Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Urwatul-Wusqaa - Al-Furqaan : 38
وَّ عَادًا وَّ ثَمُوْدَاۡ وَ اَصْحٰبَ الرَّسِّ وَ قُرُوْنًۢا بَیْنَ ذٰلِكَ كَثِیْرًا
وَّعَادًا
: اور عاد
وَّثَمُوْدَا
: اور ثمود
وَاَصْحٰبَ الرَّسِّ
: اور کنویں والے
وَقُرُوْنًۢا
: اور جماعتیں
بَيْنَ ذٰلِكَ
: ان کے درمیان
كَثِيْرًا
: بہت سی
اور عاد وثمود اور اصحاب الرس اور ان کے درمیان بیشمار امتوں کو (ہلاک کیا گیا)
عاد ‘ ثمود اور اصحاب الرس اور ان کے درمیان کتنی قومیں ہلاک کی گئیں : 38۔ قوم عاد اور قوم ثمود بھی قرآن کریم کی بیان کردہ اقوام میں سے بڑی اہم قومیں تھیں اور اسی طرح اصحاب الرس کو بھی اس زمین پر اللہ نے ایک وقت بہت بڑا اقتدار دیا تھا اور انکے درمیان بھی بہت سی اقوام گزر چکی ہیں ان سب کا رعب ودبدبہ اپنے اپنے وقت میں ضرب المثل رہا لیکن جب ان کے ختم ہونے کا وقت آیا تو اچانک ان کو اللہ نے اپنی لپیٹ میں لے لیا اور اس طرح ملیامیٹ کیا کوئی نام لینے والا بھی باقی نہ رہا جب ان سب کے ساتھ ایسا ہوچکا تو آخر تمہارے ساتھ ایسا کیوں نہیں ہو سکتا ؟ تم کو ابھی وقت دیا جارہا ہے اس مہلت سے فائدہ اٹھاؤ گے تو تمہارا فائدہ ہوگا ورنہ ان گزشتہ قوموں کی طرح تم کو بھی نیست ونابود کر کے رکھ دیا جائے گا ۔ اصحاب الرس کون تھے ؟ اس میں لوگوں نے اختلاف کیا اور جو کچھ ہم کو معلوم ہوا وہ پیش خدمت ہے : اصحاب الرس کے متعلق واضح طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ کون تھے ؟ اصحاب الرس کا ذکر قرآن کریم میں دو بار آیا ہے ایک اس جگہ زیر نظر آیت میں اور دوسری جگہ سورة ق کی آیت 12 میں اور سورة ق میں قوم نوح کے بعد اور ثمود وعاد سے پہلے ذکر کیا گیا ہے اور اس جگہ قوم نوح اور قوم عاد وثمود کے بعد اس کا ذکر کیا گیا ہے اندریں وجہ ان کے زمانہ کا تعین قرآن کریم کی روشنی میں نہیں کیا جاسکتا اور ویسے ہی قرآن کریم قصص کا ذکر الترتیب نہیں کرتا بلکہ تذکیر کے طور پر جہاں جس کا ذکرمناسب سمجھتا ہے کردیتا ہے مورخین نے جو تحقیق کی ہے اگر اس پر بحث کی جائے تو ہر ایک کی تحقیق کی مشکوک کہا جاسکتا ہے اس لئے صحیح اور واضح یہی ہے کہ انکے زمانہ کا تعین نہایت مشکل ہے البتہ تقریبا 630 ق م کہا جاسکتا ہے ۔ ” رس “ لغت میں پرانے کنوئیں کو کہا جاتا ہے اس لئے (اصحاب الرس) کے معنی پرانے کنوئیں والے لوگوں کے کئے گئے ہیں جیسا کہ زیرنظر آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس قوم کی طرف بھی کوئی رسول بھیجا گیا اگرچہ اس نبی کا نام واضح نہیں اور اس قوم نے بھی گزشتہ دوسری قوموں کی طرح اپنے رسول کی تکذیب کی اور ان کو اس تکذیب کی پاداش میں ہلاک کیا گیا جس طرح قوم نوح ‘ ثمود اور عاد کو ہلاک کیا گیا تھا فرق ہے تو صرف یہ کہ باقی قوموں میں جن کے نام لئے گئے ان کے نبیوں کا حال بھی کچھ نہ کچھ معلوم ہے اس لئے ان کا زمانہ بی متعین کیا گیا ہے ان کے نبی ورسول کا نام بھی وضاحت کے طور پر نہیں لیا گیا اس لئے اس کا زمانہ بھی متعین نہیں کیا جاسکتا ۔ لیکن زیر نظر آیت میں (آیت) ” وقرونا بین ذلک کثیر “ ‘ کے الفاظ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اصحاب الرس کے آگے بیچھے اور بھی بہت سی اقوام گزر چکی تھیں اور انہوں نے بھی اپنے اپنے ادوار میں اپنے اپنے رسول کی تکذیب کی تھی اور ان کو بھی اسی طرح ہلاک کیا گیا تھا اگرچہ ان اقوام کا ” اصحاب الرس “ کی طرح کوئی نام بھی قرآن کریم نے ذکر نہیں کیا اور تاریخ نے بھی ان اقوام عالم کے ناموں اور ان کی تفصیل کا کوئی ذکر نہیں کیا اور نہ ہی ان کے دور متعین کئے ، البتہ جو کچھ یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے وہ یہی ہے کہ ان کا زمانہ مسیح (علیہ السلام) سے بہرحال پہلے کا ہے مسیح (علیہ السلام) کے بعد کا نہیں۔ 1۔ ابن عساکر کے قول کے مطابق اصحاب الرس کا زمانہ عاد سے بھی صدیوں پہلے کا ہے ، ان کے ہاں اللہ تعالیٰ نے حنظلہ بن صفوان کو رسول بنا کر مبعوث کیا تھا انہوں نے ان کو دین کی تبلیغ کی مگر اصحاب الرس نے حق کو قبول نہ کیا اور اپنے رسول حنظلہ بن صفوان کو قتل کردیا اور اسی پاداش میں اللہ تعالیٰ نے ان کو ہلاک کردیا لیکن اس سے یہ بات معلوم نہیں ہوتی کہ ان کو کنوئیں والے کیوں کہا گیا اور یہ نسبت اس واقعہ کے ساتھ کیا نسبت رکھتی ہے ، ملخص تاریخ ابن کثیر جلد اول۔ 2۔ ابن ابی حاتم نے بروایت عبداللہ بن عباس ؓ نقل کیا ہے کہ آذر بائی جان کے قریب ایک کنواں تھا یہ قصہ چونکہ اس سے تعلق رکھتا ہے اس لئے وہاں کے بسنے والے اصحاب الرس کہلائے ، عکرمہ نے کہا کہ اس کنوئیں کے قریب آباد قوم نے اپنے نبی کو چونکہ اس کنوئیں میں ڈال کر زندہ دفن کردیا تھا اس لئے ان کو اصحاب الرس کہا گیا ۔ تاریخ ابن کثیر ج اول۔ 3۔ قتادہ (رح) کا بیان ہے کہ یمامہ کے علاقہ میں فلیح نام کی ایک بستی تھی اور اصحاب الرس وہی آباد تھے اور یہ اور اصحاب القریہ جن کا ذکر سورة یس میں کیا گیا ہے ایک ہی ہیں کیونکہ یہ مختلف نسبتوں سے پکارے جاتے ہیں ۔ تاریخ ابن کثیر ج اول۔ 4۔ ایک روایت عکرمہ سے اس طرح کی بھی مشہور ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن ابی حاتم اور عکرمہ دونوں کی روایت کا ایک ہی مطلب ہے اگرچہ یہ دونوں رائیں بھی مشکوک ہیں اس لئے کہ قرآن کریم نے اصحاب القریہ اور اصحاب الرس دونوں کا تذکرہ جدا جدا کیا ہے دونوں تذکروں میں کسی ایک جگہ بھی یہ اشارہ نہیں ملتا کہ یہ دونوں قومیں ایک ہیں اور اگر بات اسی طرح ہے تو اصول بلاغت کے خلاف ہے کہ ایک ہی قوم کو جدا جدا نسبتوں اور کیفیتوں کے ساتھ بیان کیا جائے اور ان میں سے کسی ایک میں بھی یہ اشارہ موجود نہ ہو کہ یہ مختلف نسبتیں اور تعبیریں ایک ہی معاملہ سے تعلق رکھتی ہیں اور یہ بات اپنی جگہ صحیح اور درست ہے کہ یہ تفسیر نبی اعظم وآخر ﷺ یا کسی دوسرے اس قوم کے بعد کے نبی ورسول کی بیان کردہ نہیں اور تاریخی حیثیت میں اس کا ماخذ بھی معلوم نہیں البتہ ان دونوں قوموں کو الگ الگ قوم ماننے کے لئے بطور واصل یہ موجود ہے کہ اصحاب الرس کا تعلق قبل مسیح کی اقوام سے ہے اور اصحاب القریہ یقینی طور پر مسیح (علیہ السلام) سے بعد کی قوم ہے اس کی تفصیل عنقریب آئے گی ۔ 5۔ ابوبکر عمر بن حسن نقاش اور سہیل کہتے ہیں کہ اصحاب الرس کی آبادی میں ایک بہت بڑا کنواں تھا جس کے پانی سے وہ لوگ پانی پیتے تھے اور کھیتی کو چلانے کا کام لیتے تھے اور اس بستی کا بادشاہ بہت ہی عادل تھا اور لوگ بھی اس سے بیحد محبت کرتے تھے اس کا جب انتقال ہوگیا تو اہل شہر اس کی موت سے سخت غمگین اور حزین تھے کہ ایک دن شیطان اس بادشاہ عادل کی شکل میں ظاہر ہوا اور اہل شہر کو جمع کرکے تقریر کی کہ میں سے کچھ دنوں کے لئے جدا ہوگیا تھا ‘ مرا نہیں تھا اب آگیا ہوں اور ہمیشہ زندہ رہوں گا لوگوں نے اس کی بات پر یقین کرلیا اور اس کی آمد پر ایک بہت بڑا جشن منایا تب شیطان نے ان کو حکم دیا کہ وہ مجھ سے ہمیشہ پس پردہ باتیں کیا کریں چناچہ اس کے حکم کی تعمیل کی گئی اور وہ پس پردہ بیٹھ کر گمراہی پھیلانے لگا اس وقت بقول سہیل صاحب ” روض الانف “ ایک شخص حنظلہ بن صفوان کو خواب میں بتا دیا گیا کہ ان کو اس آبادی میں راہ ہدایت دکھانے کے لئے پیغمبر بنا دیا گیا ہے ۔ صفوان نے ان کے پاس جا کر توحید الہی کا درس دیا اور شرک سے اجتناب کی تلقین کی اور ان لوگوں کو بتایا کہ یہ تمہارا بادشاہ نہیں ہے بلکہ یہ تو پس پردہ شیطان ہے تو لوگوں کو اس کی یہ بات سخت ناگوار گزری اور بجائے اس کے کہ وہ اس کی بات مانتے اور حق کو قبول کرتے اس پیغمبر پر حملہ کرکے اس کو قتل کردیا اور اس المیہ کی پاداش میں اللہ تعالیٰ نے انکو ہلاک کردیا اور اس طرح کل جس بستی میں چہل پہل تھی اور باغات اور نہروں سے گویا جنگل میں منگل ہو رہا تھا آج وہ جل بھن کر چٹیل میدان ہو کر رہ گئی جس میں کتوں ‘ شیروں اور بھیڑیوں کے مسکن کے سوا کچھ باقی نہ رہا ۔ یہ روایت پہلی روایتوں سے بڑی اور مفصل ہے تاہم اصول روایت ودرایت کے لحاظ سے سخت ساقط الاعتبار ہے اور ایک من گھڑت داستان کے سوا اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے (البدایہ والنھایہ جلد اول) 6۔ محمد بن کعب قرضی فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ” ان اول الناس یدخل الجنۃ یوم القیمۃ العبد الاسود “۔ (جنت میں سب سے پہلے جو شخص داخل ہوگا وہ ایک سیاہ فام غلام ہوگا) کیوں ؟ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک بستی میں اپنا پیغمبر بھیجا مگر اس کو اس کالے کلوٹے غلام کے سوا کسی نے بھی نبی تسلیم نہ کیا اور اس کے سوا ایک بھی ایمان نہ لایا پھر اہل شہر نے اس پر اکتفا نہیں کیا بلکہ نبی کو ایک کنوئیں میں بند کردیا اور اس پر ایک بہت بھاری اور وزنی پتھر رکھ دیا تاکہ اس کو کوئی کھول نہ سکے اور یہ نبی اس طرح سسکیاں لیتے لیتے اس میں مرجائے لیکن یہ سیام فام شخص بہت قوی ہیکل تھا وہ جنگل کی طرف جاتا وہاں سے لکڑیاں کاٹ کر لاتا ‘ بازار میں فروخت کرتا اور انکی قیمت سے کھانا خرید کر روزانہ کنوئیں پر پہنچ کر پتھر کو ہٹاتا اور اللہ کے رسول کی خدمت میں کھانا پہنچاتا کچھ عرصہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس پر جنگل میں نیند طاری کردی اور یہ چودہ سال تک اس حالت میں سویا پڑا رہا ادھر یہ ہوا لیکن ادھر دقوم وک اپنی اس نازیبا حرکت پر افسوس آیا اور انہوں نے اس رسول اللہ کو کنوئیں سے نکال لیا اور توبہ کر کے اس پر ایمان لائے اور اس مدت کے اندر اس پیغمبر کا انتقال ہوگیا ۔ چودہ سال کے بعد جب وہ غلام جاگا تو اس نے سمجھا کہ میں چند گھنٹے سویا ہوں جلدی سے لکڑیاں چن کر شہر پہنچا دیکھا تو حالات بدلے ہوئے تھے دریافت کیا تو سارا قصہ اس کو معلوم ہوا اور اس غلام کے متعلق نبی اعظم وآخر ﷺ کا یہ ارشاد ہے جو اوپر ذکر کیا گیا ۔ مروج الذھب ص 586 حاشیہ الکامل جلد اول۔ معلوم رہے کہ یہ روایت اپنی سند کے لحاظ سے بھی قابل جرح ہے اور درایت کے اعتبار سے بھی چناچہ محدثین کہتے ہیں کہ یہطویل داستان خود محمد بن کعب کی جانب سے ہے جس کو انہوں نے اسرائیلیات سے اخذ کیا ہوگا بلاریب نبی اعظم وآخر ﷺ کا اس سے کوئی تعلق نہیں ۔ (ارض القرآن ج 2 ص 56) علاوہ ازیں قرآن کریم میں صراحت کے ساتھ موجود ہے کہ ” اصحاب الرس “ بھی ہلاک شدہ قوموں میں سے ہیں اور یہ روایت اس کے خلاف ہے جو ان کو نجات یافتہ بیان کرتی ہے اس لئے قطعا غلط ہے اور روایت کا وہ جملہ جس میں عبد اسوس کا ذکر ہے اگر وہ ثابت بھی ہوجائے یعنی اس روایت کے علاوہ وہ موجود ہو تو بھی اس کا تعلق اصحاب الرس کے واقعہ سے نہیں ہوگا ۔ 7۔ مورخ مسعودی کہتے ہیں کہ اصحاب الرس حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد میں سے ایک ہیں اور یہ دو قبیلے تھے ایک قیدماں یا قید ماہ اور دوسرا یامین یا رعویل اور یہ یمن میں آباد تھے ، لیکن مسعودی نے صرف اس قدر تعارف پر اکتفا کیا ہے اور تاریخی حیثیت سے نہیں بتایا کہ وہ کن وجوہ کی بنا پر قید ماہ اور رعویل کو اصحاب الرس کہتا ہے اور ان کو ” رس “ کے ساتھ کیا تعلق ہے ؟ یہ صحیح ہے کہ سیدنا اسماعیل (علیہ السلام) کے بارہ بیٹوں میں سے ایک کا نام قیدماہ بھی ہے لیکن توراۃ اور تاریخ دونوں اس بات سے خاموش ہیں کہ اس کی اولاد کو اصحاب الرس بھی کہا جاتا ہے لہذا مسعودی کا قول دلیل کا محتاج ہے تاہم صاحب ارض القرآن سلیمان ندوی (رح) نے صرف اس بنا پر کہ مسعودی نے اپنی رائے تذبذب اور تردد کے ساتھ بیان نہیں کی اس قول کو ترجیح دی ہے ۔ (الرض القرآن ج 2 ص 56) 8۔ مصر کے ایک مشہور معاصر عالم فرج اللہ زکی کردی کہتے ہیں کہ لفظ رس ” ارس “ کی تخفیف ہے اور یہ اس مشہور شہر کا نام ہے جو قفقاز کے علاقہ میں واقع ہے اس وادی میں اللہ تعالیٰ نے ایک نبی کو مبعوث فرمایا جس کا نام ابراہیم زردشت تھا انہوں نے اپنی قوم کو دین حق کی دعوت دی مگر قوم نے انکار کیا اور ان کی دعوت و ارشاد کے مقابلہ میں اور زیادہ سرکشی اور بغاوت اختیار کرلی چناچہ قوم نے اس کی سزا پائی اور ہلاک کردی گئی اس کے بعد ان کی دعوت کا میدان عمل اس مخصوص علاقہ قفقاز یعنی آذربائی جان سے کل ایران تک وسیع ہوگیا ۔ زردشت کا صحیفہ اگرچہ محرف ہوچکا ہے مگر اس کا ایک حصہ اب بھی قدیم فارسی مکتوب میں موجود ہے (مراد اس سے اوستا کی جانب اشارہ ہے) اور اس صحیفہ میں اب بھی نبی کریم ﷺ کی بعثت اور دین اسلام کی بشارت کا ذکر پایا جاتا ہے جس کا مفہوم یہ ہے : ” عنقریب عرب میں ایک ” نبی عظیم “ مبعوث ہوگا اور جب اس کی شریعت پر ایک ہزار سال سے زیادہ عرصہ گزر جائے گا اور دوسرا ہزار شروع ہوگا تو اس دین میں ایسی باتیں پیدا ہوجائیں گی کہ یہ پہچاننا مشکل ہوجائے گا کہ کیا یہ دین وہی دین ہے جو اپنے قرن اول میں تھا (یعنی بدعات واہوا اور رسوم قبیحہ پیدا ہوجائیں گی ) ۔ “ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ زردشت (علیہ السلام) کی اصل تعلیم حق ہی تھی اور اسی لئے انہوں نے بعثت محمد ﷺ کی بشارت دی اور بعض ایسی تفصیلات کا بھی ذکر کیا جو آج حرف بحرف صحیح ثابت ہو رہی ہیں مگر دوسرے ادیان وملل کی طرح ان کی متبعین نے بھی اس تعلیم حق کو مسخ ومحرف کر ڈالا اور ان کے متبعین مجوسی پارسی اب بھی ایران اور ہندو پاک میں پائے جاتے ہیں ۔ (تاریخ ابن کثیر ج 2 ص 42 ‘ 43 مختصرا) علامہ زکی کے اس قول کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ کتب تفسیر میں ایک قول ابن عباس ؓ سے بھی منقول ہے کہ اصحاب الرس آذر بائی جان کے قریب ایک کنوئیں کی نسبت سے مشہور تھے لہذا ممکن ہے کہ یہ ” ارس “ ہی سے مراد ہو جیسا کہ اوپر ذکر کیا جا چکا ۔ اس مسئلہ میں قول فیصل یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ یقینا حضرت مسیح (علیہ السلام) سے قبل ہو گزرا تھا اس لئے سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے درمیان کے زمانہ کی کسی قوم کا تذکرہ ہے یا کسی قدیم الہند قوم کا بہرحال یہ آخری بات جو معاصر مورخ فرج اللہ زکی کردی نے کہی ہے وہ زیادہ دل کو لگتی ہے اس لئے ہم اس کو ترجیح دیتے ہیں ۔ مختصر یہ کہ قرآن کریم کا جو مقصد موعظت و عبرت ہے وہ اپنی جگہ صاف اور واضح ہے اس لئے ایک عبرت نگاہ اور گوش حق نیوش کے لئے یہ کافی وشافی ہے کہ جو قومیں اس دنیا میں اللہ رب ذوالجلال والاکرام کے پیغام حق کو ٹھکراتی اور اس کے خلاف بغاوت وسرکشی کا علم بلند کرتی رہی ہیں اور مسلسل مہلت اور ڈھیل دینے کے باوجود وہ اپنی متکبرانہ اور مفسدانہ زندگی کو ترک کر کے صالح اور پاک زندگی بسر کرنے کے لئے آمادہ نہیں ہوئیں پھر ان پر جب رب العزت کی سخت گرفت اور بطش شدیدہ آجاتی ہے اور وہ بےیارومددگار ہلاک وبرباد کردی جاتی ہیں ۔ اس سے مسلمانوں کو درس عبرت حاصل کرنا چاہئے اور یہی مقصد ہے ان قصص کے بیان کا لیکن افسوس کہ اس وقت ہم میں ایسے بہت ہی کم لوگ ہیں جو ان قصص سے درس عبرت حاصل کریں اس پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہے ۔
Top