Tafseer-e-Mazhari - Al-Waaqia : 73
نَحْنُ جَعَلْنٰهَا تَذْكِرَةً وَّ مَتَاعًا لِّلْمُقْوِیْنَۚ
نَحْنُ : ہم نے جَعَلْنٰهَا : بنادیا ہم نے اس کو تَذْكِرَةً : نصیحت کا سبب وَّمَتَاعًا : اور فائدے کی چیز لِّلْمُقْوِيْنَ : مسافروں کے لیے
ہم نے اسے یاد دلانے اور مسافروں کے برتنے کو بنایا ہے
ہم نے ہی اس کو یاددہانی کی اور مسافروں کے فائدے کی شے بنایا ہے۔ تَذْکِرَۃً : قیامت کی یاد دہانی کی چیز کیونکہ جو خدا سبز لکڑی سے آگ برآمد کرتا ہے ‘ باوجودیکہ سبز تازہ لکڑی میں مائیت موجود ہوتی ہے جو کیفیت کے لحاظ سے آگ کی بالکل ضد ہے ‘ وہ خدا دوبارہ بھی انسان کو پیدا کرسکتا ہے کیونکہ انسان کی ہڈیاں پہلے اوّل زندگی میں تر تھیں ‘ ان میں رطوبت طبعیہ تھی ‘ پھر رطوبت خشک ہوگئی اور ہڈیاں فرسودہ ہوگئیں۔ بس اتنی بات ہوئی۔ خشک ہڈیوں میں دوبارہ رطوبت طبعیہ پیدا ہونا پانی سے آگ پیدا کرنے کے مقابلہ میں تو آسان ہے یا تذکرہ ہونے کا یہ مطلب ہے کہ تاریکی میں اس کے ذریعہ راستہ معلوم ہوجاتا ہے یا اس سے جہنم کی یاد تازہ ہوجاتی ہے ‘ کیونکہ آگ عمومی ضرورت کی چیز ہے ‘ ہمارے اسباب معاشی اس سے وابستہ ہیں۔ اکثر اوقات لوگوں کی نظروں کے سامنے اس کا رہنا ضروری ہے اور چونکہ دنیوی آگ جہنم کی آگ کا ایک نمونہ ہے اس لیے اس آگ کو دیکھ کر جہنم کی آگ کی یاد لازم ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تمہاری آگ جہنم کی آگ کے ستّر حصوں میں سے ایک حصہ ہے۔ عرض کیا گیا : یا رسول اللہ ! ﷺ یہ آگ (جلانے کے لیے) کافی ہے۔ فرمایا : جہنم کی آگ اس آگ سے انہتر حصے بڑھ کر ہے۔ دوزخ کی آگ کا ہر ایک جزء اس آگ کے برابر ہے۔ (رواہ البخاری و مسلم فی صحیحہما) وَ مَتَاعًا : اور نفع کی چیز ‘ فائدہ رساں۔ لِّلْمُقْوِیْنَ : مقوین کا ترجمہ کیا گیا ہے : مسافر۔ یہ لفظ قوا سے مشتق ہے قوا کا معنی ہے ویران ‘ بیابان۔ جہاں کوئی عمارت نہ ہو ‘ آبادی سے دور ‘ بہ نسبت اہل اقامت کے مسافروں کو آگ کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے ‘ درندوں اور جنگلی جانوروں سے حفاظت کے لیے وہ اکثر رات کو آگ روشن رکھتے ہیں (کہیں ٹیلے یا پہاڑی پر) آگ جل رہی ہو تو مسافروں کو راستہ مل جاتا ہے پھر سردی کی وجہ سے ان کو تاپنے اور جسم کو سینکنے کی بھی زیادہ ضرورت پڑتی ہے۔ اسی لیے مسافروں کے لیے فائدہ رساں ہونے کا ذکر کیا۔ اکثر اہل تفسیر نے مقوین کا یہی ترجمہ کیا ہے۔ مجاہدککرمہ کے نزدیک مقوین سے مراد ہیں فائدہ حاصل کرنے والے ‘ کوئی ہوں ‘ مقدیم ہوں یا مسافر سب لوگ تاریکی میں آگ سے روشنی حاصل کرتے ہیں۔ سردی میں آگ سے تاپتے ہیں اور آگ سے ہی کھانا پکاتے ہیں۔ ابن زید نے کہا : مقوین کا معنی ہے بھوکے ‘ یعنی وہ لوگ جن کے پیٹ کھانے سے خالی ہوں۔ اَقْوَتِ الدَّارُ : گھر ‘ رہنے والوں سے خالی ہوگیا۔ اقویت منذ کذا۔ میں نے اتنی مدت سے کچھ نہیں کھایا۔ بعض اہل علم نے کہا : مقوین سے مراد ہیں مالدار لوگ۔ اگر کوئی مالدار ہوجائے اور اس کے جانور قوی ہوجائیں تو کہا جاتا ہے : ” اقوی الرجل “ وہ آدمی قوّت والا ہوگیا اور یہ بات تو ظاہر ہے کہ مالدار ہوں یا نادار آگ سب کے فائدے کی چیز ہے پھر خصوصیت کے ساتھ صرف مالداروں کے لیے فائدہ مند ‘ اس لیے کہا گیا کہ دولت مند طبقہ ہی بکثرت کھانا پکاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کثیر الرماد (زیادہ راکھ والا) بول کر مراد ہوتی ہے کہ اس کے پاس مہمان بہت آتے ہیں اور کھانا بہت پکایا جاتا ہے ‘ واللہ اعلم۔
Top