Urwatul-Wusqaa - Al-Waaqia : 73
نَحْنُ جَعَلْنٰهَا تَذْكِرَةً وَّ مَتَاعًا لِّلْمُقْوِیْنَۚ
نَحْنُ : ہم نے جَعَلْنٰهَا : بنادیا ہم نے اس کو تَذْكِرَةً : نصیحت کا سبب وَّمَتَاعًا : اور فائدے کی چیز لِّلْمُقْوِيْنَ : مسافروں کے لیے
ہم ہی نے تو اس کو نصیحت دینے والا اور مسافروں کے لیے نفع کی چیز بنایا
ہم نے اس کو نصیحت دینے والی اور مسافروں کے لیے نفع بخش بنایا ہے 37 { جعلنھا } ہم نے اس کو بنایا ہے ” ھا “ کی ضمیر آگ کی طرف راجع ہے یعنی ہم نے اس آگ کو بنایا نصیحت اور فائدہ کی چیز { المقوین } اسم فاعل جمع مذکر مجرور المقوی واحد { اقواء } مصدر اقواء یاقوۃ سے مآخذ۔ اس لفظ کے ترجمہ میں اہل تفسیر کا اختلافات ہے۔ صاحب معالم التنزیل نے لکھا ہے قَّی اور قواء ویران زمین کو کہتے ہیں جس میں کوئی رہنے والا نہ ہون چناچہ کہا جاتا ہے کہ اقرت الدار مکان غیر آباد ہوگیا ، رہنے والوں سے خالی ہوگیا اس لیے مقوین اس جگہ مراد ہیں مسافر اور صحرا نشین لوگ کیونکہ مسافروں اور صحرانشینوں کو آگ سے زیادہ فائدہ پہنچتا ہے کہ رات کو آگ جلاتے ہیں تو بھولے بھٹکے لوگوں کو راستہ مل جاتا ہے۔ لیکن بعض لوگوں نے کہا ہے کہ مقوین سے مراد عام فائدہ حاصل کرنے والے لوگ ہیں خواہ وہ مسافر ہوں یا مقیم اور بعض نے کہا ہے کہ اس سے مراد بھوکے لوگ ہیں کیونکہ عرب کہتے ہیں کہ اقویت منذیومین میں دو دن سے بھوکا ہوں اور بعض نے کہا ہے کہ مقوی اضداد میں سے ہے کیونکہ یہ لفظ فقیر پر بھی بولا جاتا ہے اس لیے کہ وہ مال و متاع سے خالی ہوتا ہے اور غنی کو بھی کہتے ہیں اس لیے کہ وہ صاحب قوت ہوتا ہے اور اپنے ہر مقصود کو حاصل کرنے کے اس میں قوت ہوتی ہے لیکن چونکہ اس لفظ کا استعمال فقط اس اس ایک جگہ ہی ہوا ہے اور قرآن کریم میں کسی دوسری جگہ یہ لفظ استعمال نہیں ہوا اس لیے ہم نے اس کے معنی مسافروں ہی کے لیے ہیں کیونکہ آگ مقیم لوگوں سے مسافروں کے لیے زیادہ نفع بخش ہے اور ان کا انحصار اس پر زیادہ ہے کیونکہ ویران ریگزاروں میں جب آگ جلتی ہے تو اس کی روشنی میلوں تک دکھائی دیتی ہے اور کئی راہ گیر جن کی کوئی جائے پناہ نہیں ہوتی وہ اس طرح کے اور فوائد بھی اس سے حاصل ہو سکتے ہیں۔
Top