Tafseer-e-Mazhari - Al-Waaqia : 82
وَ تَجْعَلُوْنَ رِزْقَكُمْ اَنَّكُمْ تُكَذِّبُوْنَ
وَتَجْعَلُوْنَ : اور تم بناتے ہو رِزْقَكُمْ : اپنا حصہ اَنَّكُمْ : بیشک تم تُكَذِّبُوْنَ : تم جھٹلاتے ہو
اور اپنا وظیفہ یہ بناتے ہو کہ (اسے) جھٹلاتے ہو
اور اس کی تکذیب کو اپنا رزق بنا رہے ہوں۔ رِزْقَکُمْ : یعنی قرآن سے تم اپنا حصہ اور نصیب تکذیب کو قرار دیتے ہو۔ حسنؔ نے اس آیت کے سلسلے میں کہا : وہ بندہ تباہ ہوگیا جس کا کتاب اللہ سے نصیب صرف تکذیب ہے (یعنی کلام اللہ کی بس تکذیب کرتا ہے ‘ کوئی ہدایت حاصل نہیں کرتا) ۔ مفسرین نے ایک جگہ رزق کا معنی شکر بیان کیا ہے۔ امام احمد (رح) اور ترمذی (رح) نے حضرت علی کی روایت سے رسول اللہ ﷺ کا یہی ارشاد بیان کیا ہے۔ ہیثم بن عدی نے کہا : ازدشنوءہ کے محاورے میں لارَزَقَ کا معنی ہوتا ہے : مَا شَکَرَ : اس نے شکر نہیں کیا۔ بعض اہل علم کا قول ہے کہ رَزَقَ سے پہلے لفظ شکر محذوف ہے اور رزق سے مراد ہے بارش۔ جب بارش ہوتی تھی تو عرب کہتے تھے ہم پر ستاروں کی تاثیر سے بارش ہوئی۔ اللہ کے حکم سے بارش ہونے کے وہ قائل نہ تھے۔ مطلب یہ ہے کہ بارش ہونے کا تم شکریہ ‘ یہ ادا کرتے ہو کہ تکذیب کرنے لگتے ہو ‘ یعنی بجائے شکر کے کفران نعمت کرتے ہو۔ حضرت زید بن خالد جہنی کا بیان ہے کہ حدیبیہ میں رسول اللہ ﷺ نے ہم کو صبح کی نماز پڑھائی۔ رات کو بارش ہوئی تھی ‘ جس کے کچھ نشانات تھے۔ حضور ﷺ والا نے نماز سے فارغ ہونے کے بعد لوگوں کی طرف رخ کر کے فرمایا : کیا تم لوگ جانتے ہو کہ تمہارے رب نے کیا فرمایا ؟ حاضرین نے عرض کیا : اللہ اور اس کا رسول ﷺ ہی بخوبی جانتے ہیں۔ فرمایا ‘ اللہ نے فرمایا : میرے بندوں میں کوئی مجھ پر ایمان رکھتا ہے اور کوئی میرا انکار کرتا ہے ‘ جو شخص کہتا ہے کہ اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے ہم پر بارش ہوئی ‘ وہ مجھ پر ایمان رکھتا ہے اور ستاروں کا منکر ہے اور جو شخص قائل ہے کہ نچھتر سے ہم پر بارش ہوئی ‘ وہ میرا منکر ہے اور ستاروں پر ایمان رکھتا ہے۔ مسلم کی روایت میں حضرت ابن عباس کا بیان آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ایک بار بارش ہوئی۔ حضور ﷺ نے فرمایا : (آج) صبح کو کچھ لوگ شکر گزار ہوئے اور کچھ کافر نعمت۔ بعض نے کہا : یہ اللہ کی رحمت ہے جو اللہ نے عطا فرمائی اور بعض نے کہا : نچھتر سچّا ثابت ہوا۔ اس پر آیت : فَلاَ اُقْسِمُ بِمَوَاقِعِ النُّجُوْمِ..... تُکَذِّبُوْنَ تک نازل ہوئی۔ ابن ابی حاتم نے حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے بیان کیا کہ غزوۂ تبوک (کے زمانہ) میں ایک انصاری شخص کے بارے میں ان آیات کا نزول ہوا ‘ بات یہ ہوئی کہ مسلمان مقام حجر میں اترے ‘ حضور ﷺ نے حکم دیا کوئی شخص یہاں کا پانی نہ لے ‘ پھر یہاں سے کوچ کر کے اگلی منزل پر فروکش ہوئے لیکن وہاں مسلمانوں کے پاس پانی نہیں تھا۔ صحابہ ؓ نے حضور ﷺ کی خدمت میں شکایت پیش کی۔ آپ ﷺ نے دو رکعت نماز پڑھ کر دعا کی ‘ فوراً بارش ہوگئی اور اتنی موٹی ہوئی کہ سب سیراب ہوگئے۔ ایک شخص کو منافق سمجھا جاتا تھا۔ اس سے ایک انصاری نے کہا : دیکھو رسول اللہ ﷺ نے نماز پڑھ کر جونہی اللہ سے دعا کی فوراً بادل سے بارش ہوگئی وہ (منافق) بولا ہم پر تو ایسے ایے نچھتر سے بارش ہوئی۔ اس پر آیت مذکورہ نازل ہوئی تھی۔ ابن اسحاق کا بیان ہے کہ یہ واقعہ حجر میں ہوا تھا۔ مسلم نے حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب بھی اللہ آسمان سے برکت (بارش) نازل فرماتا ہے ‘ آدمیوں کا ایک گروہ اسکی ناشکری کرنے لگتا ہے۔ بارش تو نازل کرتا ہے اللہ اور وہ کہتا ہے فلاں فلاں ستاروں کی تاثیر سے بارش ہوئی۔
Top