Mualim-ul-Irfan - Al-Waaqia : 83
فَلَوْ لَاۤ اِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُوْمَۙ
فَلَوْلَآ : پس کیوں نہیں اِذَا بَلَغَتِ : جب پہنچ جاتی ہے الْحُلْقُوْمَ : حلق کو۔ نرخرے کو
پس کیوں نہیں ، جب کہ پہنچتی ہے جان گلے تک
ربط آیات : ساتویں منزل کے آغاز یعنی سورة قٓ سے لے کر سورة الواقعہ تک زیادہ تر جزائے عمل ہی کا بیان ہورہا ہے۔ تاہم ان سورتوں میں دین کے چاروں بنیادی اصول آگئے ہیں۔ کسی سورة میں ایک اصول نمایاں ہے تو دوسری میں دوسرا نمایاں ہے مثلاً کسی سورت میں توحید کے اثبات اور شرک کی تردید کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے تو کسی میں رسالت کا تذکرہ وضاحت کے ساتھ آگیا ہے۔ کہیں قرآن کی حقانیت و عظمت کا بیان زیادہ ہے تو کہیں وقوع قیامت اور جزائے عمل کا مضمون وضاحت کے ساتھ بیان ہوا ہے۔ گزشتہ درس میں قرآن کی صداقت وحقانیت کے متعلق فرمایا کہ یہ قرآن کریم ہے جو لوح محفوظ میں درج ہے اور اس کو صرف ظاہری اور باطنی طور پر پاکیزہ لوگ ہی ہاتھ لگا سکتے ہیں۔ جب ناپاک آدمی اس کو ہاتھ ہی نہیں لگائے گا تو وہ اس سے مستفید کیسے ہوسکتا ہے ؟ وہ تو اس کی برکات اور اس کے پروگرام سے محروم ہی رہے گا۔ اللہ نے فرمایا کہ اس قرآن کے بارے میں سستی نہیں کرنی چاہیے بلکہ خدا تعالیٰ کا اس عظیم نعمت پر شکر ادا کرنا چاہیے۔ اب سورة کے آخر میں اللہ نے انسانوں کے تین گروہوں مقربین ، اصحاب یمین اور مکذبین کے جزائے عمل کا ذکر کیا ہے۔ اور اس سے پہلے انسان کے نزع کے وقت کا کچھ حال بیان کیا ہے۔ وقت نزع کی حالت : ارشاد ہوتا ہے کہ تمہاری بےبسی کا یہ عالم ہے۔ فلو لا اذابلغت الحلقوم ، پس کیوں نہیں جب کہ انسان کی جان گلے تک پہنچ جاتی ہے۔ یعنی اس پر وقت نزع طاری ہوجاتا ہے وانتم حنئذ تنظرون ، اور تم اس وقت مرنے والے کی حالت کو دیکھ رہے ہوتے ہو مگر کسی کا کوئی بس نہیں چلتا۔ مریض کے گرد کتنے ہی حکیم اور ڈاکڑر جمع کردو ، وہ ہر قسم کے ٹیکے ، گلوکوز اور آکسیجن کے ذریعے پورا زور لگالیں مگر جس کا وقت آچکا ہے ، اس کو کوئی نہیں بچا سکتا ، اور انسان موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔ فرمایا ایسی حالت میں اگرچہ مرنے والے کے عزیز و اقارب اور یار دوست چارجوئی کے لئے ، اس کے قریب تر ہوتے ہیں مگر ونحن اقرب الیہ منکم ، مگر ہم تم سے بھی زیادہ قریب ہوتے ہیں۔ ہم تو تمہیں دیکھ رہے ہوتے ہیں ولکن لا تبصرون ، مگر تم ہمیں نہیں دیکھ سکتے۔ ظاہر ہے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ ونحن ………………الورید (ق ٓ 16) کہ ہم تو انسان کی شہ رگ سے بھی اس کے زیادہ قریب ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ کو انسان کی ظاہری اور باطنی قوی پر بھی مکمل کنٹرول حاصل ہے کوئی چیز اس کے قبضہ اقتدار سے باہر نہیں۔ اگر یہ بات ہے تو پھر تم کیسے سمجھتے ہو فلولا ان کنتم غیر مدینین کہ تمہیں بدلہ نہیں دیا جائے گا یعنی اس دنیا کی کارکردگی کے متعلق باز پرس نہیں ہوگی اور نہ ہی تمہیں سزیا جزا ملے گی۔ فرمایا اگر ایسی ہی بات ہے ترجعونھا ان کنتم صدقین تو پھر اگر تم اپنے دعویٰ میں سچے ہو تو اپنے عزیز کے جسم سے نکلنے والی روح کو واپس کیوں نہیں لوٹا لیتے۔ اگر ہمت ہے تو اسے موت کے منہ سے نکال کر دکھائو۔ ظاہر ہے کہ اگر یہاں تم بےبس ہو تو پھر جب جزائے عمل کی منزل آئے گی۔ اس کو تم کیسے روک سکوگے اور اپنی کارکردگی کی جوابدہی سے کیسے مستثنیٰ ہوجائو گے مطلب یہ ہے کہ تمہیں خدا تعالیٰ کی تصرف اور تسلط کو لامحالہ تسلیم کرنا پڑے گا ، اور جزائے عمل کی منزل سے گزرنا ہوگا۔ نزع کے وقت مریض بھی بےبس ہوتا ہے۔ جب جان حلق میں آکر اٹک جاتی ہے تو وہ آنے والوں کے منہ کی طرف دیکھ ہی سکتا ہے۔ نظرت الیک بحاجۃ لم تقضھا نظر السقیم الی وجوہ العید وہ انہیں ایسی نگاہ سے دیکھ رہا ہوتا ہے کہ جس کا مقصد پورا ہونا ناممکن ہوجاتا ہے اس وقت مریض اور عیادت کرنے والے سب بےبس ہوجاتے ہیں اور اللہ کے فرشتے روح قبض کرلیتے ہیں۔ اب اس روح کو کوئی بھی واپس نہیں لوٹا سکتا۔ اللہ نے انسانوں کی بےبسی کی حالت بیان کرکے انہیں اپنی کمزوری پر غور کرنے کی دعوت دی ہے ، اور فرمایا ہے کہ ان حالات میں تم اس کی توحید اور جزائے عمل کا کیسے انکار کرسکتے ہو ؟ مقربین کے لئے جزا : آگے اللہ نے محاسبہ اعمال کے نتیجہ میں اپنے مقربین کی جزا کا ذکر کیا ہے اور انسانوں کو ترغیب دی ہے کہ وہ بھی ایمان اور نیکی کو اختیار کرکے مقربین الٰہی میں شامل ہوسکتے ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے فاما ان کان من المقربین ، پھر اگر وہ مقربین الٰہی میں سے ہے ، یعنی مرنے والا آدمی اپنے عقیدہ و اعمال کی بناء پر اللہ کا مقرب بندہ بن چکا ہے تو پھر اس کو بشارت مل جاتی ہے کہ اس کے لئے فروح وریحان ، وجنت نعیم راحت ، روزی اور نعمت کے باغ ہیں۔ حکم ہوگا کہ تم اللہ کی رحمت کے اس مقام کی طرف چلے جائو وہاں تمہارے لئے روح یعنی آرام و راحت کا پورا سامان ہوگا۔ عربی زبان میں ریحان نیازبو کے پودے کو کہا جاتا ہے جو خوشبودار ہوتا ہے۔ عربی کا مقولہ ہے۔ کل نبت طیب فھوا ریحان عندالعرب یعنی ہر خوشبودار پودے کو ریحان کہا جاتا ہے ، اور اس کا معنی پاکیزہ روزی بھی ہوتا ہے۔ اس مقام پر یہی معنی زیادہ قرین قیاس ہے اور جنت نعیم یعنی ہر قسم کی نعمتوں کے باغات ہوں گے جہاں جنتی کی ہر خواہش کی تکمیل ہوگی ، بہرحال فرمایا کہ مقربین الٰہی کے لئے اللہ تعالیٰ کے ہاں راحت ، پاکیزہ روزی اور نعمتوں کے باغ ہوں گے۔ امام ابن کثیر (رح) نے اپنی تفسیر میں روایت نقل کی ہے کہ ملک الموت کو حکم ہوتا ہے کہ فلاں آدمی کی جان قبض کرلو فلاریحہ تاکہ میں اس کو راحت پہنچائوں۔ چناچہ عزرائیل (علیہ السلام) فرشتوں کی ایک جماعت (ایک روایت میں پانچ سو فرشتوں کا ذکر آتا ہے) کے ساتھ اس شخص کے پاس آتے ہیں اور ان کے پاس تین قسم کے رومال ہوتے ہیں جو پاکیزہ خوشبوئوں سے لبریز ہوتے ہیں۔ مرنے والا آدمی ان خوشبوئوں کو پاکر خوش ہوجاتا ہے اور اس طرح اسے جان قبض ہونے سے پہلے ہی کامیابی کی بشارت مل جاتی ہے۔ حضرت برائ ؟ کی روایت میں آتا ہے کہ جب رحمت کے فرشتے جان کنی کے لئے آتے ہیں تو وہ نیک آدمی کو بشارت سناتے ہیں اور کہتے ہیں یایھا الروح الطیبۃ کنت تعمرینہ اخرجی الی روج وریحان ورب غیرغضبان اے پاکیزہ روح ! تو نے اس جسم کو آباد رکھا۔ اب راحت ، پاکیزہ روزی اور اپنے پروردگار کی طرف نکل چل جو ناراض نہیں ہے۔ اس طرح گویا اس نیک آدمی کو خوشخبری مل جاتی ہے۔ صاحب تفسیر کبیر (رح) فرماتے ہیں کہ جس آدمی کے دل میں صحیح ایمان اور صحیح عقیدہ ہوگا۔ وہ شخص اللہ تعالیٰ کی وحدانیت ، رسالت ، جزائے عمل ، آسمانی کتب ، جملہ انبیاء کرام ، ملائکہ اور تقدیر پر ایمان رکھتا ہوگا۔ اور اس کا دل کفر ، شرک ، نفاق شک اور الحاد سے پاک ہوگا۔ ایسے شخص کو کمال درجے کی راحت اور سکون قلب عطا ہوگا۔ کیونکہ اس کے صحیح عقیدے کا تعلق اس کے دل کے ساتھ تھا۔ اور جو شخص زبان سے کلمہ توحید اور کلمہ شہادت ادا کرتا رہا یعنی اس کی زبان بھی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مصروف رہی تو اس کے بدلے میں اسے پاکیزہ روزی نصیب ہوگی۔ اور جس شخص کے اعضاء وجوارح اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے اور نیک اعمال انجام دیتے رہے اسے اس کے اعمال کی بدولت نعمت کے باغوں میں جگہ ملے گی۔ غرضیکہ اللہ کے مقرب بندے کو اس کے پاکیزہ دل ، پاکیزہ زبان اور پاکیزہ اعمال کی بنا پر اس آیت میں مذکور انعامات راحت ، پاکیزہ روزی اور نعمت کے باغ ملیں گے۔ اصحاب یمین کے لئے سلامتی : آگے اللہ نے دوسرے کامیاب گروہ اصحاب یمین کی جزا کا ذکر فرمایا ہے۔ ان کو ان کا نامہ اعمال دائیں ہاتھ میں ملے گا۔ یہ لوگ اگرچہ مقربین کے درجہ سے کم ہوں گے مگر یہ بھی کامیاب لوگ ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کے انعامات کے مستحق ہوں گے۔ فرمایا واما ان کان من اصحب الیمین ، اور اگر کوئی شخص دائیں ہاتھ والوں میں سے ہے فسلم لک من اصحب الیمین پس سلامتی ہے تیرے لئے ، دائیں طرف والوں میں سے ایسے لوگوں کے لئے ہر پری سے سلام ، سلام کی آوازیں آئیں گی۔ اگر مومن ملیں گے تو السلام علیکم کہیں گے۔ فرشتوں سے ملاقات ہوگی تو وہ کہیں گے سلم علیکم طبتم (الزمر 73) تم پر سلامتی ہو تم خوش رہو ، اللہ نے تمہیں کتنا اچھا بدلہ دیا ہے۔ ادھر پروردگار کی طرف سے بھی اعلان ہوگا۔ سلم ………رحیم (یٰسٓ 58) کہ رب رحیم کی طرف سے بھی تم پر سلامتی ہو۔ اس طرح گویا ہر طرف سے سلامتی ہی سلامتی ہوگی۔ ایسے شخص کو کسی قسم کی جسمانی ، زبانی یا روحانی کوفت نہیں ہوگی ، بلکہ ہمیشہ کے لئے امن و عافیت کا دور دورہ ہوگا۔ مکذبین کے لئے سزا : اس کے بعد اللہ نے تیسرے ناکام گروہ کا ذکر فرمایا ہے واما ان کان من المکذبین الضالین ، اور اگر وہ شخص جھٹلانے والوں میں سے ہوگا جو بہکے ہوئے ہیں۔ یہ ایسے لوگ تھے جنہوں نے نہ تو خدا تعالیٰ کی واحدنیت کو صحیح طور پر سمجھا ، نہ نبوت و رسالت کی تصدیق کی ، نہ کتب سماویہ ، ملائکہ اور تقدیر پر ایمان لائے تو ایسے لوگ مکذبین اور گمراہ شمار ہوں گے۔ فرمایا ایسے شخص کا بدلہ فنزل من حمیم کھولتے ہوئے پانی کی مہمانی کی صورت میں ہوگا۔ یہ ایسا گرم پانی ہوگا کہ جس کا ایک گھونٹ پینے سے آدمی کی آنتیں کٹ کر نیچے گر پڑیں گی وتصلیۃ جحیم اور اس کا بدلہ جہنم میں ڈالا جانا ہوگا۔ ایسے لوگوں کو موت کے وقت بھی ان کے برے انجام سے آگاہ کردیا جاتا ہے کہ تم دنیا کی زندگی کے دوران کن کاموں میں لگے رہے ، تم نے آخرت کے متعلق کبھی سوچا تک نہیں تھا ، اب تمہیں تمہارے برے عقائد اور برے اعمال کا بدلہ ملنے والا ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی روایت میں آتا ہے کہ انہوں نے حضور ﷺ سے ایک سخی آدمی عبداللہ بن جدعان کے متعلق دریافت کیا۔ تو آپ نے فرمایا کہ وہ شخص جہنم میں ہے لم یقل یوما رب اغفرلی خطیئتی یوم الدین اس نے اپنی زندگی میں ایک دن بھی نہ کہا کہ پروردگار انصاف کے دن میری خطائوں کو معاف کردینا۔ گویا وہ قوع قیامت اور جزائے عمل کا منکر تھا اگرچہ بڑا سخی تھا۔ فرمایا ایسے شخص کا ٹھکانہ جہنم ہی ہے جس کی مہمانی کھولتے ہوئے پانی اور جہنم رسیدگی سے ہوگی۔ ان تین قسم کے لوگوں کی تین قسم کی جزائوں کا ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا ان ھذا لھوحق الیقین بیشک یہ جزا اور سزا بالکل سچی اور یقینی ہے۔ تمہاری طرف سے اس کو جھٹلانے سے یہ ٹل نہیں سکتی۔ جزائے عمل لازماً واقع ہو کر رہے گا۔ اور مجرمین اور مومنین کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعامات ضرور حاصل ہوں گے۔ تسبیح کا حکم : اب سورة کی آخری آیت میں اللہ تعالیٰ تسبیح بیان کرنے کا حکم دیتے ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے فسبح باسم ربک العظیم پس آپ اپنے پروردگار کے نام کی تسبیح بیان کریں۔ یہ عظمتوں کا مالک ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ عتاب سے پناہ مانگیں اور اس کے ثواب کے حصول پر اس کی تعریف ، تحمید اور تسبیح بیان کریں اور مکذبین اور گمراہوں کی باتوں پر توجہ نہ دیں بلکہ انہیں اپنے حال پر چھوڑ دیں۔ اللہ تعالیٰ خود ان سے انتقام لے لے گا۔ حضرت عقبہ بن عامر ؓ کی روایت میں آتا ہے کہ جب یہ آیت پاک نازل ہوئی تو حضور ﷺ نے فرمایا اجعلوھا فی رکوعکم ، یعنی اس کو اپنے رکوع میں رکھ لو۔ اسی لئے ہم رکوع میں یہ تسبیح پڑھتے ہیں سبحن ربی العظیم ، پاک ہے میرا پروردگار جو بڑی عظمتوں کا مالک ہے۔ پھر جب سورة الاعلیٰ کی پہلی آیت نازل ہوئی سبح اسم ربک الاعلیٰ تو حضور ﷺ نے فرمایا اجعلوھا فی سجودکم اس کو اپنے سجدوں میں شامل کرلو۔ چناچہ سجدہ میں یہی تسبیح پڑھی جاتی ہے سبحن ربی الاعلیٰ ، پاک ہے میرا پروردگار جو بلندیوں کا مالک ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ پسندیدہ کلمات ہیں ترمذی شریف کی روایت میں آتا ہے کہ جس شخص نے سچے دل اور صحیح عقیدے کے ساتھ کہا۔ سبحن اللہ العظیم وبحمدہ ، تو اس کے لئے جنت میں کھجور کا ایک درخت لگادیا جاتا ہے اور ہر تسبیح کے بدلے ایسے درخت لگتے چلے جاتے ہیں اسی طرح سبحن اللہ وبحمدہ سبحن اللہ العظیم کی بڑی فضیلت آئی ہے۔ صحیحین میں حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ یہ دو کلمات اللہ تعالیٰ کو بڑے پسندیدہ ، زبان اور آسان اور وزن میں بھاری ہیں۔ صاحب مدارک فرماتے ہیں کہ ہم نے سورة القمر ، سورة الرحمن اور سورة الواقعہ پڑھی ہیں۔ ان میں دین کے سارے بنیادی اصولوں کا ذکر آیا ہے ، اللہ تعالیٰ کے انعامات اور اس کی تعذیبات کا بھی ذکر ہے مگر عجیب بات ہے کہ ان تینوں سورتوں میں اللہ تعالیٰ کا ذاتی نام ” اللہ “ کہیں نہیں آیا۔ یعنی تینوں سورتیں لفظ ” اللہ “ سے خالی ہیں۔ البتہ اس کے بعد والی سورة الحدید کی تقریباً ہر آیت میں لفظ ” اللہ “ مذکور ہے یہ اللہ تعالیٰ کی عجیب حکمت ہے جس کو وہی بہتر جانتا ہے ، ہمارا علم ناقص اور محدود ہے ، لہٰذا ہم اس کی حکمت کو نہیں پاسکتے۔
Top