Al-Qurtubi - Al-Furqaan : 38
وَّ عَادًا وَّ ثَمُوْدَاۡ وَ اَصْحٰبَ الرَّسِّ وَ قُرُوْنًۢا بَیْنَ ذٰلِكَ كَثِیْرًا
وَّعَادًا : اور عاد وَّثَمُوْدَا : اور ثمود وَاَصْحٰبَ الرَّسِّ : اور کنویں والے وَقُرُوْنًۢا : اور جماعتیں بَيْنَ ذٰلِكَ : ان کے درمیان كَثِيْرًا : بہت سی
اور عاد اور ثمود اور کنوئیں والوں اور ان کے درمیان اور بہت سی جماعتوں کو بھی (ہلاک کر ڈالا)
(وعاد اوثمود ” وعاد او ثمودا او اصحب الرس و قرونا بین ذلک کثیرا “ یہ سب قوم نوح پر معطوف ہیں جب قوم نوح معطوف یا اذکر فعل کی وجہ سے منصوبہ ہو۔ یہ بھی جائز ہے کہ یہ قد مرنھم کیھم ضمیر پر عطف کی وجہ سے منصوب ہو یا جعلنھم کی ھم ضمیر پر عطف کی وجہ سے منصوب ہو، یہ نحاس کا پ سندیدہ نقطہ نظر ہے، کیونکہ یہی اسکے قریب تر ہے، یہ بھی جائز ہے کہ یہ فعل مضمر کی وجہ سے منصوب ہو یعنی اس قوم عاد کو یاد کرو جنہوں نے حضرت ہود (علیہ السلام) کو جھٹلایا تو اللہ تعالیٰ نے بانجھ ہوا کے ساتھ انہیں ہلاک کردیا اور قوم ثمود کو یاد کرو جنہوں نے حضرت صالح (علیہ السلام) کو جھٹلایا تو انہیں زلزلہ کے ساتھ ہلاک کردیا۔ واصحب الرس لغت عرب میں رس سے مراد ایسا کنواں ہے جس کی چنائی نہ کی گئی ہو اس کی جمع رس اس ہے کہا : تنا بلۃ یحفرون الرساسا یعنی معدنیات کے کنویں۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : میں نے حضرت کعب سے اصحاب رس کے بارے میں پوچھا، انہوں نے جواب دیا : صاحب یس جس نے کہا تھا : اے میری قوم ! رسولوں کی اتباع کرو، اس کی قوم نے اسے قتل کردیا اور اپنے کنویں میں ڈال دیا جسے رس کہتے انہوں نے اسے رس میں پھینک دیا تھا، مقاتل نے یہی کہا۔ سدی نے کہا : قصہ یس والے اہل انطاکیہ ہیں، رس انطاکیہ میں ایک کنواں تھا جس میں لوگوں نے حبیب نجار کو قتل کیا تھا جو آل یس کا مومن تھا تو وہ لوگ اس کنویں کی طرف منسوب ہوگئے۔ حضرت علی شیر خدا ؓ نے کہا : یہ وہ قوم تھی جو صنوبر کے درخت کی پوجا کرتی تھی ان کے نبی نے ان کے خلاف بد دعا کی جو یہود کی اولاد میں سے تھے وہ درخت خشک ہوگیا لوگوں نے اس نبی کو قتل کردیا اور اس کنویں میں بند کردیا سیاہ بادل ان لوگوں پر سیاہ فگن ہوگیا اور انہیں جلا دیا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : یہ آذر بائیجان میں ایک قوم تھی جنہوں نے انبیاء کو قتل کیا ان کے درخت اور کھیتیاں خشک ہوگئیں وہ بھوک اور پیاس سے مر گئے ابن وہب بن منبہ نے کہا وہ کنویں والے تھے وہ اس کے اردھ گرد بیٹھا کرتے تھے اور وہ مویشوں کے مالک تھے وہ بتوں کی پوجا کرتے تھے اللہ تعالیٰ نے حضرت شعیب (علیہ السلام) کو ان کی طرف بھیجا انہوں نے حضرت شعیب (علیہ السلام) کو جھٹلایا اور آپ کو اذیتیں دیں اور اپنے کفر و سرکشی میں حد سے بڑھ گئے۔ اسی اثناء میں کہ وہ اپنے گھروں میں اس کے گرد بیٹھے ہوئے تھے تو وہ انہیں اور ان کے گھروں کو بہا کرلے گئے اللہ تعالیٰ نے انہیں زمین میں دھنسا دیا اور وہ سب ہلاک ہوگئے۔ قتادہ نے کہا : اصحاب رس اور اصحاب ایکہ دو امتیں تھیں دونوں کی طرف اللہ تعالیٰ نے حضرت شعیب (علیہ السلام) کو بھیجا انہوں نے آپ کو جھٹلایا اللہ تعالیٰ نے دومختلف عذابوں میں انہیں مبتلا کیا۔ قتادہ نے کہا : رس ایک دیہات تھا جو یمامہ کے علاقہ میں تھا۔ عکرمہ نے کہا : یہ ایسی قوم تھے جنہوں نے اپنے نبی کو زندہ ایک کنویں میں دفن کردیا تھا، اس کی دلیل وہ روایت ہے جو محمد بن کعب قرظی سے نقل کی گئی ہے جو انہوں نے اس راوی سے نقل کی جس نے یہ بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” قیامت کے روز جنت میں سب سے پہلے ایک حبشی غلام داخل ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک نبی اس کی اپنی قوم کی طرف بھیجا اس نبی پر اس سیاہ غلام کے سوا کوئی ایمان نہ لایا بستی والوں نے ایک گڑھا کھودا اور اپنے نبی کو زندہ اس میں پھینک دیا۔ اور اس پر ایک بڑا پتھر رکھ دیا۔ وہ سیاہ غلام اپنی پشت پر لکڑیاں کاٹ کر لاتا، انہیں بیچتا، اس سے کھانا اور مشروب خریدتا اس پتھر کو ہٹانے میں اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرتا یہاں تک کہ وہ کھانا اس نبی تک لٹکا دیتا اس اثناء میں کہ وہ لکڑیاں کاٹ رہا تھا کہ وہ سو گیا تو اللہ تعالیٰ نے سات سال تک اسے سلائے رکھا پھر وہ نیند سے بیدار ہوا پھر وہ دراز ہوگیا اور بائیں پہلو پر ٹیک لگائی تو اللہ تعالیٰ نے سات سال تک اسے سلائے رکھا پھر وہ اٹھا کر لکڑیوں کا گٹھا اٹھایا اسے بیچا اور کھانا پانی کنویں کے پاس لایا تو اس نبی کو نہ پایا۔ اس نبی کو قوم کو اللہ نے ایک نشانی دکھائی تو انہوں نے اسے نکالا، اس پر ایمان لائے، اس کی تصدیق کی اور وہ نبی وصال کر گئے، نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :” وہ سیاہ غلام سب سے پہلے جنت میں داخل ہوگا “۔ اس واقعہ کو مہدوی اور ثعلبی نے ذکر کیا ہے الفاظ ثعلبی کے ہیں۔ کہا : یہ لوگ اپنے نبی پر ایمان لے آئے تھے تو یہ جائز نہیں کہ یہ لوگ اصحاب الرس ہوں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اصحاب رس کے بارے میں خبر دی کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں برباد کردیا مگر یہ ہو سکتا ہے کہ انہوں نے نبی کے بعد کوئی ایسے افعال کیے ہوں جن کی وجہ سے انہیں برباد کیا گیا ہو۔ کلبی نے کہا : اصحاب رس سے مراد ایسی قول ہے اللہ تعالیٰ نے جن کی طرف نبی بنا کر بھیجاتو وہ اپنے نبی کو کھا گئے یہ وہ پہلے لوگ ہیں جن کی عورتوں نے ہم جنسی کا عمل کیا، ماوردی نے اسی کا ذکر کیا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس سے مراد اصحاب اخدود ہیں جنہوں نے خندقیں کھودیں اور مومنوں کو ان میں جلایا، اس کا ذکر بعد میں آئے گا۔ ایک قول یہ کیا گیا یہ قوم ثمود کے بقایا لوگ تھے رس وہی کنواں ہے جس کا ذکر سورة حج میں ویئر معطلۃ میں ہوا جس طرح پہلے گزر چکا ہے۔ صحاح میں رس کنویں کا نام ہے جو قوم ثمود کے باقی ماندہ افراد کا تھا۔ امام جعفر بن محمد نے اپنے باپ سے روایت نقل کی ہے : اصحاب رس ایسی قوم ہے جو اپنی عورتوں کے لیے سحق ( ہم جنسی) کو پسند کرتے تھے ان کی تمام عورتیں ہم جنس پرست تھیں۔ حضرت انس ؓ کی حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ مرد مردوں اور عورتیں اور عورتوں پر اکتفا کریں گی “۔ یہی سحق ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : رس بنی اسد کا چشمہ اور شجوریں ہیں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے کہ رس سے مراد پہاڑوں میں تہہ در تہہ برف ہے : قشیری نے اس کا ذکر کیا ہے۔ ہم نے جو پہلے ذکر کیا ہے وہ معروف ہے اس سے مراد ہر وہ گڑھا ہے جسے کھودا جائے جس طرح قبر، کان اور کنواں۔ ابو عبید نے کہا : رس سے مراد ایسا کنواں ہے جس کی چنائی نہ کی گئی ہو۔ اس کی جمع رس اس ہے۔ شاعر نے کہا : وھم سائرون الی ارضھم فیالیتھم یحضرون الرساس وہ اپنے علاقہ کی طرف جا رہے ہیں، کاش ! وہ کنویں کھود لیتے۔ زہیر کے قول میں رس وادی کا نام ہے۔ فھن لوادی الرس کالیدللفم وہ وادی رس کے لیے ایسی ہیں جس طرح منہ کے لیے ہاتھ۔ رسست رسا میں نے کنواں کھودا۔ رس المیت میت کو قبر میں دفن کیا گیا۔ رس کا معنی لوگوں کے درمیان اصلاح ہے اس کا معنی فاسد کرنا بھی ہے۔ قدر سست بینھم میں نے ان کے درمیان صلح کرا دی، میں نے ان کے درمیان فساد برپا کردیا، یہ اضداد میں سے ہے۔ اصحاب رس کے بارے میں اس کے علاوہ بھی بات کی گئی ہے جو کچھ ہم نے کہا : ثعلبی اور دوسرے علماء نے یہ ذکر کیا ہے۔ وقرونا بین ذلک کثیرا قوم نوح، قوم عاد، قوم ثمود ور اصحاب رس کے درمیان ایسی امتیں ہو گزری ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ ربیع بن خیثم کے بارے میں مروی ہے کہ وہ بیمار ہوئے تو ان سے عرض کی گئی : کیا آپ دوائی نہیں کریں گے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اس بارے میں حکم دیا ہے ؟ انہوں نے کہا : میں نے اس کا قصد کیا پھر میرے اور میرے نفس کے درمیان جو معاملات تھے ان کے بارے میں غور و فکر کیا تو کیا پاتا ہوں کہ قوم عاد، قوم ثمود، اصحاب رس اور درمیان میں بیشمار قومیں ہیں جو مال جمع کرنے کی زیادہ حریص تھیں ان میں طیب بھی تھے نہ ان میں کوئی تعریف کرنے والا بچا اور نہ وہ بچا جس کی تعریف کی گئی۔ انہوں نے دوائی کرنے سے انکار کردیا صرف پانچ دن تک وہ زندہ رہے یہاں تک کہ وہ فوت ہوگئے اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرمائے۔
Top