Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Hijr : 52
فَلَوْ لَاۤ اِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُوْمَۙ
فَلَوْلَآ : پس کیوں نہیں اِذَا بَلَغَتِ : جب پہنچ جاتی ہے الْحُلْقُوْمَ : حلق کو۔ نرخرے کو
بھلا جب روح گلے میں آپہنچتی ہے
83۔ 96۔ اوپر ذکر تھا کہ جن لوگوں نے محض عقل سے حشر کا انکار کیا ہے اور اس انکار کے سبب سے عقبیٰ کا کچھ سامان وہ لوگ نہیں کرتے ‘ یہ ان لوگوں کی کمی عقل اور ان کی سمجھ کا فتور ہے کیونکہ عقلی تجربہ سے تو یہ بات ثابت ہوتی ہے ‘ کہ اللہ تعالیٰ کے لیے دوسری دفعہ کا پیدا کرنا بہ نسبت پہلی دفعہ کے پیدا کرنے سے زیادہ آسان ہے ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اور طرح ان لوگوں کو سمجھایا ہے کہ عقلی تجربہ سے حشر کے ہونے میں شک باقی نہ رہنے کے بعد اگر ان کے دل میں یہ وہم بس گیا ہے کہ یہ انتظام الٰہی جو ان لوگوں کو جتلایا اور بتایا گیا ہے کہ مرنے کے بعد پھر جینا ہوگا۔ اور سزا اور جزا ہوگی۔ اس انتظام میں جو بات ان کی مرضی کے خلاف ہوگی اس کو یہ لوگ روک سکتے ہیں ‘ تو اس عقلی تجربہ سے ان کا یہ وہم بھی یوں رفع ہوسکتا ہے کہ جس وقت حشر کا موقعہ پیش آئے گا ‘ اس وقت تو یہ لوگ مٹی کا ڈھیر ہو کر پڑے ہوں گے۔ اب دنیا میں ان کا زور ان کی طاقت سب کچھ قائم ہے ‘ اور انتظام الٰہی کے موافق ان کی اولاد ان کے عزیز و اقارب کی روح ان کی آنکھوں کے سامنے قبض ہوتی ہے۔ اور مریض کے سرہانے ان اوپر والوں کے پاس اللہ تعالیٰ کے فرشتے قبض روح کیلئے موجود ہوتے ہیں۔ لیکن نہ ان کو وہ اللہ کے فرشتے نظر آتے ہیں ‘ نہ ان لوگوں میں یہ قدرت ہے ‘ کہ اپنے رشتہ داروں کی روح کو یہ لوگ نہ نکلنے دیں اسی طرح حشر کے خلاف مرضی ‘ انتظام کا روکنا ان کی طاقت سے باہر ہے ‘ اور یہ یاد رہے ‘ کہ جب یہ لوگ اپنے عزیزوں کے اور اپنے مرنے کو نہیں روک سکتے تو مرنے کے بعد حشر ضرور ہوگا تاکہ دنیا کا پیدا کرنا ٹھکانے لگے۔ غرض جب عقلی تجربہ سے نہ حشر کے قائم ہونے میں یہ لوگ شک کرسکتے ہیں نہ انتظام الٰہی کے روکنے کی ان کو طاقت ہے تو یہ یقینی باتیں عقبیٰ کے قائم کرنے کی ان لوگوں کو انتظام الٰہی کے موافق جو بتائی جاتی ہیں ان کو نہ ماننا اور ان پر عمل نہ کرنا ان لوگوں کی کم عقلی کی نشانی ہے اب اس فہمایش کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو حکم فرمایا کہ باوجود اس قدر فہمایش کے اگر یہ لوگ نہیں مانتے تو اس کا تم کچھ اندیشہ نہ کرو وقت مقرہ آجانے کے بعد جن کو اللہ کی طرف سے ہدایت ہونی ہے وہ خود ہوجائے گی۔ تم اللہ کے حکم کے موافق اللہ کی عبادت میں مصروف رہو۔ مسند امام احمد صحیح 1 ؎ مسلم ابو داؤود ‘ ابن ماجہ نسائی وغیرہ میں جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ سبحن ربی العظیم کو رکوع میں اور سبحن ربی الاعلی کو سجدہ میں میں آپ نے پڑھنے کو فرمایا۔ اور یہ بھی فرمایا 2 ؎۔ سبحن اللہ العظیم وبحمدہ کے ایک دفعہ کے کہنے سے ایک پیڑ جنت میں لگایا جاتا ہے۔ بیہقی 3 ؎ میں حضرت عبد اللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا سورة واقعہ کے پڑھنے سے فقر و فاقہ دفع ہوتا ہے اس باب میں اور بھی روایتیں ہیں جس سے ایک روایت سے دوسری کو قوت ہوجاتی ہے موت کے وقت اچھے لوگوں کو جنت کی خوش خبری اور برے لوگوں کو دوزخ کی غم ناک خبر جو فرشتے سناتے ہیں اس کا حال براء بن عازب کی حدیث کے حوالہ سے اوپر گزر چکا ہے۔ (2 ؎ صحیح بخاری باب قول اللہ عزو جل و تجعلون رزقکم انکم تکذبون ص 141 ج 1 و صحیح مسلم باب بیان کفر من قال مطرنا بالنوء ص 58 ج 1۔ ) (1 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 298 ج 4۔ ) (2 ؎ جامع ترمذی باب ماجاء فی فضل التسبیح والتھلیل والتکبیر والتحمید ص 206 ج 2۔ ) (3 ؎ مشکوٰۃ شریف کتاب فضائل القران الفصل الثالث ص 189۔ )
Top