Mafhoom-ul-Quran - Al-Waaqia : 83
فَلَوْ لَاۤ اِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُوْمَۙ
فَلَوْلَآ : پس کیوں نہیں اِذَا بَلَغَتِ : جب پہنچ جاتی ہے الْحُلْقُوْمَ : حلق کو۔ نرخرے کو
بھلا جب روح گلے تک (میں) آپہنچتی ہے
زندگی کا فائدہ اٹھاؤ اور آخرت کماؤ تشریح : پورا قرآن پاک ہی حکمت و دانائی سے بھرا پڑا ہے۔ اسی طرح یہ آیات بھی معرفت الہٰی کو واضح کرنے اور توحید کے مطلب کو واضح کرنے کے لیے دلیل دے رہی ہیں۔ اللہ کی حاکمیت، وحدانیت، عظمت و طاقت اس وقت ہر جاہل و عالم پر پوری طرح عیاں ہوجاتی ہے جب وہ اپنے سامنے اپنے عزیز رشتہ دار اور دوست احباب کو مرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ اس وقت بالکل بےبس ہوتے ہیں کیونکہ یہ معاملہ صرف اس بندے اور اس کے خالق کا ہوتا ہے۔ پھر اس کے مرجانے کے بعد کا تمام معاملہ بھی خالق اور اس کے درمیان ہوتا ہے جیسا کہ آیات 88 سے 96 تک بیان کیا گیا ہے۔ اللہ کی وحدانیت اور اللہ کی قربت حاصل کرنے کا طریقہ کچھ یوں بھی واضح کیا جاسکتا ہے۔ جیسا کہ جناب سید حسین نصر صاحب نے لکھا ہے۔ ' کسی نے ایک صوفی سے پوچھا ' خالق کے وجود کی کیا دلیل ہے ؟ جواب دیا، ' میرے لیے چراغ کی جگہ صبح کا وجود ہی اس کے ہونے کی دلیل ہے۔ ایک دوسرا شخص کہتا ہے وہ شخص جو حق کی تلاش کے لیے دلیلیں تلاش کرتا پھرتا ہے وہ ایسا ہے جیسے کوئی سورج کو چراغ لے کر تلاش کرنے نکلے۔ ' اصل میں نور معرفت اچانک انسان کے دل کو منور کردیتا ہے بس ذرا علم و عرفان، توجہ اور جستجو کی ضرورت ہوتی ہے پھر جس پر اللہ مہربان ہوجائے۔ اسی سلسلے میں مصنف موصوف مزید لکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عمر ؓ نے کہا ' میرے دل نے اللہ کو دیکھ لیا ہے ' اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے کہا اگر نقاب اٹھ بھی جائے تو میرا ایمان اس سے زیادہ نہیں بڑھے گا اس میں کوئی شک نہیں کہ انسانوں کے لیے سعادت کبریٰ سے بڑھ کر کوئی اہم چیز نہیں۔ تمام باتیں سعادت کے مقابلے میں کم تر ہیں۔ سعادت کو حاصل کرنے کا سب سے بڑا وسیلہ علم معرفت ہے۔ جب اللہ کی معرفت کا نور حاصل ہوجاتا ہے تو فطرت انسانی خود بخود پاک صاف اور روشن ہوجاتی ہے۔ جیسا کہ موصوف مزید لکھتے ہیں ' رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ' مومن کی فراست سے ڈرو کیونکہ وہ اللہ کے نور کی مدد سے دیکھتا ہے۔ اور حضرت عمر ؓ کے بارے میں فرمایا ' بیشک سکون عمر کی زبان سے بولتا ہے مزید لکھتے ہیں اور ایسا شخص جو سکون کے عالم میں ہو سکون و سرخوشی سے مالا مال ہوتا ہے اور روحانی دنیا کے مدارج طے کرتا ہے۔ (از اسلام میں سائنس اور تہذیب) ۔ جب ہم اس موضوع کو زیادہ قریب سے دیکھتے ہیں تو پھر ہمیں معلوم ہوجاتا ہے کہ معرفت الٰہی کے مختلف مدارج ہیں اور اہل ایمان کے مختلف مراتب ہیں۔ جو ذاتی محنت اور مجاہدہ سے حاصل ہوسکتے ہیں۔ اور جیسے جیسے معرفت الٰہی سے بلند درجات حاصل ہوتے جائیں اسی قدر زیادہ انسان میں تقوی، انسانیت اور انسانی کردار میں پختگی، سچائی، عقیدت، محبت، خوف الہٰی، اور بندگی الہٰی کا جذبہ بڑھتا چلا جاتا ہے۔ یہی ہیں وہ خاص نکات جو الہ العٰلمین اپنے بندوں پر ہر طرح سے واضح کرنا چاہتا ہے۔ پھر فرماتا ہے کہ پس اپنے رب عظیم کے نام کی تسبیح کرتے رہو۔ آیت 96 اسی میں اللہ کی شان برتری اور بندے کی شان عجزو نیاز ہے۔ بس یہی تعریف ہے مالک الملک اللہ جل شانہ کی اور نائب الٰہی ابن آدم و حوا کی۔ دیر و حرم کی کشمکش ہوگی کہیں یہاں نہیں تیری قیام گاہ سے آگے کوئی جہاں نہیں (انجم بدایونی) خلاصہ سورة الواقعہ یہ سورت بھی اپنے مضمون، ترتیب اور جامعیت کے لحاظ سے ایک مثالی کلام کی حیثیت رکھتی ہے۔ بندے اور اللہ کا تعلق مالک اور غلام کا ہے جو بھی اس سے سرکشی کرے گا بالآخر سزا ضرور پائے گا اور جو فرمانبرداری کرے گا بہترین انعامات پائے گا۔ اللہ تو رحمن و رحیم ہے۔ بندہ جس وقت گناہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر چار احسان فرماتا ہے۔ 1 ۔ انسان کا رزق بند نہیں کرتا۔ 2 ۔ اس کی تندرستی نہیں چھینتا۔ 3 ۔ گناہ کی پردہ پوشی کرتا ہے۔ (دنیا میں) 4 ۔ فوراً عذاب نہیں کرتا۔ اس رحمن و رحیم کی شان میں حمد ملاحظہ کیجیے۔ مہ و ستارہ ہیں تجھ سے یہ کہکشاں تجھ سے بہار تجھ سے ہر ایک صبح گلستان تجھ سے میرے خدا یہ زمین تجھ سے آسمان تجھ سے ہے سجدہ ریز تیرے در پہ گردش ایام تجھی سے رنگ فنا ہے تجھی سے رنگ دوام ثبات تجھ سے زمانے کو ہے اماں تجھ سے خیال و فکر کا ایک ایک کارواں تجھ سے
Top