Tafseer-e-Haqqani - Al-Waaqia : 83
فَلَوْ لَاۤ اِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُوْمَۙ
فَلَوْلَآ : پس کیوں نہیں اِذَا بَلَغَتِ : جب پہنچ جاتی ہے الْحُلْقُوْمَ : حلق کو۔ نرخرے کو
پھر کیوں نہیں، جب جان حلق تک جا پہنچی
فَلَوْلَآ اِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُوْمَ ۔ وَاَنْتُمْ حِیْنَئِذٍ تَنْظُرُوْنَ ۔ وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْـکُمْ وَلٰـکِنْ لاَّ تُبْصِرُوْنَ ۔ فَلَوْلَآ اِنْ کُنْتُمْ غَیْرَمَدِیْـنِیْنَ ۔ تَرْجِعُوْنَھَآ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ ۔ (الواقعۃ : 83 تا 87) (پھر کیوں نہیں، جب جان حلق تک جا پہنچی۔ اور تم اس وقت دیکھ رہے ہو۔ اور ہم اس (مبتلائے نزع) شخص سے تمہاری نسبت زیادہ قریب ہوتے ہیں، لیکن تم دیکھ نہیں پاتے۔ پس کیوں نہیں، اگر تم غیرمحکوم ہو۔ تو اس جان کو واپس کیوں نہیں لے آتے، اگر تم سچے ہو۔ ) اللہ تعالیٰ کی قدرت سب پر حاوی ہے ان آیات کریمہ میں نفسیاتی پہلو سے مخالفین کو یہ بات یاد دلائی گئی ہے کہ تمہیں قرآن کریم کی تعلیمات اس لیے گوارا نہیں کہ وہ تمہاری من چاہی اور شتر بےمہار زندگی سے تمہیں روکتی ہے۔ اور تمہاری آزادیوں کو محدود کرکے تم پر وہ حدود وقیود عائد کرتی ہے جو انسان کو انسانیت کے جامے میں لانے کے لیے ضروری ہیں۔ جو انسان کے لیے شروع میں تو یقینا کھٹکنے والی چیزیں ہیں کیونکہ وہ بہرحال اپنے لیے انھیں زنجیریں سمجھتا ہے۔ اور گمان کرتا ہے کہ میری آزادیوں کو سلب کرلیا گیا ہے۔ لیکن جب وہ انسان کو دوسرے انسانوں کا حصہ قرار دے کر انسان کی اجتماعی ضرورتوں اور چاہتوں کو سامنے رکھ کر سوچتا ہے تو تب اس کو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ پابندیاں نہیں بلکہ آزادیوں کو محفوظ کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ لیکن ان مخالفین کو اس کی طرف مائل کرنے کے لیے ارشاد فرمایا گیا ہے کہ اگر تم ہر طرح کی پابندی کو اپنی آزادی کے خلاف سمجھتے ہو جبکہ تم اپنے نفس اور اپنی خواہشات کی غلامی میں بری طرح مبتلا ہو۔ تو پھر تم بتائو کہ جب جان نزع کے وقت حلق تک پہنچ جاتی ہے اور سانس رکنے لگتی ہے اور تم نزع میں مبتلا شخص کے اردگرد بیٹھے ہوئے اس کی بےبسی کو دیکھ رہے ہوتے ہو۔ اور اس کے معالج اور اطباء اس کی جان بچانے کے لیے کوششوں میں مصروف ہوتے ہیں، لیکن موت کا فرشتہ ان سب کے سامنے اس کی جان نکال کرلے جاتا ہے۔ اور تم میں سے کوئی اس کا ہاتھ نہیں پکڑ سکتا۔ تم کبھی اس مبتلائے نزع کو دیکھتے ہو اور کبھی اپنے اطباء کی کوششوں کو۔ لیکن ہم جبکہ مرنے والے کی شہ رگ سے بھی قریب ہوتے ہیں اور ہمارا فرشتہ اس کی جان لیتا ہے، لیکن ہم تمہیں دکھائی نہیں دیتے۔ تمہیں اس کا اندازہ نہیں ہوتا کہ جس نے زندگی عطا کی ہے، زندگی واپس لے لینا یا چھین لینا اس کے لیے کوئی مشکل نہیں۔ اگر تم اللہ تعالیٰ کے فیصلوں کے پابند نہ ہوتے اور تم کسی اور کے حکم کے زیراثر ہوتے، تو پھر ہونا تو یہ چاہیے کہ اولاً تو تم اس کی جان نکلنے نہ دیتے، اور اگر فرشتہ نکال ہی لے گیا تھا تو تم اسے واپس لے آتے۔ تمہاری یہ بےبسی اس بات کا ثبوت ہے کہ تم اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کے محکوم و مقہور ہو۔ مدینین کا معنی مظلوم و مقہور ہی ہوتا ہے۔ اور وہی جان جس کے تم محکوم ہو اور جس طرح اس کے حکم سے تمہاری جان نکالی جاسکتی ہے اور تم اس کے سامنے بےبسی سے آنسو بہانے کے سوا کچھ نہیں کرسکتے، اسی طرح ایک دن آئے گا جب اللہ تعالیٰ تم سے اس زندگی کا حساب لے گا جو تم نے شتر بےمہار کی طرح گزاری ہوگی۔
Top