Tafseer-e-Baghwi - Al-Waaqia : 83
فَلَوْ لَاۤ اِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُوْمَۙ
فَلَوْلَآ : پس کیوں نہیں اِذَا بَلَغَتِ : جب پہنچ جاتی ہے الْحُلْقُوْمَ : حلق کو۔ نرخرے کو
اور اپنا وظیفہ یہ بناتے ہو کہ اسے جھٹلاتے ہو ؟
82 ۔” وتجعلون رزقکم “ تمہارا حظ وحصہ قرآن سے۔ ” انکم تکذبون “ حسن (رح) نے اس آیت کے سلسلے میں کہا : وہ بندہ تباہ ہوگیا جس کا کتاب اللہ سے نصیب صرف تکذیب ہے (یعنی کلام اللہ کی بس تکذیب کرتا ہے، کوئی ہدایت حاصل نہیں کرتا) ۔ مفسرین نے ایک جگہ رزق کا معنی شکر بیان کیا ہے۔ امام احمد اور ترمذی نے حضرت علی ؓ کی روایت سے رسول اللہ ﷺ کا یہی ارشاد بیان کیا ہے۔ ہیثم بن عدی نے کہا : ازدشنوء ہ کے محاورے میں لارزق کا معنی ہوتا ہے۔ ماشکر۔ اس نے شکر نہیں کیا۔ بعض اہل علم کا قول ہے کہ رزق سے پہلے لفظ شکر محذوف ہے اور رزق سے مراد ہے بارش۔ جب بارش ہوتی تھی تو عرب کہتے تھے ہم پر ستاروں کی تاثیر سے بارش ہوئی۔ اللہ کے حکم سے بارش ہونے کے وہ قائل نہ تھے۔ مطلب یہ ہے کہ بارش ہوتی تھی تو عرب کہتے تھے ہم پر ستاروں کی تاثیر سے بارش ہوئی۔ اللہ کے حکم سے بارش ہونے کے وہ قائل نہ تھے۔ مطلب یہ ہے کہ بارش ہونے کا تم شکریہادا کرتے ہو کہ تکذیب کرنے لگتے ہو۔ یعنی بجائے شکر کے کفران نعمت کرتے ہو۔ حضرت زید بن خالد جہنی کا بیان ہے کہ حدیبیہ میں رسول اللہ ﷺ نے ہم کو صبح کی نماز پڑھائی۔ رات کو بارش ہوئی تھی جس کے کچھ نشانات تھے۔ حضور ﷺ نے نماز سے فارغ ہونے کے بعد لوگوں کی طرف ر خ کرکے فرمایا۔ کیا تم لو گ جانتے ہو کہ تمہارے رب نے کیا فرمایا ؟ حاضرین نے عرض کیا : اللہ اور اس کا رسول ( ﷺ ) ہی بخوبی جانتے ہیں۔ فرمایا اللہ نے فرمایا میرے بندوں میں کوئی مجھ پر ایمان رکھتا ہے اور کوئی میرا انکار کرتا ہے جو شخص کہتا ہے کہ اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے ہم پر بارش ہوئی۔ وہ مجھ پر ایمان رکھتا ہے اور ستاروں کا منکر ہے اور جو شخص قائل ہے کہ ہم اس ستارے کے ذریعہ سے بارش برسائے گئے تو وہ میرا منکر ہے اور ستاروں پر ایمان رکھتا ہے۔
Top