Mufradat-ul-Quran - Al-Waaqia : 83
فَلَوْ لَاۤ اِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُوْمَۙ
فَلَوْلَآ : پس کیوں نہیں اِذَا بَلَغَتِ : جب پہنچ جاتی ہے الْحُلْقُوْمَ : حلق کو۔ نرخرے کو
بھلا جب روح گلے میں آپہنچتی ہے
فَلَوْلَآ اِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُوْمَ۝ 83 ۙ «لَوْلَا» يجيء علی وجهين : أحدهما : بمعنی امتناع الشیء لوقوع غيره، ويلزم خبره الحذف، ويستغنی بجوابه عن الخبر . نحو : لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ/ 31] . والثاني : بمعنی هلّا، ويتعقّبه الفعل نحو : لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه/ 134] أي : هلّا . وأمثلتهما تکثر في القرآن . ( لولا ) لو لا ( حرف ) اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے ایک شے کے پائے جانے سے دوسری شے کا ممتنع ہونا اس کی خبر ہمیشہ محذوف رہتی ہے ۔ اور لولا کا جواب قائم مقام خبر کے ہوتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ/ 31] اگر تم نہ ہوتے تو ہمضرور مومن ہوجاتے ۔ دو م بمعنی ھلا کے آتا ہے ۔ اور اس کے بعد متصلا فعل کا آنا ضروری ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه/ 134] تو نے ہماری طرف کوئی پیغمبر کیوں نہیں بھیجا ۔ وغیرہ ذالک من الا مثلۃ إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو : 11-إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ بلغ البُلُوغ والبَلَاغ : الانتهاء إلى أقصی المقصد والمنتهى، مکانا کان أو زمانا، أو أمرا من الأمور المقدّرة، وربما يعبّر به عن المشارفة عليه وإن لم ينته إليه، فمن الانتهاء : بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ الأحقاف/ 15] ( ب ل غ ) البلوغ والبلاغ ( ن ) کے معنی مقصد اور متبٰی کے آخری حد تک پہنچے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ مقصد کوئی مقام ہو یا زمانہ یا اندازہ کئے ہوئے امور میں سے کوئی امر ہو ۔ مگر کبھی محض قریب تک پہنچ جانے پر بھی بولا جاتا ہے گو انتہا تک نہ بھی پہنچا ہو۔ چناچہ انتہاتک پہنچے کے معنی میں فرمایا : بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ الأحقاف/ 15] یہاں تک کہ جب خوب جو ان ہوتا ہے اور چالس برس کو پہنچ جاتا ہے ۔ حلق الحَلْق : العضو المعروف، وحَلَقَهُ : قطع حلقه، ثم جعل الحَلْق لقطع الشعر وجزّه، فقیل : حلق شعره، قال تعالی: وَلا تَحْلِقُوا رُؤُسَكُمْ [ البقرة/ 196] ، وقال تعالی: مُحَلِّقِينَ رُؤُسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ [ الفتح/ 27] ، ورأس حَلِيق، ولحية حلیق، و «عقری حَلْقَى» في الدعاء علی الإنسان، أي : أصابته مصیبة تحلق النساء شعورهنّ ، وقیل معناه : قطع اللہ حلقها . وقیل للأكسية الخشنة التي تحلق الشعر بخشونتها : مَحَالِق والحَلْقَة سمّيت تشبيها بالحلق في الهيئة، وقیل : حلقه، وقال بعضهم : لا أعرف الحَلَقَة إلا في الذین يحلقون الشعر، وهو جمع حالق، ککافر وکفرة، والحَلَقَة بفتح اللام لغة غير جيدة . وإبل مُحَلَّقَة : سمتها حلق . واعتبر في الحلقة معنی الدوران، فقیل : حَلْقَة القوم، وقیل : حَلَّقَ الطائر : إذا ارتفع ودار في طيرانه ( ح ل ق ) الحلق حلق ( وہ جگہ جہاں سے جانور کو ذبح کیا جاتا ہے ) حلقۃ ( ض ) اسکے حلق کو قطع کر ڈالا ۔ پھر یہ لفظ بال مونڈے نے پر بولا جاتا ہے ہی کہا جاتا ہے حلق شعرۃ اس نے اپنے بال منڈوا ڈالے قرآن میں ہے : ۔ وَلا تَحْلِقُوا رُؤُسَكُمْ [ البقرة/ 196] اور سر نہ منڈ واو ۔ مُحَلِّقِينَ رُؤُسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ [ الفتح/ 27] اپنے سر منند وا کر اور اپنے بال کتر وا کہ راس حلیق مونڈا ہوا مہر ۔ لحیۃ حلیقۃ مونڈی ہوئی داڑھی ۔ اور کسی انسان کے حق میں بددعا کے وقت عقرٰی حلقیٰ کہا جاتا ہے یعنی اسے ایسی مصیبت پہنچنے جس پر عورتیں اپنے سرکے بال منڈوا ڈالیں ۔ بعض نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کے حلق کو قطع کر ڈالے ۔ المحالق وہ کمبل جو کھردار ہونے کی وجہ سے بدن کے بال کاٹ ڈالیے ۔ جماعت جو دائرہ کی شکل میں جمع ہو ۔ کیونکہ وہ دائرہ ہیئت میں انسان کے حلق کے مشابہ ہوتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ حلقۃ کا لفظ صرف اس جماعت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو اپنے سر منڈوا ڈالتے ہیں ۔ ابل محلقۃ شتراں کہ بمشکل حلقہ داغ بر آنہا کردہ باشند اور حلقہ میں معنی دوران کا اعتبار کر کے حلق الطائر کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی پرندے کا چکر لگا کر اڑنا کے ہیں ۔.
Top