Al-Qurtubi - Al-Waaqia : 82
وَ تَجْعَلُوْنَ رِزْقَكُمْ اَنَّكُمْ تُكَذِّبُوْنَ
وَتَجْعَلُوْنَ : اور تم بناتے ہو رِزْقَكُمْ : اپنا حصہ اَنَّكُمْ : بیشک تم تُكَذِّبُوْنَ : تم جھٹلاتے ہو
اور اپنا وظیفہ یہ بناتے ہو کہ اسے جھٹلاتے ہو ؟
وتجعلون رزقکم انکم تکذبون۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : تم نے اپنے شکر کو جھٹلانا بنا لیا ہے۔ ہشیم بن عدی نے کہا : یہ ازدشئو کی لغت میں سے ہے ما رزق فلانہ مراد ہے اس کا شکر کیا ہے یہ مناسب ہے کہ رزق کے اسم کو شکر کی جگہ رکھا جائے کیونکہ رزق کا شکر اس میں زیادتی کا تقاضا کرتا ہے تو شکر اس معنی کی وجہ سے رزق ہوگا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : وتجعلون رزقکم سے اصل مقصود ہے وتجعلون شکر رزقکم تم نے اپنے رزق کا شکر ( جو اگر تم سے پایا جاتا تو وہ تمہارے لیے رزق کی صورت میں لوٹتا) 1۔ تفسیر ماوردی جلد 5، صفحہ 464 2۔ ایضاً جلد 5، صفحہ 465 3۔ ایضاً یہ بنا لیا ہے کہ تم رزق کو جھٹلاتے ہو، ینی تم شکر کی جگہ رزق کو رکھتے ہو، جس طرح اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے :” وَمَا کَانَ صَلَا تُہُمْ عِنْدَ الْبَیْتِ اِلَّا مُکَآئً وَّتَصْدِیَۃًط “ (الانفال : 35) یعنی وہ نماز نہیں پڑھتے تھے بلکہ وہ نماز کی جگہ سیٹیاں بجاتے ہیں اور تالیاں بجاتے ہیں اس میں اس امر کی وضاحت ہے کہ بندوں کو جو بھی بھلائی پہنچی ہے تو ان کے لیے مناسب نہیں کہ وہ ایسے واسطوں کی جانب سے دیکھیں جس کے بارے میں عام قاعدہ ہے کہ وہ واسطے اسباب ہوں بلکہ مناسب یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے دیکھیں پھر اگر وہ نعمت ہے تو اس کے بالمقابل شکر کریں اور اگر وہ امر ناپسند یدہ ہو تو اس پر صبر کریں مقصود اس کے سامنے اپنی عبودیت اور عاجزی کا اظہارہو۔ حضرت علی شیر خدا ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے پڑھا و تجعلون شکر کم انکم تکذبون (1) حضرت ابن عباس ؓ سے بھی یہی مروی ہے : اس سے مراد ستاروں سے بارش کو طلب کرنا ہے، یہ عربوں کا قول ہے مطرنا بنوء کذاہم پر فلاں ستارے کی وجہ سے بارش کی گئی : حضرت علی شیر خدا ؓ نے نبی کریم ﷺ سے اسے روایت کیا ہے۔ صحیح مسلم میں حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں لوگوں پر بارش کی گئی تو نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :” لوگوں میں سے کچھ نے شکر گزار بندے کی حیثیت سے صبح کی اور ان میں سے کچھ نے کافر کی حیثیت سے صبح کی قالوا ھذہ رحمۃ اللہ وقال بعضھم لقد صدق نو کذا و کذا۔ انہوں نے کہا : یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے اور بعض نے کہا : فلاں فلاں ستارے نے سچ کیا (2) تو یہ آیت نازل ہوئی :” فَـلَآ اُقْسِمُ بِمَوٰقِعِ النُّجُوْمِ ۔ وَ اِنَّہٗ لَقَسَمٌ لَّوْ تَعْلَمُوْنَ عَظِیْمٌ۔ اِنَّہٗ لَقُرْاٰنٌ کَرِیْمٌ۔ فِیْ کِتٰبٍ مَّکْنُوْنٍ ۔ لَّا یَمَسُّہٗٓ اِلَّا الْمُطَہَّرُوْنَ ۔ تَنْزِیْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰـلَمِیْنَ ۔ اَفَبِہٰذَا الْحَدِیْثِ اَنْتُمْ مُّدْہِنُوْنَ ۔ وَ تَجْعَلُوْنَ رِزْقَکُمْ اَنَّکُمْ تُکَذِّبُوْنَ ۔ “ ان سے یہ بھی مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ ایک سفر میں نکلے وہ پیاسے ہوگئے تو نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :” مجھے بتائو اگر میں تمہارے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کروں اور تم پر بارش ہوجائے تو ممکن ہے تم کہو ھذا المطر بنوء کذا یہ بارش فلاں ستارے کی وجہ سے ہے “ (3) ۔ صحابہ نے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ ! ان ستاروں کا وقت نہیں۔ نبی کریم ﷺ نے دو رکعت نماز پڑھی، اپنے رب سے دعا کی، ہوا چلی پھر بادل آئے تو لوگوں پر بارش ہوئی نبی کریم ﷺ چلے ایک آدمی کے پاس سے گزرے جب کہ آپ کے ساتھ صحابہ کی ایک جماعت تھی وہ اپنے پیالے سے پانی بھر رہا تھا وہ کہہ رہا تھا ہم پر فلاں ستارے کی وجہ سے بارش کی گئی، اس نے یہ نہ کہا : یہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہے تو یہ آیت نازل ہوئی وَ تَجْعَلُوْنَ رِزْقَکُمْ اَنَّکُمْ تُکَذِّبُوْنَ ۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے تمہیں جو رزق دیا ہے اس پر شکر بجا لانے کی بجائے تم نے اپنا حصہ یہ بنا لیا ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی نعمت کو جھٹلاتے ہو اور تم یہ کہتے ہو : ہم پر فلاں ستارے کی وجہ سے بارش کی گئی ہے جس طرح تو کہتا ہے : جعلت احسانی الیک اساءۃ منک الی میں نے تجھ پر جو احسان کیا تھا اس کا بدلہ تو نے میرے ساتھ برائی کرنے کو بنا دیا اور میرا تجھ پر جو انعام تھا اس کا تو نے بدلہ دیا کہ تو نے مجھے اپنادشمن بنا لیا۔ 1 ؎۔ جامع ترمذی، کتاب التفسیر، جلد 2، صفحہ 162 2 ؎۔ صحیح مسلم، کتاب الایمان، بیان کفر من قال مطرنا بالنور، جلد 1، صفحہ 59 3 ؎۔ جامع ترمذی، کتاب التفسیر، جلد 2، صفحہ 162 موطا میں حضرت زید بن خالد جہنی سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ہمیں حدیبیہ کے مقام پر صبح کی نماز پڑھائی جب کہ رات کو بارش ہوئی تھی جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو آپ لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے، فرمایا :” اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندوں میں سے کچھ نے مجھ پر ایمان کی حالت میں صبح کی اور ستارے کے ساتھ کفر کیا۔ جس نے کہا : اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحمت کے ساتھ مجھ پر بارش کی گئی تو وہ مجھ پر ایمان رکھنے والا اور ستارے کا انکار کرنے والا ہے جس نے کہا مجھ پر فلاں فلاں ستارے کی وجہ سے بارش کی گئی تو وہ ستارے پر ایمان رکھنے والا اور میرے ساتھ کفر کرنے والا ہے “۔ امام شافعی (رح) تعالیٰ علیہ نے کہا : میں یہ پسند نہیں کرتا کہ کوئی کہے مطرنا بنوء کذا وکذا اگرچہ ہمارے نزدیک نوء ایسا وقت ہے جو مخلوق ہے نہ نقصان دیتا ہے اور نہ نفع دیتا ہے، نہ بارش برساتا ہے اور نہ بارش کو روکتا ہے جو پسند کرے تو یہ کہے : مطرنا وقت کذا کما تقول مطرنا شھر کذا ہم پر فلاں وقت بارش ہوئی جس طرح تو یہ کہتا ہے ہم پر فلاں مہینہ میں بارش کی گئی جس نے یہ کہا : مطرنا بنو کذا وہ ارادہ کرتا ہو کہ نوء نے بارش کو نازل کیا ہے جس طرح دور جاہلیت میں بعض مشرک ارادے کرتے تھے توہ کافر ہوگا۔ اگر وہ توبہ نہ کرے تو اس کا خون حلال ہوگا۔ ابو عمر بن عبد البر نے کہا : جہاں تک نبی کریم ﷺ کا یہ ارشاد ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے فرمان کی حکایت بیان کرتے ہیں اصبح من عبادی مومن بی و کافر (2) میرے نزدیک اس کے معنی کی دو صورتیں ہیں (1) وہ یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ نوء ہی بارش کرنے والا ہے وہی بادل کو پیدا کرنے والا ہے اللہ تعالیٰ نے انہیں پیدا نہیں کیا وہ صریح کافر ہوگا، اس سے توبہ طلب کرنا ضرور ہوگا اگر وہ انکار کرے تو اسلام کو چھوڑنے اور قرآن کو رد کرنے کی وجہ سے اسے قتل کرنا ضروری ہوگا۔ (2) دوسری صورت میں یہ ہے وہ یہ اعتقاد رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اس ستارے کے ذریعے بارش نازل فرماتا ہے یہ بارش کا سبب ہے جس طرح اللہ تعالیٰ نے اسے مقدر کیا ہے اور اس کے علم میں پہلے سے موجود ہے۔ اگرچہ یہ مباح صورت ہے پھر بھی اس میں اللہ تعالیٰ کی نعمت کا انکار ہے اور اس کی لطیف حکمت سے جہالت ہے کہ اللہ تعالیٰ جب چاہتا ہے بارش نازل فرماتا ہے کبھی کسی ستارے کے واسطہ سے اور کبھی کس ستارے کے واسطہ سے۔ بیشمار مواقع پر ستارے ظاہر ہوتے ہیں تو ان کے ساتھ بارش نہیں ہوتی۔ یہ بارش اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہوتی ہے ستارے کی طرف نہیں ہوتی، اسی طرح حضرت ابوہریرہ ؓ کہا کرتے تھے جب وہ صبح کرتے جب کہ بارش ہوچکی ہوتی۔ مطرنا بنو الفتح پھر وہ اس آیت کی تلاوت کرتے ما یفتح اللہ للناس من رحمۃ فلا مسلک لھا (فاطر : 2) ابو عمر نے کہا : میرے نزدیک یہ رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان کی طرح ہے مطہرنا بفضل اللہ ورحمتہ (3) ہم پر اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت کے ساتھ بارش ہوئی۔ اس باب میں حضرت عمر بن خطاب ؓ کا حضرت عباس ؓ کو ارشاد ہے جب حضرت عمر نے ان کے واسطہ سے بارش طلب کی : اے رسول اللہ ﷺ کے چچا جان ! کم یقی منھ نوء الثریا حضرت عباس نے جواب دیا : علماء گمان کرتے ہیں کہ وہ افق میں عرضاً ظاہر ہوگی سات دنوں کے بعد ابھی ساتواں دن نہیں گزرا تھا کہ ان پر بارش ہوئی۔ حضرت عمر ؓ نے کہا : الحمد للہ یہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحمت سے ہے۔ 1 ؎۔ مؤطا امام مالک، کتاب الاستسقاء، الاستطار، بالعظار، صفحہ 180 2 ؎۔ صحیح مسلم، کتاب الایمان، بیان کفر من قال مطرنا بالنوء، جلد 1، صفحہ 59 3 ؎۔ ایضاً گویا حضرت عمر ؓ جانتے تھے کہ نوء ثریا ایسا وقت ہے جس میں بارش کی امید کی جاتی ہے تو آپ نے حضرت عباس سے سوال کیا : وہ ظاہر ہوچکا ہے یا اس میں سے کوئی باقی ہے ؟ سفیان بن عینیہ نے اسماعیل بن امیہ سے روایت نقل کی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک سفر میں ایک آدمی سے سنا وہ کہہ رہا تھا : مطرنا عثانین الاسد۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” تو نے جھوٹ بولا یہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے بارش ہے “۔ سفیان نے کہا : عثانین الاسد سے مراد بازو اور پیشانی ہے۔ عام قرأت تکذبون ہے جو تکذیب سے مشتق ہے، مفضل نے عاصم اور یحییٰ بن وثاب سے تکذبون نقل کیا ہے۔ اس کا معنی ہے جو پہلے بیان کرچکے ہیں کہ جس نے۔ کہا : مطرنا بنئو کذا حضرت انس بن مالک کی حدیث میں یہ بات ثبت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :” میری امت میں تین چیزیں ہمیشہ رہیں گی حسب ونسب پر فخر، نوحہ اور انوائ “۔ اس بارے میں صحیح مسلم کے الفاظ ہیں۔ ” میری امت میں چار امور دور جاہلیت کے ہوں گے جنہیں لوگ نہیں چھوڑیں گے۔ حسب و نسب پر فخر، انساب میں طعن، ستاروں کے ذریعے بارش کو طلب کرنا، نوحہ کرنا “۔ (1)
Top