Maarif-ul-Quran - Al-Furqaan : 37
وَ قَوْمَ نُوْحٍ لَّمَّا كَذَّبُوا الرُّسُلَ اَغْرَقْنٰهُمْ وَ جَعَلْنٰهُمْ لِلنَّاسِ اٰیَةً١ؕ وَ اَعْتَدْنَا لِلظّٰلِمِیْنَ عَذَابًا اَلِیْمًاۚۖ
وَ : اور قَوْمَ نُوْحٍ : قوم نوح لَّمَّا كَذَّبُوا : جب انہوں نے جھٹلایا الرُّسُلَ : رسول (جمع) اَغْرَقْنٰهُمْ : ہم نے غرق کردیا انہیں وَجَعَلْنٰهُمْ : اور ہم نے بنایا انہیں لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے اٰيَةً : ایک نشانی وَاَعْتَدْنَا : اور تیار کیا ہم نے لِلظّٰلِمِيْنَ : ظالموں کے لیے عَذَابًا : ایک عذاب اَلِيْمًا : دردناک
اور نوح کی قوم کو جب انہوں نے جھٹلایا پیغام لانے والوں کو ہم نے ان کو ڈبا دیا اور کیا ان کو لوگوں کے حق میں نشانی اور تیار کر رکھا ہے ہم نے گنہگاروں کے واسطے عذاب درد ناک
خلاصہ تفسیر
اور قوم نوح کو بھی (ان کے زمانہ میں) ہم ہلاک کرچکے ہیں (جن کی ہلاکت اور سبب ہلاکت کا بیان یہ ہے کہ) جب انہوں نے پیغمبروں کو جھٹلایا تو ہم نے ان کو (طوفان سے) غرق کردیا اور ہم نے ان (کے واقعہ) کو لوگوں (کی عبرت) کے لئے نشان بنادیا (یہ تو دنیا میں سزا ہوئی) اور (آخرت میں) ہم نے (ان) ظالموں کے لئے دردناک سزا تیار کر رکھی ہے۔ اور ہم نے عاد اور ثمود اور اصحاب الرس اور ان کے بیچ بیچ میں بہت سی امتوں کو ہلاک کیا اور ہم نے (امم مذکورہ میں سے) ہر ایک (کی ہدایت) کے واسطے عجیب عجیب (یعنی موثر اور بلیغ) مضامین بیان کئے اور (جب نہ مانا تو) ہم نے سب کو بالکل ہی برباد کردیا۔ اور یہ (کفار ملک شام کے سفر میں) اس بستی پر ہو کر گزرتے ہیں جس پر بری طرح پتھر برسائے گئے تھے (مراد قریہ قوم لوط کا ہے) سو کیا یہ لوگ اس کو دیکھتے نہیں رہتے (پھر بھی عبرت نہیں پکڑتے کہ کفر و تکذیب کو چھوڑ دیں جس کی بدولت قوم لوط کو سزا ہوئی سو بات یہ ہے کہ عبرت نہ پکڑنے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ اس قریہ کو دیکھتے نہ ہوں) بلکہ (اصل وجہ اس کی یہ ہے کہ) یہ لوگ مر کر جی اٹھنے کا احتمال ہی نہیں رکھتے (یعنی آخرت کے منکر ہیں اس لئے کفر کو موجب سزا ہی قرار نہیں دیتے اور اس لئے ان کی ہلاکت کو کفر کا وبال نہیں سمجھتے بلکہ امور اتفاقیہ میں سے سمجھتے ہیں یہ وجہ عبرت نہ پکڑنے کی ہے) اور جب یہ لوگ آپ کو دیکھتے ہیں تو بس آپ سے تمسخر کرنے لگتے ہیں (اور کہتے ہیں) کہ کیا یہی (بزرگ) ہیں جن کو خدا تعالیٰ نے رسول بنا کر بھیجا ہے (یعنی ایسا غریب آدمی رسول نہ ہونا چاہئے، اگر رسالت کوئی چیز ہے تو کوئی رئیس مالدار ہونا چاہئے تھا، پس یہ رسول نہیں البتہ) اس شخص (کی جادو بیانی اس غضب کی ہے کہ اس) نے تو ہم کو ہمارے معبودوں سے ہٹا ہی دیا ہوتا اگر ہم ان پر (مضبوطی سے) قائم نہ رہتے (یعنی ہم تو ہدایت پر ہیں اور یہ ہم کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا تھا اللہ تعالیٰ ان کی تردید کے لئے فرماتے ہیں کہ یہ ظالم اب تو اپنے آپ کو ہدایت یافتہ اور ہمارے پیغمبر کو گمراہ بتلا رہے ہیں) اور (مرنے کے بعد) جلدی ہی ان کو معلوم ہوجاوے گا جب عذاب کا معائنہ کریں گے کہ کون شخص گمراہ تھا (آیا وہ خود یا نعوذ باللہ پیغمبر، اس میں ان کے بیہودہ اعتراض کے جواب کی طرف بھی اشارہ ہے کہ نبوت اور مالداری میں کوئی جوڑ نہیں مالدار نہ ہونے کے سبب نبوت سے انکار جہالت و گمراہی کے سوا کچھ نہیں۔ مگر دنیا میں جو چاہیں خیال پکا لیں مگر قیامت میں سب حقیقت کھل جاوے گی) اے پیغمبر آپ نے اس شخص کی حالت بھی دیکھی جس نے اپنا خدا اپنی خواہش نفسانی کو بنا رکھا ہے سو کیا آپ اس کی نگرانی کرسکتے ہیں یا آپ خیال کرتے ہیں کہ ان میں اکثر سنتے یا سمجھتے ہیں (مطلب یہ کہ آپ ان کی ہدایت نہ ہونے سے مغموم نہ ہوجئے کیونکہ آپ ان پر مسلط نہیں کہ خواہی نخواہی ان کو راہ پر لاویں اور نہ ہدایت کی ان سے توقع کیجئے کیونکہ نہ یہ حق بات کو سنتے ہیں نہ عقل ہے کہ غور کریں) یہ تو محض چوپایوں کی طرح ہیں (کہ وہ بات کو نہ سنتے ہیں نہ سمجھتے ہیں) بلکہ یہ ان سے بھی زیادہ بےراہ ہیں (کیونکہ وہ احکام دین کے مکلف نہیں تو ان کا نہ سمجھنا مذموم نہیں اور یہ مکلف ہیں پھر بھی نہیں سمجھتے، پھر یہ کہ وہ اگر معتقدان ضروریات دین کے نہیں ہیں منکر بھی تو نہیں اور نہ تو منکر ہیں اور رویت میں ان کی گمراہی کا منشاء بھی بیان کردیا کہ کسی شبہ و دلیل سے ان کو اشتباہ نہیں ہوا بلکہ اتباع ہویٰ اس کا سبب ہے۔

معارف و مسائل
قوم نوح ؑ کے متعلق یہ ارشاد کہ انہوں نے رسولوں کو جھٹلایا حالانکہ پہلے رسول نہ ان کے زمانے میں تھے نہ انہوں نے جھٹلایا، تو منشاء اس کا یہ ہے کہ انہوں نے حضرت نوح ؑ کو جھٹلایا اور چونکہ اصول دین سب انبیاء کے مشترک ہیں اس لئے ایک کو جھٹلانا سبھی کے جھٹلانے کے حکم میں ہے۔
اَصْحٰبَ الرَّسِّ ، رس لغت میں کچے کنویں کو کہتے ہیں۔ قرآن کریم اور کسی صحیح حدیث میں ان لوگوں کے تفصیلی حالات مذکور نہیں۔ اسرائیلی روایات مختلف ہیں۔ راجح یہ ہے کہ قوم ثمود کے کچھ باقی ماندہ لوگ تھے جو کسی کنویں پر آباد تھے (کذا فی القاموس والدر عن ابن عباس) ان کے عذاب کی کیفیت بھی قرآن میں منصوص اور کسی صحیح حدیث میں بھی مذکور نہیں (بیان القران)
Top