Mufradat-ul-Quran - Al-Waaqia : 73
نَحْنُ جَعَلْنٰهَا تَذْكِرَةً وَّ مَتَاعًا لِّلْمُقْوِیْنَۚ
نَحْنُ : ہم نے جَعَلْنٰهَا : بنادیا ہم نے اس کو تَذْكِرَةً : نصیحت کا سبب وَّمَتَاعًا : اور فائدے کی چیز لِّلْمُقْوِيْنَ : مسافروں کے لیے
ہم نے اسے یاد دلانے اور مسافروں کے برتنے کو بنایا ہے
نَحْنُ جَعَلْنٰہَا تَذْكِرَۃً وَّمَتَاعًا لِّلْمُقْوِيْنَ۝ 73 ۚ جعل جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها، ( ج ع ل ) جعل یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔ تَّذْكِرَةُ : ما يتذكّر به الشیء، وهو أعمّ من الدّلالة والأمارة، قال تعالی: فَما لَهُمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِينَ [ المدثر/ 49] ، كَلَّا إِنَّها تَذْكِرَةٌ [ عبس/ 11] ، أي : القرآن . وذَكَّرْتُهُ التذکرۃ جس کے ذریعہ کسی چیز کو یاد لایا جائے اور یہ دلالت اور امارت سے اعم ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ فَما لَهُمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِينَ [ المدثر/ 49] ان کو کیا ہوا کہ نصیحت سے روگرداں ہورہے ہیں ۔ كَلَّا إِنَّها تَذْكِرَةٌ [ عبس/ 11] دیکھو یہ ( قرآن ) نصیحت ہے ۔ مراد قرآن پاک ہے ۔ ذَكَّرْتُهُ كذا متع الْمُتُوعُ : الامتداد والارتفاع . يقال : مَتَعَ النهار ومَتَعَ النّبات : إذا ارتفع في أول النّبات، والْمَتَاعُ : انتفاعٌ ممتدُّ الوقت، يقال : مَتَّعَهُ اللهُ بکذا، وأَمْتَعَهُ ، وتَمَتَّعَ به . قال تعالی: وَمَتَّعْناهُمْ إِلى حِينٍ [يونس/ 98] ، ( م ت ع ) المتوع کے معنی کیس چیز کا بڑھنا اور بلند ہونا کے ہیں جیسے متع النھار دن بلند ہوگیا ۔ متع النسبات ( پو دا بڑھ کر بلند ہوگیا المتاع عرصہ دراز تک فائدہ اٹھانا محاورہ ہے : ۔ متعہ اللہ بکذا وامتعہ اللہ اسے دیر تک فائدہ اٹھانے کا موقع دے تمتع بہ اس نے عرصہ دراز تک اس سے فائدہ اٹھایا قران میں ہے : ۔ وَمَتَّعْناهُمْ إِلى حِينٍ [يونس/ 98] اور ایک مدت تک ( فوائد دینوی سے ) ان کو بہرہ مندر کھا ۔ مُقْوِينَ ( قوي) وسمّيت المفازة قِوَاءً ، وأَقْوَى الرّجل : صار في قِوَاءٍ أي : قفر، وتصوّر من حال الحاصل في القفر الفقر، فقیل : أَقْوَى فلان، أي : افتقر، کقولهم : أرمل وأترب . قال اللہ تعالی: وَمَتاعاً لِلْمُقْوِينَ [ الواقعة/ 73] . مفازۃ یعنی ریگستان کو قعواء کہا جاتا ہے اور افوا الرجل کے معنی کسی آدمی کے قواء یعنی بیابان میں چلے جانے کے ہیں ۔ پھر قفر یعنی بیابان سے قفر کا معنی لے کر اقوی الرجل کا محاورہ افتقر یعنی محتاج اور نادار کے معنی استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَمَتاعاً لِلْمُقْوِينَ [ الواقعة/ 73] اور محتاج اور ضرورتمندوں کے لئے سامان آسا آسا ئش بنایا ہے ۔ میں مقوین کا لفظ اسی معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ المقوین : اسم فاعل جمع مذکر۔ مجرور۔ المقوی واحد۔ اقواء ( افعال) مصدر قواء یاقوۃ ماخذ۔ اس لفظ کے ترجمہ میں اہل تفسیر کا اختلاف ہے :۔ حضرت علامہ ثناء اللہ پانی پتی (رح) لکھتے ہیں :۔ مقوین کا ترجمہ کیا گیا ہے مسافر۔ یہ لفظ قواء سے مشتق ہے قواء کا معنی ہے ویران، بیابان۔ جہاں کوئی عمارت نہ ہو۔ آبادی سے دور۔ سو مسافروں کو بہ نسبت اہل اقامت آگ کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ درندوں اور جنگلی جانوروں سے حفاظت کے لئے وہ اکثر اوقات رات کو آگ روشن رکھتے ہیں ( کہیں ٹیلے یا پہاڑی پر) آگ جل رہی ہو تو مسافروں کو راستہ مل جاتا ہے ۔ پھر سردی کی وجہ سے ان کو تانبے کی اور جسم کو سینکنے کی بھی زیادہ ضرورت پڑتی ہے اسی لئے مسافروں کے لئے فائدہ رساں ہونے کا ذکر کیا۔ اکثر اہل تفسیر نے مقوین کا یہی ترجمہ کیا ہے۔ ترجمہ :۔ ہم نے ہی اس کو مسافروں کے لئے نصیحت اور فائدہ مند چیز بنایا۔
Top