Taiseer-ul-Quran - Al-Furqaan : 38
وَّ عَادًا وَّ ثَمُوْدَاۡ وَ اَصْحٰبَ الرَّسِّ وَ قُرُوْنًۢا بَیْنَ ذٰلِكَ كَثِیْرًا
وَّعَادًا : اور عاد وَّثَمُوْدَا : اور ثمود وَاَصْحٰبَ الرَّسِّ : اور کنویں والے وَقُرُوْنًۢا : اور جماعتیں بَيْنَ ذٰلِكَ : ان کے درمیان كَثِيْرًا : بہت سی
اور (اسی طرح) قوم عاد، قوم ثمود، کنوئیں والے 50 اور درمیانی پشتوں میں سے بہت سے لوگ (تباہ کردیئے گئے۔
50 قوم عاد وثمود کا ذکر تو قرآن میں بہت سے مقامات پر مذکور ہے مگر اصحاب الرس یا کنویں والوں کا ذکر صرف دو مقامات پر آیا ہے۔ ایک اسی جگہ اور دوسری سورة ق کی آیت نمبر 12 میں۔ ان مقامات پر ان کا ذکر اس قدر مختصر ہے جس سے ان کے حالات پر کچھ روشنی نہیں پڑتی۔ نہ ہی یہ معلوم ہوسکا ہے کہ ان کی طرف کون سا نبی مبعوث ہوا تھا۔ لغوی لحاظ سے رس بڑے کنوئیں کو کہتے ہیں۔ جس میں پانی وافر مقدار میں موجود ہو (ل ص 263) اسی وجہ سے اصحاب الرس کے بارے میں مفسرین میں کئی قسم کے اختلافات ہیں۔ زیادہ مشہور یہی بات ہے اس سے مراد اہل انطاکیہ ہیں۔ ان کی طرف حبیب نجار نبی مبعوث ہوئے تو انہوں نے انھیں جھٹلایا لیکن آپ بدستور انھیں اللہ کا پیغام پہنچاتے رہے۔ بالاخر ان لوگوں نے آپ کو مار کر کنوئیں میں ڈال دیا۔ اسی وجہ سے یہ اصحاب الرس کے لقب سے مشہور ہوئے پھر اللہ نے اس کنوئیں سمیت اس بستی کو زمین دھنسا دیا۔ واللہ اعلم بالصواب
Top