Tadabbur-e-Quran - Al-Waaqia : 73
نَحْنُ جَعَلْنٰهَا تَذْكِرَةً وَّ مَتَاعًا لِّلْمُقْوِیْنَۚ
نَحْنُ : ہم نے جَعَلْنٰهَا : بنادیا ہم نے اس کو تَذْكِرَةً : نصیحت کا سبب وَّمَتَاعًا : اور فائدے کی چیز لِّلْمُقْوِيْنَ : مسافروں کے لیے
ہم نے اس کو یاددہانی اور صحرا کے مسافروں کے لیے ایک نہایت نفع بخش چیز بنایا ہے۔
(نحن جعلنھا تذکرۃ و متا عا للمقوین) (73) (آگ کے ذکرکے بعض خاص پہلو)۔ فرمایا کہ ہم نے اس کو یاد دہانی اور منفعت کی چیز بنایا ہے صحرا کے مسافروں کے لیے، مقرین صحرائوں اور چٹیل میدانوں میں سفر کرنے والوں کو کہتے ہیں، جہاں آگ کا حاصل کرنا مشکل ہوتا ہے، ضمیر مونث کا مرجع شجرۃ بھی ہوسکتا ہے اور وہ آگ بھی جو اس سے پیدا ہوتی ہے۔ دونوں صورتوں میں باعتبار مفہوم کوئی فرق واقع نہیں ہوگا۔ تذکرۃ کے معنی یاددہانی کے ہیں اس یاد دہانی کے ہیں تو متعدد پہلو لیکن ہم صرف دو خاص اہمیت رکھنے والے پہلوئوں کی طرف یہاں اشارہ کریں گے۔ اول یہ کہ رب کریم کی پروردگاری کی یہ ایک بہت بڑی نشانی ہے۔ ربوبیت انسان پر مسئولیت کی ذمہ داری عائد کرتی ہے جو سزا و سزا و دوزخ یا جنت کو مستلزم ہے۔ اس نکتہ کی وضاحت ہم جگہ جگہ کرتے آ رہے ہیں۔ دوسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے یہ خبر جو دی ہے کہ دوزخ میں آگ بھی ہوگی اور اس میں زقوم کے درخت بھی ہوں گے، یہ ایک حقیقت ہے۔ اس کو خلاف عقل سمجھ کر کوئی اس کا مذاق اڑانے کی کوشش نہ کرے۔ جو خدا سرخ اور عفاء کی ہری شاخوں کے اندر آگ بھر سکتا ہے اس کے لیے دوزخ کے اندر زقوم پیدا کردینا کیا مشکل ہے۔ سورة بنی اسرائیل کی آیت 60 میں یہ بات گزر چکی ہے کہ قریش کے لیے فکرے قرآن کا مذاق اڑاتے تھے کہ یہ دوزخ میں آگ کی بھی خبر دیتا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہتا ہے کہ اس میں زقوم کے درخت بھی ہوں گے۔ وہاں ان کے اس استہزاء کا جواب ایک دوسرے پہلو سے دیا ہے۔ جس کی وضاحت ہم کرچکے ہیں۔ اس سورة کی آیات 52، 53 بھی چونکہ زقوم کا ذکر آیا ہے اس وجہ سے جب آگ پیدا کرنے والے اس درخت کا ذکر فرمایا تو اس حقیقت کی طرف بھی توجہ دلا دی کہ جو لوگ دوزخ میں آگ اور درخت کی یکجائی کو ناممکن بتاتے ہیں وہ اس درخت سے سبق حاصل کریں کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح یہ دونوں چیزیں یکجا کررکھی ہیں۔
Top