں سویا پڑا رہا ادھر یہ ہوا لیکن ادھر دقوم وک اپنی اس نازیبا حرکت پر افسوس آیا اور انہوں نے اس رسول اللہ کو کنوئیں سے نکال لیا اور توبہ کر کے اس پر ایمان لائے اور اس مدت کے اندر اس پیغمبر کا انتقال ہوگیا ۔ چودہ سال کے بعد جب وہ غلام جاگا تو اس نے سمجھا کہ میں چند گھنٹے سویا ہوں جلدی سے لکڑیاں چن کر شہر پہنچا دیکھا تو حالات بدلے ہوئے تھے دریافت کیا تو سارا قصہ اس کو معلوم ہوا اور اس غلام کے متعلق نبی اعظم وآخر ﷺ کا یہ ارشاد ہے جو اوپر ذکر کیا گیا ۔ مروج الذھب ص 586 حاشیہ الکامل جلد اول۔ معلوم رہے کہ یہ روایت اپنی سند کے لحاظ سے بھی قابل جرح ہے اور درایت کے اعتبار سے بھی چناچہ محدثین کہتے ہیں کہ یہطویل داستان خود محمد بن کعب کی جانب سے ہے جس کو انہوں نے اسرائیلیات سے اخذ کیا ہوگا بلاریب نبی اعظم وآخر ﷺ کا اس سے کوئی تعلق نہیں ۔ (ارض القرآن ج 2 ص 56) علاوہ ازیں قرآن کریم میں صراحت کے ساتھ موجود ہے کہ ” اصحاب الرس “ بھی ہلاک شدہ قوموں میں سے ہیں اور یہ روایت اس کے خلاف ہے جو ان کو نجات یافتہ بیان کرتی ہے اس لئے قطعا غلط ہے اور روایت کا وہ جملہ جس میں عبد اسوس کا ذکر ہے اگر وہ ثابت بھی ہوجائے یعنی اس روایت کے علاوہ وہ موجود ہو تو بھی اس کا تعلق اصحاب الرس کے واقعہ سے نہیں ہوگا ۔ 7۔ مورخ مسعودی کہتے ہیں کہ اصحاب الرس حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد میں سے ایک ہیں اور یہ دو قبیلے تھے ایک قیدماں یا قید ماہ اور دوسرا یامین یا رعویل اور یہ یمن میں آباد تھے ، لیکن مسعودی نے صرف اس قدر تعارف پر اکتفا کیا ہے اور تاریخی حیثیت سے نہیں بتایا کہ وہ کن وجوہ کی بنا پر قید ماہ اور رعویل کو اصحاب الرس کہتا ہے اور ان کو ” رس “ کے ساتھ کیا تعلق ہے ؟ یہ صحیح ہے کہ سیدنا اسماعیل (علیہ السلام) کے بارہ بیٹوں میں سے ایک کا نام قیدماہ بھی ہے لیکن توراۃ اور تاریخ دونوں اس بات سے خاموش ہیں کہ اس کی اولاد کو اصحاب الرس بھی کہا جاتا ہے لہذا مسعودی کا قول دلیل کا محتاج ہے تاہم صاحب ارض القرآن سلیمان ندوی (رح) نے صرف اس بنا پر کہ مسعودی نے اپنی رائے تذبذب اور تردد کے ساتھ بیان نہیں کی اس قول کو ترجیح دی ہے ۔ (الرض القرآن ج 2 ص 56) 8۔ مصر کے ایک مشہور معاصر عالم فرج اللہ زکی کردی کہتے ہیں کہ لفظ رس ” ارس “ کی تخفیف ہے اور یہ اس مشہور شہر کا نام ہے جو قفقاز کے علاقہ میں واقع ہے اس وادی میں اللہ تعالیٰ نے ایک نبی کو مبعوث فرمایا جس کا نام ابراہیم زردشت تھا انہوں نے اپنی قوم کو دین حق کی دعوت دی مگر قوم نے انکار کیا اور ان کی دعوت و ارشاد کے مقابلہ میں اور زیادہ سرکشی اور بغاوت اختیار کرلی چناچہ قوم نے اس کی سزا پائی اور ہلاک کردی گئی اس کے بعد ان کی دعوت کا میدان عمل اس مخصوص علاقہ قفقاز یعنی آذربائی جان سے کل ایران تک وسیع ہوگیا ۔ زردشت کا صحیفہ اگرچہ محرف ہوچکا ہے مگر اس کا ایک حصہ اب بھی قدیم فارسی مکتوب میں موجود ہے (مراد اس سے اوستا کی جانب اشارہ ہے) اور اس صحیفہ میں اب بھی نبی کریم ﷺ کی بعثت اور دین اسلام کی بشارت کا ذکر پایا جاتا ہے جس کا مفہوم یہ ہے : ” عنقریب عرب میں ایک ” نبی عظیم “ مبعوث ہوگا اور جب اس کی شریعت پر ایک ہزار سال سے زیادہ عرصہ گزر جائے گا اور دوسرا ہزار شروع ہوگا تو اس دین میں ایسی باتیں پیدا ہوجائیں گی کہ یہ پہچاننا مشکل ہوجائے گا کہ کیا یہ دین وہی دین ہے جو اپنے قرن اول میں تھا (یعنی بدعات واہوا اور رسوم قبیحہ پیدا ہوجائیں گی ) ۔ “ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ زردشت (علیہ السلام) کی اصل تعلیم حق ہی تھی اور اسی لئے انہوں نے بعثت محمد ﷺ کی بشارت دی اور بعض ایسی تفصیلات کا بھی ذکر کیا جو آج حرف بحرف صحیح ثابت ہو رہی ہیں مگر دوسرے ادیان وملل کی طرح ان کی متبعین نے بھی اس تعلیم حق کو مسخ ومحرف کر ڈالا اور ان کے متبعین مجوسی پارسی اب بھی ایران اور ہندو پاک میں پائے جاتے ہیں ۔ (تاریخ ابن کثیر ج 2 ص 42 ‘ 43 مختصرا) علامہ زکی کے اس قول کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ کتب تفسیر میں ایک قول ابن عباس ؓ سے بھی منقول ہے کہ اصحاب الرس آذر بائی جان کے قریب ایک کنوئیں کی نسبت سے مشہور تھے لہذا ممکن ہے کہ یہ ” ارس “ ہی سے مراد ہو جیسا کہ اوپر ذکر کیا جا چکا ۔ اس مسئلہ میں قول فیصل یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ یقینا حضرت مسیح (علیہ السلام) سے قبل ہو گزرا تھا اس لئے سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے درمیان کے زمانہ کی کسی قوم کا تذکرہ ہے یا کسی قدیم الہند قوم کا بہرحال یہ آخری بات جو معاصر مورخ فرج اللہ زکی کردی نے کہی ہے وہ زیادہ دل کو لگتی ہے اس لئے ہم اس کو ترجیح دیتے ہیں ۔ مختصر یہ کہ قرآن کریم کا جو مقصد موعظت و عبرت ہے وہ اپنی جگہ صاف اور واضح ہے اس لئے ایک عبرت نگاہ اور گوش حق نیوش کے لئے یہ کافی وشافی ہے کہ جو قومیں اس دنیا میں اللہ رب ذوالجلال والاکرام کے پیغام حق کو ٹھکراتی اور اس کے خلاف بغاوت وسرکشی کا علم بلند کرتی رہی ہیں اور مسلسل مہلت اور ڈھیل دینے کے باوجود وہ اپنی متکبرانہ اور مفسدانہ زندگی کو ترک کر کے صالح اور پاک زندگی بسر کرنے کے لئے آمادہ نہیں ہوئیں پھر ان پر جب رب العزت کی سخت گرفت اور بطش شدیدہ آجاتی ہے اور وہ بےیارومددگار ہلاک وبرباد کردی جاتی ہیں ۔ اس سے مسلمانوں کو درس عبرت حاصل کرنا چاہئے اور یہی مقصد ہے ان قصص کے بیان کا لیکن افسوس کہ اس وقت ہم میں ایسے بہت ہی کم لوگ ہیں جو ان قصص سے درس عبرت حاصل کریں اس پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہے ۔
Top