Tafseer-e-Mazhari - Al-Israa : 85
وَ یَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ١ؕ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ وَ مَاۤ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا
وَيَسْئَلُوْنَكَ : اور آپ سے پوچھتے ہیں عَنِ : سے۔ْمتعلق الرُّوْحِ : روح قُلِ : کہ دیں الرُّوْحُ : روح مِنْ اَمْرِ : حکم سے رَبِّيْ : میرا رب وَمَآ اُوْتِيْتُمْ : اور تمہیں نہیں دیا گیا مِّنَ الْعِلْمِ : علم سے اِلَّا : مگر قَلِيْلًا : تھوڑا سا
اور تم سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ کہہ دو کہ وہ میرے پروردگار کی ایک شان ہے اور تم لوگوں کو (بہت ہی) کم علم دیا گیا ہے
وَيَسْــــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ ۭ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّيْ وَمَآ اُوْتِيْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِيْلًا اور یہ لوگ آپ سے (بطور امتحان) روح کے متعلق پوچھتے ہیں آپ کہہ دیجئے کہ روح میرے رب کے حکم سے بنی ہے ‘ اور (غیر مادی اشیاء کا) تم کو علم نہیں دیا گیا ہے مگر تھوڑاسا۔ یعنی روح اس کائنات میں سے ہے جس کی ایجاد بغیر مادہ کے صرف لفظ کن سے ہوئی ہے۔ اعضائے جسم کی پیدائش کی طرح اس کی پیدائش کسی مادی اصل سے نہیں ہے۔ سوال کرنے والوں کی سمجھ کے اندازے کے مطابق جواب دے دیا گیا جس سے اتنا معلوم ہوگیا کہ دوسری مادی مخلوق کی طرح روح کی ہستی نہیں ہے ‘ بلکہ سب سے الگ ہے لیکن یہودیوں نے تو روح کی حقیقت دریافت کی تھی اور حقیقت روح اس جواب سے واضح نہیں ہوئی۔ اس لئے آگے فرمایا۔ اور (غیر مادی اشیاء کا) تم کو علم نہیں دیا گیا ہے مگر تھوڑاسا۔ یعنی اتنا جتنا تم اپنے حواس کے ذریعہ حاصل کرسکو۔ نظری حقائق کا علم بدیہیات سے حاصل ہوتا ہے اور بدیہات کا علم احساسِ جزئیات سے (اس طریقے کے علاوہ نظری علوم حاصل کرنے کا اور کوئی راستہ نہیں) اسی لئے کہا گیا ہے کہ جس نے حس کو کھو دیا اس نے علم کو کھو دیا ‘ یہی وجہ ہے کہ اکثر غیر محسوس چیزوں کے اجزاء اور ذاتیات تک حس کی رسائی نہیں ہے ان کا علم محض امتیازی اوصاف اور خواص کے ذریعہ سے ہوتا ہے اور الفاظ کی وضع یا تو محسوس چیزوں کے لئے کی جاتی ہے یا ان نامحسوس چیزوں کے لئے جن کے حصول علمی کا ذریعہ محسوس اشیاء ہوتی ہیں۔ فرعون نے جب حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) سے کہا مَا رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ ۔ رب العالمین کون۔ اس کی کیا حقیقت ہے تو جواب میں حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) نے رب العالمین کے بعض خصوصی اوصاف کا ذکر کیا (حقیقت نامعلوم تھی اس کو بتانے کے لئے الفاظ ہی نہ تھے اس لئے حقیقت کا کامل بیان نہ کرسکے) لیکن اس آیت سے یہ نہ سمجھ لینا چاہئے کہ حقیقت روح کا علم رسول اللہ ﷺ اور بعض مخصوص روشن بصیرت رکھنے والے اولیاء کے لئے بھی ناممکن تھا کیونکہ انبیاء اور مخصوص اولیاء کا علم کسبی نہیں ہوتا ‘ ان کو علم کے لئے وساطت حواس کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ان کا علم محض الہامی اور انکشافی ہوتا ہے۔ غور و فکر کا نتیجہ نہیں ہوتا۔ نورانی اور لمعاتی ہوتا ہے وہ دلوں کے کانوں سے وہ آوازیں سنتے ہیں جو چہرے کے کانوں سے سنائی نہیں دیتیں اور چشم بصیرت سے وہ چیزیں دیکھتے ہیں جو چشم بصر سے نہیں دیکھی جا سکتیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ نے فرمایا ہے میرا بندہ نوافل کے ذریعہ سے برابر میرا تقرب حاصل کرتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ مجھے اس سے محبت ہوجاتی ہے اور جب مجھے اس سے محبت ہوجاتی ہے تو میں اس کے کان ہوجاتا ہوں جن سے وہ سنتا ہے اور میں اس کی آنکھیں ہوجاتا ہو جن سے وہ دیکھتا ہے (یعنی اس کا سننا میرا سننا اور اس کا دیکھنا میرا دیکھنا ہوجاتا ہے وہ کسی چیز کو ہاتھ سے پکڑتا ہے تو گویا میں پکڑتا ہوں اور وہ اپنے قدموں سے چلتا ہے تو گویا میں چلتا ہوں۔ مترجم) ۔ اصحاب بصیرت کو حقیقت روح کا علم ہوتا ہے ارباب انکشاف نے صراحت کی ہے کہ روح سفلی ایک ہے جس کو نفس کہا جاتا ہے اور علوی ارواح پانچ ہیں قلب ‘ روح ‘ سر ‘ خفی ‘ اخفی۔ ان سب میں ذاتی فرق بھی ہے اور صفاتی بھی ہر ایک کی ذات دوسرے کی ذات اور ہر ایک کے اوصاف دوسری کے اوصاف سے ممتاز ہیں کسی کا کسی سے اشتباہ نہیں۔ لیکن بعض لوگوں کو ان میں باہم اشتباہ ہوجاتا ہے بلکہ یہ تمام علوی ارواح اتنی لطیف ہیں کہ مراتب وجوب کے ساتھ ان کا اشتباہ ہوجاتا ہے اسی اشتباہ کی وجہ سے بعض لوگ کہہ اٹھے تھے ‘ میں نے تیس برس روح کی عبادت کی۔ تیس برس کے بعد اللہ نے روح کی حقیقت کا اور روح کے ممکن و حادث ہونے کا اس پر انکشاف کردیا اور وہ بول اٹھا۔ لاَ اُحِبُّ الْاٰفِلِیْنَ ۔ ایک شبہ ابن مردویہ نے عکرمہ کی روایت سے (مرسلاً ) بیان کیا کہ جب رسول اللہ ﷺ نے آیت مذکورہ صحابہ ؓ کے سامنے پڑھی تو صحابہ نے عرض کیا یہ (حکم یعنی روح کا علم نہ ہونا) تو ہمارے لئے مخصوص ہے (آپ کو تو روح کی حقیقت معلوم ہوگی) فرمایا نہیں بلکہ ہم بھی اور تم بھی (سب ہی) مخاطب ہیں (کسی کو بھی حقیقت روح معلوم نہیں) صحابہ نے عرض کیا ‘ عجیب بات ہے ایک وقت تو آپ فرماتے ہیں وَمَنْ یُّوْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِی خَیْرًا کَثِیْرًا (جس کو حکمت عطا کی گئی اس کو خیر کثیر عطا کردی گئی) اور دوسرے وقت آپ یہ بات فرماتے ہیں (کہ حقیقت روح مجھے معلوم نہیں۔ روح کو جاننے سے زیادہ حکمت اور خیر کثیر اور کیا ہوگی) اس پر آیت وَلَوْ اَنَّ مَا فِی الْاَرْضِ مِنْ شَجَرَۃٍ اَقْلاَمٌ۔۔ نازل ہوئی۔ یہ روایت بتارہی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو بھی روح کی حقیقت معلوم نہ تھی۔ ازالہ یہ روایت اگر پایۂ ثبوت کو پہنچ جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ مَا اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ الاَّ قَلِیْلاً کا خطاب عام ہے۔ صحابہ اور رسول سب ہی مخاطب ہیں اور سب ہی کو روح کا تھوڑا سا علم عطا کیا گیا ہے اور یہ بات ہے بھی صحیح۔ انبیاء اور ملائکہ کے علوم ہوں یا دوسری مخلوق کے سب کے علوم کی مقدار اللہ کے علم کے مقابلہ میں نہایت حقیر اور قلیل ہے آیت وَلَوْ اَنَّ مَا فِی الْاَرْضِ مِن شَجَرَۃٍ اقْلاَمٌ۔۔ سے اس کی تائید ہو رہی ہے لیکن اس سے یہ بات ثابت نہیں کہ جو حکمت و معرفت انبیاء اور ان کے مخلص متبعین کو عطا فرمائی گئی ہے (جن کے اندر حقیقت روح کا علم بھی داخل ہے) وہ خیر کثیر نہیں ہے یقیناً جو حکمت انبیاء کو عطا کی گئی ہے (گو وہ اللہ کے علم کے مقابلے میں کتنی ہی حقیر و قلیل ہو پھر بھی) خیر کثیر ہے انسان کے ظاہری و باطنی کمال کی جامع ہے کوئی انسانی کمال اس سے خارج نہیں ہے۔ فائدہ آیت مذکورہ کی جو تشریح اور شان نزول ہم نے بیان کی اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ آیت مدنی ہے ‘ لیکن بغوی نے حضرت ابن عباس ؓ کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ یہ آیت مکہ میں نازل ہوئی۔ حضرت ابن عباس ؓ : کا بیان ہے کہ قریش نے جمع ہو کر باہم مشورہ کیا اور کہا محمد ﷺ : ہم میں پلے بڑھے ہیں اور ہمیشہ امانت و سچائی کے حامل رہے ہیں ‘ کبھی ہم نے کسی جھوٹ کا ان پر شبہ بھی نہیں کیا۔ لیکن اب انہوں نے وہ دعویٰ کیا جو تم لوگ جانتے ہو ‘ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ کسی کو مدینہ کے یہودیوں کے پاس بھیج کر دریافت کراؤ ‘ وہ اہل کتاب ہیں دیکھو وہ کیا کہتے ہیں۔ چناچہ چند آدمیوں کو یہودیوں کے پاس مدینہ میں بھیجا گیا ‘ لوگوں نے جا کر یہودیوں سے دریافت کیا یہودیوں نے جواب دیا محمد ﷺ سے جا کر تین باتیں پوچھو ‘ اگر وہ تینوں کا جواب دے دیں یا کسی کا جواب نہ دیں تو سمجھ لو وہ نبی نہیں ہیں اور اگر دو باتوں کا جواب دے دیں اور تیسری کا جواب نہ دیں تو سمجھ لو وہ نبی ہیں۔ 1) ان سے دریافت کرو وہ نوجوان کون تھے جنہوں نے (بھاگ کر کہیں) پناہ پکڑی تھی ان کا کیا واقعہ تھا ؟ 2) وہ کون شخص تھا جو مشرق اور مغرب تک پہنچ گیا تھا اس کا کیا واقعہ تھا ؟ 3) روح کیا ہے ؟ اس کے متعلق بھی جا کر دریافت کرو۔ قریش نے رسول اللہ ﷺ سے یہ تینوں سوال کئے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں کل کو تمہارے سوالوں کے جواب دے دوں گا۔ آپ ﷺ نے انشاء اللہ نہیں فرمایا۔ اس لئے وحی آنے میں تاخیر ہوگئی۔ مجاہد کے قول میں بارہ دن۔ بعض اقوال میں پندرہ دن اور عکرمہ کے نزدیک چالیس دن تک تاخیر وحی کی صراحت آئی ہے۔ اہل مکہ کہنے لگے ‘ محمد ﷺ نے ہم سے کل کا وعدہ کیا تھا ‘ لیکن اتنی مدت ہوگئی کچھ بھی نہیں بتایا ‘ ادھر نزول وحی میں تاخیر ہوئی اُدھر اہل مکہ ایسی باتیں کہتے تھے رسول اللہ ﷺ : کو اس کا رنج ہوا (اور سخت رنج ہوا) اسی اثناء میں اچانک ایک روز جبرئیل یہ وحی لے کر آئے وَلاَ تَقُوْلَنَّ لِشَئٍ اِنِّیْ فَاعِلٌ ذٰلِکَ غَدًا الاَّ اَنْ یَّشَآء اللّٰہُپھر اوّل سوال کے متعلق نازل ہوا ‘ اَمْ حسبت ان اصحاب الکہف والرقیم کانوا مِنْ اٰیٰتنِاَ عجبًا۔ دوسرے سوال کے جواب میں نازل ہوا یَسْءَلُوْنَکَ عَنْ ذِی الْقَرْنَیْنِاور روح کے متعلق ارشاد ہوا قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْترمذی نے یہ قصہ اختصار کے ساتھ نقل کیا ہے۔ ابن کثیر نے دونوں حدیثوں کا تعارض دور کرنے کے لئے تکرار نزول کا قول اختیار کیا ہے حافظ ابن حجر نے بھی اسی قول کو پسند کیا ہے اور اتنا زائد بھی لکھا ہے ‘ یا یہودیوں کے سوال کے وقت رسول اللہ خاموش رہے اس امید پر کہ شاید بیان میں کچھ زیادتی کردی جائے اگر دونوں حدیثوں میں تطبیق کی کوشش نہ کی جائے تو لازمی طور پر کسی روایت کو ترجیح دینی پڑے گی اور ظاہر ہے کہ صحاح کی روایت ہی قابل ترجیح ہے۔ اس کے علاوہ بخاری کی روایت کے راجح ہونے کی وجہ یہ بھی ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ (جو راوی ہیں) یہودیوں کے وقت اسی جگہ موجود تھے اور بغوی کی روایت میں حضرت ابن عباس ؓ کی دوران قصہ میں موجودگی مذکور نہیں۔ بغوی نے حضرت ابن عباس ؓ کی طرف اس قول کی بھی نسبت کی ہے کہ جس روح کے متعلق سوال کیا گیا تھا اس سے مراد حضرت جبرئیل تھے (یعنی جبرئیل کے متعلق یہودیوں نے دریافت کیا تھا) حسن اور قتادہ کا بھی یہی قول منقول ہے۔ میں کہتا ہوں ضحاک کا قول عبد بن حمید اور ابوالشیخ نے اور ایک روایت میں حضرت علی ؓ : کا قول بغوی نے نقل کیا ہے کہ روح ایک فرشتہ ہے جس کے ستّر ہزار چہرے ہیں اور ہر چہرے میں ستّر ہزار زبانیں ہیں اور تمام زبانوں سے وہ اللہ کی پاکی بیان کرتا ہے۔ مجاہد نے کہا روح ایک اور مخلوق ہے جو ہیں تو آدمی کی شکل کے ان کے ہاتھ بھی ہیں پاؤں بھی ہیں اور وہ کھانا بھی کھاتے ہیں لیکن وہ آدمی نہیں ہیں اور فرشتے بھی نہیں ہیں۔ سعید بن جبیر نے کہا عرش کے سوا اللہ نے روح سے بڑی اور کوئی مخلوق پیدا نہیں کی اگر وہ چاہے تو ساتوں آسمانوں اور ساتوں زمینوں اور ان کی ساری موجودات کا ایک لقمہ بنا کر نگل سکتا ہے ‘ اس کی جسمانی ساخت تو فرشتوں جیسی ہے اور چہرے کا ڈول آدمیوں کے چہروں کی طرح ہے ‘ قیامت کے دن وہ عرش کے دائیں جانب کھڑا ہوگا اور تمام مخلوق سے زیادہ اللہ کے قریب ستر حجابوں کے پاس موجود ہوگا اور اہل توحید کی شفاعت کرے گا۔ اگر اس کے اور ملائکہ کے درمیان نور کا حجاب حائل نہ ہو تو آسمانوں والے اس کے نور سے سوختہ ہوجائیں عبد بن حمید اور ابن المنذر نے عکرمہ کا قول بیان کیا کہ روح فرشتوں سے بھی بڑی مخلوق ہے اور کوئی فرشتہ نازل نہیں ہوتا مگر اس کے ساتھ روح ضرور ہوتی ہے۔ بعض لوگوں کا قول ہے کہ روح سے مراد قرآن ہے اور مِنْ اَمْرِ رَبِّیْکا معنی ہے من وحی اللہ بعض کے نزدیک حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) مراد ہیں اس قول پر آیت کا مطلب اس طرح ہوگا کہ عیسیٰ ویسے نہیں جیسا یہود ان کو جانتے ہیں اور ان کی والدہ پر زنا کی تہمت لگاتے ہیں اور نہ ابن اللہ ہیں جیسا کہ عیسائیوں کا عقیدہ ہے بلکہ ان کی پیدائش محض اللہ کے حکم سے کلمۂ کن سے بغیر باپ کے ہوئی تھی۔ آیت مندرجۂ بالا میں اللہ نے سارے جہان کے علم کا اپنے علم کے مقابلے میں قلیل اور حقیر ہونا ظاہر فرما دیا ‘ آئندہ آیت میں رسول اللہ ﷺ : کو کافروں کی طرف سے پہنچنے والے دکھ پر صابر رہنے کی تلقین فرمانے کی غرض سے نعمت وحی کی عظمت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا۔
Top