Ruh-ul-Quran - Al-Furqaan : 39
وَ كُلًّا ضَرَبْنَا لَهُ الْاَمْثَالَ١٘ وَ كُلًّا تَبَّرْنَا تَتْبِیْرًا
وَكُلًّا : اور ہر ایک کو ضَرَبْنَا : ہم نے بیان کیں لَهُ : اس کے لیے الْاَمْثَالَ : مثالیں وَكُلًّا : اور ہر ایک کو تَبَّرْنَا : ہم نے مٹا دیا تَتْبِيْرًا : تباہ کر کے
ہم نے ان میں سے ہر ایک کو مثالیں دے دے کر سمجھایا اور بالآخر ہر ایک کو نیست و نابود کردیا
وَکُلاًّ ضَرَبْنَالَـہُ الْاَمْثَالَ ز وَکُلاًّ تَبـَّرْنَا تَتْبِیْرًا۔ (الفرقان : 39) (ہم نے ان میں سے ہر ایک کو مثالیں دے دے کر سمجھایا اور بالآخر ہر ایک کو نیست و نابود کردیا۔ ) ضربِ مثل کا مفہوم ضرب مثل کا معنی ہوتا ہے کسی بات کو تمام ممکن ذرائع اور لوازم کے ساتھ واضح کردینا۔ جس میں مثالیں بھی شامل ہیں، تذکیر و تنبیہ بھی، اور ہر بات کی پوری تفصیل بھی۔ پیش نظر صرف یہ ہوتا ہے کہ بات کو اتنا کھول دیا جائے اور اس کے عواقب و نتائج کو اتنا واضح کردیا جائے کہ سننے والے کو سمجھنے میں کوئی مشکل پیش نہ آئے۔ کیونکہ حقائق کو سپاٹ انداز میں بیان کردینے سے بات کہنے کا حق تو ادا ہوجاتا ہے لیکن تفہیم و تشریح کا حق ادا نہیں ہوتا۔ اس کے لیے اگر حقائق کو مصور و ممثل کردینے کی ضرورت پڑے اور تاریخ کے احوال و واقعات کا سہارا لینا پڑے تو یہ عین مطلوب ہے۔ اللہ تعالیٰ کے رسول چونکہ لوگوں پر حجت تمام کرنے کے لیے آتے ہیں، اس لیے وہ صرف اصول و ضوابط بیان کردینے پر ہی اکتفا نہیں کرتے بلکہ تمثیلات اور تاریخ کے امثال و واقعات سے بات کو اس طرح واضح کردیتے ہیں کہ ایک ہٹ دھرم آدمی کے سوا کوئی اس کا انکار نہیں کرسکتا۔ اس آیت کریمہ میں فرمایا گیا ہے کہ جن قوموں پر اللہ تعالیٰ کا عذاب آیا انھیں یہ شکایت کبھی نہیں رہی کہ ان کی طرف بھیجے جانے والے رسول نے تبلیغ و دعوت میں کوئی کمی کی یا افہام و تفہیم میں کوئی کمزوری رہ گئی ہے۔ ان کے انکار کا سبب ان کی ہٹ دھرمی، تکبر و غرور یا عالم غیب کے حقائق کو آنکھوں سے دیکھ کر ماننے پر اصرار تھا۔ اور جب کوئی قوم اس سطح پر اتر جاتی ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کی سنت کے مطابق قہرالٰہی اس پر برستا ہے اور وہ تباہ کردی جاتی ہے۔
Top