Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Taiseer-ul-Quran - Al-Baqara : 279
فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ١ۚ وَ اِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْ١ۚ لَا تَظْلِمُوْنَ وَ لَا تُظْلَمُوْنَ
فَاِنْ
: پھر اگر
لَّمْ تَفْعَلُوْا
: تم نہ چھوڑو گے
فَاْذَنُوْا
: تو خبردار ہوجاؤ
بِحَرْبٍ
: جنگ کے لیے
مِّنَ
: سے
اللّٰهِ
: اللہ
وَرَسُوْلِهٖ
: اور اس کا رسول
وَاِنْ
: اور اگر
تُبْتُمْ
: تم نے توبہ کرلی
فَلَكُمْ
: تو تمہارے لیے
رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْ
: تمہارے اصل زر
لَا تَظْلِمُوْنَ
: نہ تم ظلم کرو
وَلَا تُظْلَمُوْنَ
: اور نہ تم پر ظلم کیا جائے گا
اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اللہ اور اس کے رسول کی جانب سے تمہارے خلاف اعلان جنگ ہے
398
اور اگر (سود سے) توبہ کرلو تو تم اپنے اصل سرمایہ کے حقدار ہو۔
399
نہ تم ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے
398
یہاں ہم سود سے متعلق چند احادیث بیان کرتے ہیں : (
1
) حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سود لینے والے، دینے والے، تحریر لکھنے والے اور گواہوں، سب پر لعنت کی اور فرمایا وہ سب (گناہ میں) برابر ہیں (مسلم، کتاب البیوع۔ باب لعن آکل الربوا و موکلہ) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سود لینے اور دینے والوں کے علاوہ بنکوں کا عملہ بھی اس گناہ میں برابر کا شریک ہوتا ہے۔ (
2
) آپ نے فرمایا (: سود کے گناہ کے) اگر ستر حصے کئے جائیں تو اس کا کمزور حصہ بھی اپنی ماں سے زنا کے برابر ہے (ابن ماجہ بحوالہ مشکوٰۃ۔ کتاب البیوع۔ باب الربا۔ فصل ثالث) (
3
) آپ نے فرمایا : سود کا ایک درہم جو آدمی کھاتا ہے اور وہ اس کے سودی ہونے کو جانتا ہے تو وہ گناہ میں چھتیس مرتبہ زنا کرنے سے زیادہ سخت ہے (مسند احمد۔ دارمی، بحوالہ مشکوٰۃ۔ کتاب البیوع۔ باب الربا فصل ثالث) یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ شرعی نقطہ نظر سے کئی گناہ ایسے ہیں جو سود سے بھی بہت بڑے ہیں۔ مثلاً شرک، قتل ناحق اور زنا وغیرہ۔ لیکن اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کی وعید اللہ تعالیٰ نے صرف سود کے متعلق سنائی ہے اور خود رسول اللہ ﷺ نے بھی ایسے سخت الفاظ استعمال فرمائے ہیں جو کسی اور گناہ کے متعلق استعمال نہیں فرمائے تو آخر اس کی وجہ کیا ہے ؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ سود اسلامی تعلیمات کا نقیض اور اس سے براہ راست متصادم ہے اور اس کا حملہ بالخصوص اسلام کے معاشرتی اور معاشی نظام پر ہوتا ہے۔ اسلام ہمیں ایک دوسرے کا بھائی بن کر رہنے کی تلقین کرتا ہے۔ وہ آپس میں مروت، ہمدردی، ایک دوسرے پر رحم اور ایثار کا سبق سکھلاتا ہے۔ آپ نے ساری زندگی صحابہ کرام ؓ کو اخوت و ہمدردی کا سبق دیا اور ایک دوسرے کے جانی دشمن معاشرے کی، وحی الٰہی کے تحت اس طرح تربیت فرمائی کہ وہ فی الواقع ایک دوسرے کے بھائی بھائی اور مونس و غمخوار بن گئے۔ اس حقیقت کو اللہ تعالیٰ نے ایک احسان عظیم شمار کرتے ہوئے قرآن میں دو مقامات پر اس کا تذکرہ فرمایا ہے۔ ( سورة آل عمران کی آیت
103
میں اور سورة انفال کی آیت
63
میں) اور یہ چیز رسول اللہ ﷺ کی زندگی کا ماحصل تھا۔ جبکہ سود انسان میں ان سے بالکل متضاد رذیلہ صفات مثلاً بخل، حرص، زر پرستی اور شقاوت پیدا کرتا ہے۔ اور بھائی بھائی میں منافرت پیدا کرتا ہے جو اسلامی تعلیم کی عین ضد ہے۔ دوسرے یہ کہ اسلام کے معاشی نظام کا تمام تر ماحصل یہ ہے کہ دولت گردش میں رہے اور اس گردش کا بہاؤ امیر سے غریب کی طرف ہو۔ اسلام کے نظام زکوٰۃ و صدقات کو اسی لئے فرض کیا گیا ہے اور قانون میراث اور حقوق باہمی بھی اس بات کی تائید کرتے ہیں۔ جبکہ سودی معاشرہ میں دولت کا بہاؤ ہمیشہ غریب سے امیر کی طرف ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے بھی سود اسلام کے پورے معاشی نظام کی عین ضد ہے۔ (
4
) آپ نے فرمایا کہ : لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا جب ہر کوئی سود کھانے والا ہوگا اگر سود نہ کھائے تو بھی اس کا بخار (اور ایک دوسری روایت کے مطابق) اس کا غبار اسے ضرور پہنچ کے رہے گا (نسائی۔ کتاب البیوع۔ باب اجتناب الشبہات فی الکسب) اور آج کا دور بالکل ایسا ہی دور ہے۔ پوری دنیا کے لوگوں اور اسی طرح مسلمانوں کے رگ و ریشہ میں بھی سود کچھ اس طرح سرایت کر گیا ہے، جس سے ہر شخص شعوری یا غیر شعوری طور پر متاثر ہو رہا ہے، آج اگر ایک مسلمان پوری نیک نیتی سے سود سے کلیتہ بچنا چاہے بھی تو اسے کئی مقامات پر الجھنیں پیش آتی ہیں۔ مثلاً آج کل اگر کوئی شخص گاڑی، سکوٹر، کار، ویگن، بس یا ٹرک خریدے گا تو اسے لازماً اس کا بیمہ کرانا پڑے گا۔ اگرچہ اس قسم کے بیمہ کی رقم قلیل ہوتی ہے اور یہ وہ بیمہ نہیں ہوتا جس میں حادثات کی شکل میں بیمہ کمپنی نقصان ادا کرنے کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ تاہم ہمارے ہاں قانون یہ ہے کہ جب تک نئی گاڑی کا بیمہ نہ کرایا جائے وہ استعمال میں نہیں لائی جاسکتی اور اس قلیل رقم کی قسم کا بیمہ ہر سال کرانا پڑتا ہے۔ اور بیمہ کا کاروبار شرعاً کئی پہلوؤں سے ناجائز ہے جس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔ اسی طرح تاجر پیشہ حضرات بنک سے تعلق رکھے بغیر نہ مال برآمد کرسکتے ہیں اور نہ درآمد۔ ان کے لئے آسان راہ یہی ہوتی ہے کہ وہ بنک سے ایل سی (Letter of Credit) یا اعتماد نامہ حاصل کریں۔ اس طرح تمام درآمد اور برآمد کردہ مال سودی کاروبار سے متاثر ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ تجارتی سود یا کمرشل انٹرسٹ Intrest) (Commercial کو جائز سمجھنے والے اور حمایت کرنے والے حضرات یہ حجت بھی پیش کیا کرتے ہیں کہ جب تمہارے گھر کی بیشتر اشیاء سودی کاروبار کے راستہ سے ہو کر تم تک پہنچی ہیں تو تم ان سے بچ کیسے سکتے ہو ؟ تو اس قسم کے اعتراضات کا جواب یہ ہے کہ اس قسم کے سود کو ختم کرنا یا اس کی متبادل راہ تلاش کرنا حکومت کا کام ہے اور اگر حکومت یہ کام نہیں کرتی تو ہر مسلمان انفرادی طور پر جہاں تک سود سے بچ سکتا ہے بچے اور جہاں وہ مجبور ہے وہاں اس سے کوئی مواخذہ نہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ معاف فرما دے گا کیونکہ شریعت کا اصول ہے کہ مواخذہ اس حد تک ہے جہاں تک انسان کا اختیار ہے اور جہاں اضطرار ہے وہاں مواخذہ نہیں۔ اسی طرح آج کے دور میں ایک اہم مسئلہ اپنی بچت یا زائد رقم کو کہیں محفوظ رکھنے کا ہے اور یہ تو ظاہر ہے کہ اس غرض کے لئے گھروں سے بنک محفوظ تر جگہ ہے۔ اور بنکوں میں تین طرح کے کھاتے چلتے ہیں (i) چالو کھاتے Account Current جن میں بنک لوگوں کی رقوم جمع کرتے ہیں، لیکن جمع کرنے والوں کو سود نہیں دیتے، (ii) بچت کھاتے Saving Account جن پر بنک سود دیتا ہے لیکن تھوڑی شرح سے، (iii) میعادی کھاتے Account Fixed Deposit یعنی ایسی رقوم کے کھاتے جو طویل اور مقررہ مدت کے لئے جمع کرائی جاتی ہیں۔ ان پر بنک سود دیتا ہے۔ اب ایک سود سے پرہیز کرنے والا شخص زیادہ سے زیادہ یہی کرسکتا ہے کہ وہ اپنی رقوم چالو کھاتہ میں جمع کرائے اور سود نہ لے۔ لیکن اس میں ایک اور الجھن پیش آتی ہے کہ بنک اس چالو کھاتہ کی رقوم کو بھی سود پر دیتا ہے اور سودی کاروبار کرتا ہے۔ لہذا بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بنک کے پاس سود کی رقم کیوں چھوڑی جائے ؟ جبکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ (وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَي الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ )
5
۔ المآئدہ :
2
) یعنی گناہ اور زیادتی کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون نہ کیا کرو لہذا بنک سے یہ رقم ضرور وصول کر لینی چاہئے مگر اسے اپنے استعمال میں نہ لایا جائے۔ بلکہ اسے محتاجوں اور غریبوں کو دے دیا جائے یا رفاہ عامہ کے کاموں میں خرچ کردیا جائے۔ اور اس سے ثواب کی نیت بھی نہ رکھی جائے۔ کیونکہ حرام مال کا صدقہ قابل قبول ہی نہیں۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ تبدیل ید سے احکام شریعت بدل جاتے ہیں۔ مثلاً زید کے پاس جو سود کی رقم ہے وہ اگر بکرکو صدقہ کر دے یا ویسے بلانیت ثواب دے تو وہ اس کے لئے حرام مال نہیں ہوگا۔ لہذا روپیہ چالو کھاتے کے بجائے سودی کھاتے میں رکھنا چاہئے اور بنک سے سود بھی ضرور وصول کرنا چاہئے جو محتاجوں یا رفاہ عامہ کے کاموں میں خرچ کردینا چاہئے یا (ii) کبھی بنک سے قرضہ لینے کی ضرورت پڑے تو اس سود کی جگہ یہ رقم ادا کردی جائے یا (iii) گورنمنٹ جو ناجائز ٹیکس عائد کرتی ہے ایسی مدات میں یہ سود کی رقم صرف کردی جائے۔ مگر جب ہم اللہ اور اس کے رسول کے احکام پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ ساری مصلحتیں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔ لہذا اس گندگی سے ہر صورت پرہیز لازمی ہے اور ایسے نظریہ کی تہ میں یہی بات نظر آتی ہے کہ انسان چونکہ فطرتاً حریص واقع ہوا ہے لہذا مال کسی راہ سے بھی آتا نظر آئے اسے چھوڑنے کو اس کا جی نہیں چاہتا۔ مندرجہ بالا تین صورتوں میں سے پہلی صورت بظاہر مستحسن نظر آتی ہے مگر ہم ایسی مصلحت کے قائل نہیں جس کی دو وجوہ ہیں۔ پہلی یہ کہ جو شخص سود لینا شروع کر دے گا اس گندگی سے کلیتہ کبھی پاک صاف نہ رہ سکے گا۔ بلکہ کچھ وقت گزرنے پر اس کے نظریہ میں لچک آنا شروع ہوجائے گی اور وہ خود ومن وقع فی الشبہات فقد وقع فی الحرام بن جائے گا۔ پس اس کا یہی رویہ اس کی اولاد میں منتقل ہوگا اور دوسری یہ کہ ہم اپنی ذات کی حد تک سود سے بچنے کی فکر کریں تو بھی بڑی بات ہے۔ ہمارا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ ہم بنک میں رقم اس لئے جمع کرائیں کہ بنک اس سے سود کمائے بلکہ ہمارا مقصد صرف رقم کی حفاظت ہے اور وہ پورا ہوجاتا ہے۔ ایک اور اہم مسئلہ سرکاری، نیم سرکاری اور بعض تجارتی اداروں کے ملازمین کے پراویڈنٹ فنڈ کا ہے، اس فنڈ میں کچھ رقم تو ملازموں کی اپنی تنخواہ سے ماہوار وضع ہوتی اور جمع ہوتی رہتی ہے، ساتھ ہی سود در سود کے حساب سے جمع ہوتا رہتا ہے اور ملازمت سے سبکدوشی کے وقت اسے یہ ساری رقم یکمشت مل جاتی ہے اس مسئلہ کو عموماً اضطراری سمجھا جاتا اور کہا جاتا ہے کہ یہ حکومت یا اداروں کا یکطرفہ فیصلہ ہوتا ہے اور اسی بنا پر بعض علماء نے اسے ملازمت کی شرط اور اسے ملازم کے حق المحنت میں شامل کرکے اس کے جواز کا فتویٰ بھی دیا ہے۔ حالانکہ یہ بات محض لاعلمی کی بنا پر کہی جاتی ہے اگر کوئی سود نہ لینا چاہے تو اسے کوئی مجبور نہیں کرتا۔ پراویڈنٹ فنڈ کے معاہدہ فارم کی پشت پر جو شرائط لکھی ہوتی ہیں ان میں سے شق نمبر
16
میں یہ بات وضاحت سے درج ہے کہ جو شخص سود نہ لینا چاہے اسے کوئی مجبوری نہیں ہے۔ علاوہ ازیں ضیاء الحق مرحوم نے اس کے متبادل حل کو قانونی شکل دے دی ہے۔ جو یہ ہے کہ جو شخص سود نہ لینا چاہے نہ لے اور اس کے عوض اسے کسی وقت بھی اپنی جمع شدہ رقم کا
80
فیصد بطور قرض حسنہ مل سکتا ہے۔ جسے وہ بعد میں بالاقساط اپنی تنخواہ سے کٹوا دیا کرے گا۔ تیسرا اہم مسئلہ بنک کے شراکتی کھاتوں کا ہے جو صدر ضیاء الحق کی سود کو ختم کرنے کی کوشش کے نتیجہ میں معرض وجود میں آیا۔ بنک کی اصطلاحی زبان میں انہیں پی۔ ایل۔ ایس S۔ L۔ P یعنی Shares Loss and Profit) کہتے ہیں۔ جس سے دیندار طبقہ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور ایسے لوگوں نے پی۔ ایل۔ ایس کھاتوں میں حساب منتقل کروالیا۔ مگر تحقیق سے معلوم ہوا کہ یہ بھی بیع عینہ ہی کی ذرا وسیع پیمانے پر صورت اختیار کی گئی ہے۔ بیع عینہ میں حیلہ سازی کے ذریعہ سود کو بیع کی شکل دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مثلاً اگر کسی کو نقد رقم کی ضرورت ہے اور وہ سود میں بھی ملوث نہیں ہونا چاہتا تو وہ ب سے کوئی چیز مثلاً گھوڑا پانچ ہزار روپے میں ایک سال کے وعدہ پر خریدتا ہے پھر ایک دو دن بعد الف وہی گھوڑا ب کے پاس ساڑھے چار ہزار روپے نقد میں فروخت کردیتا ہے اور سال بعد الف کو پانچ ہزار روپے ادا کردیتا ہے۔ اس طرح الف کو فوراً ساڑھے چار ہزار روپے میسر آگئے اور ب کو ایک سال بعد ساڑھے چار ہزار روپے پر پانچ سو منافع مل گیا۔ جو دراصل اس رقم کا ایک سال کا سود ہے اور گھوڑے کی بیع کو درمیان میں لاکر اس سود کو حلال بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ بیع عینہ کہلاتی ہے۔ (موطا امام مالک۔ کتاب البیوع، باب العینہ) یہ خالص سود ہے اور الف اور ب دونوں گنہگار ہیں۔ شراکتی کھاتوں میں بھی ایسی ہی کاروائی کی جاتی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ شراکتی کھاتوں میں سود اور ڈسکاؤنٹ (Discount) کے بجائے مارک اپ اور مارک ڈاؤن کی اصطلاحیں رائج کی گئی ہیں۔ شرح سود تو فیصد سالانہ ہوتی ہے جبکہ مارک اپ فی ہزار فی یومیہ ہوتی ہے۔ جو مضارب اور بنک کے درمیان سمجھوتے سے طے پاتے ہے اور یہ شرح تقریباً وہی بن جاتی ہے جو بنکوں میں فیصد سالانہ رائج ہوتی ہے مثلاً زید مشینری کی خرید کے لئے بنک سے پچاس ہزار روپے کا مطالبہ کرتا ہے۔ اب بنک یہ کرے گا کہ اس رقم کے عوض کاغذوں میں مشینری خود زید سے خرید لے گا اور اس پر متوقع منافع کا اندازہ کرکے مارک اپ لگا کر زید سے یہ مارک اپ بطور کرایہ اور ماہوار قسط ہر ماہ وصول کرتا رہے گا اور اگر زید مقررہ مدت کے اندر اصل زر بمعہ مارک اپ بالاقساط ادا نہیں کرسکتا تو بنک کو یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ مشینری کو فروخت کرکے اپنا سب کچھ کھرا کرلے۔ باقی جو بچے گا وہ زید کا ہوگا۔ بنک کو مشینری کے حصول، اخراجات حصول، حصول کے دوران تلفی کا خطرہ، اس کی نگہداشت، اور وقت سے پہلے ناکارہ ہونے کی چنداں فکر نہیں ہوتی اور وہ ایسے تمام خطرات کی ذمہ داری زید پر ڈال دیتا ہے۔ اب آپ خود دیکھ لیجئے کہ مضاربت کی اس شکل کو اسلامی نظریہ بیع سے کس قدر تعلق ہے ؟ معاملہ دراصل یہ ہے کہ ہمارے بنک اپنے بنیادی ڈھانچہ کے لحاظ سے مالیاتی توسط کے ادارے ہیں۔ تجارتی ادارے نہیں ہیں۔ وہ اپنا حق المحنت سود یا یقینی منافع کی شکل میں وصول کرتے ہیں لیکن کاروباری خطرات کی ذمہ داری کسی قیمت پر لینا گوارا نہیں کرتے اور یہی بات سود اور تجارت کا بنیادی فرق ہے۔ لہذا جب تک ذہنی طور پر اس بنیادی ڈھانچہ میں تبدیلی گوارا نہیں کریں گے سود اپنی نئی نئی شکلوں میں جلوہ گری کرتا رہے گا۔ چوتھا اہم مسئلہ بیمہ کا ہے، سود کی طرح بیمہ نے بھی ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ پاکستان میں
1973
ء سے پہلے بیمہ کا کاروبار پرائیوٹ کمپنیاں کرتی تھیں تاہم انہیں حکومت کی سرپرستی حاصل تھی۔
1973
ء میں حکومت نے ان کو اپنی تحویل میں لے لیا اور سب کمپنیوں کو مدغم کرکے سٹیٹ لائف انشورنس کے نام سے اس کاروبار کو مزید فروغ بخشا۔ آج ہر سرکاری و نیم سرکاری ملازم نیز ہر صنعتی اور تجارتی ادارے کے ملازم کا بیمہ زندگی لازمی قرار دیا گیا ہے۔ اس کی موت یا حادثے کی صورت میں مقررہ رقم اس کے ان ورثاء کو ملتی ہے جو وہ خود تجویز کرتا ہے اور وہ رقم حکومت یا متعلقہ ادارہ ادا کرتا ہے۔ بیمہ پہلے تو صرف جائیداد منقولہ اور غیر منقولہ کا ہوتا تھا۔ پھر زندگی کا بیمہ ہونے لگا۔ پھر انسان کے ایک ایک عضو کا الگ الگ بیمہ ہونے لگا اور آج کل تو بعض ذمہ داریوں مثلاً بچوں کی تعلیم اور شادی وغیرہ کا بھی بیمہ کیا جاتا ہے۔ بیمہ پالیسی کی وضاحت کا یہ موقع نہیں۔ مختصراً یہ بتلا دینا ضروری ہے کہ اس میں سود کا عنصر بھی پایا جاتا ہے، جوئے کا بھی اور بیع غرر کا بھی کیونکہ بیمہ کی شرائط طے کرتے وقت نہ بیمہ دار کو یہ پتا ہوتا ہے کہ وہ کیا کچھ ادا کرسکے گا اور نہ بیمہ کمپنی کو یہ پتا ہوتا ہے کہ اسے کیا کچھ لینا پڑے گا۔ گویا عوضین میں سے کسی ایک عوض کی بھی تعین نہیں ہوسکتی اور ایسی بیع ناجائز ہے۔ علاوہ ازیں یہ اسلام کے قانون میراث میں گڑبڑ پیدا کردیتی ہے۔ بیمہ کمپنیوں کی طرف سے اکثر باہمی ہمدردی اور تکافل، تعاون کا خوبصورت اور بھرپور پراپیگنڈہ کیا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ ایک خالص کاروباری ادارہ ہے جو سودی کاروبار سے بھی کئی گنا زیادہ منافع بخش ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایئے کہ
1978
ء میں امریکہ کی بیمہ کمپنیوں کو اپنے بیمہ داروں سے
98
ارب ڈالر کی رقم وصول ہوئی اور اس رقم میں سے صرف
4
ارب ڈالر اپنے بیمہ داروں کو ادا کئے۔ اس طرح ایک سال کے اندر
94
ارب ڈالر کی رقم اپنے پاس جمع کرلی (روزنامہ جنگ مورخہ
10
مئی
1979
ئ) اسکا حل یہی ہے کہ ہر شخص کو ہر طرح کے بیمہ سے بچنا لازم ہے، اور جہاں انسان مجبور ہو، وہاں ممکن ہے اللہ اسے معاف فرما دے۔ پانچواں اہم مسئلہ انعامی بانڈز (Bonds Prise) کا ہے۔ اس کاروبار کا بھی اور اس میں ملنے والے انعامات کا بھی آج کل عوام میں خوب چرچا ہے۔ یہ دراصل سود اور قمار کی مرکب شکل ہے اور یہ کاروبار حکومتی سطح پر کیا جاتا ہے۔ حکومت کو جب سرمایہ کی ضرورت پیش آتی ہے تو وہ اس ذریعہ سے سود کا نام لئے بغیر عوام سے روپیہ حاصل کرتی ہے۔ طریقہ کار یہ ہے کہ مثلاً آج کل حکومت اسلامی جمہوریہ پاکستان نے
50
روپے،
100
روپے،
500
روپے اور
1000
روپے کے بانڈ (سرکاری تمسکات) چھاپ رکھے ہیں جو کسی وقت بھی کسی بھی بنک سے کیش کرائے جاسکتے ہیں۔ اور عوام میں بھی ان کا لین دین ایسے ہی چلتا ہے جیسے کرنسی نوٹوں کا۔ ان پر نمبر بھی کرنسی نوٹوں کی طرح ہی طبع کئے جاتے ہیں۔ اب مثلاً جنوری
1995
ء میں
50
روپے والے بانڈ فروخت ہوتے رہتے ہیں تو فروری میں
100
روپے والے فروخت ہوں گے، علی ہذا القیاس پھر ہر دو ماہ بعد ان کی قرعہ اندازی ہوتی ہے۔
50
روپے والوں کی مارچ میں اور
100
روپے والوں کی اپریل میں ہوگی۔ اب جو نمبر قرعہ اندازی میں آئیں گے وہ جس شخص کے پاس ہونگے وہ دکھا کر سٹیٹ بنک آف پاکستان یا قومی بچت کے کسی مرکز سے اعلان شدہ انعام حاصل کرے گا۔ یہ کاروبار چونکہ حکومت خود چلا رہی ہے۔ لہذا اسے خاصا فروغ حاصل ہوا ہے اور جن لوگوں کو حرام حلال کی کچھ تمیز نہیں وہ اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ ہر دو ماہ بعد جو انعامات تقسیم ہوتے ہیں وہ دراصل اس جمع شدہ رقم کا دو ماہ کا سود ہوتا ہے۔ جو سب حقداروں میں تقسیم کرنے کے بجائے بذریعہ قرعہ اندازی چند افراد کو دے دیا جاتا ہے اور عوام کو دھوکا دینے کی خاطر اس کاروبار میں سود کا نام انعام رکھ دیا گیا ہے اور بذریعہ قرعہ اندازی یہ انعام کسی کو عطا کرنا ہی میسر (جوا یا قمار) ہے۔ اور یہی کچھ لاٹری میں ہوتا ہے۔ یہ سودی کاروبار انہیں مشاغل میں منحصر نہیں۔ اگر بنک سودی کاروبار کرتے ہیں تو ڈاک خانہ والے بھی کرتے ہیں اور قومی بچت کے مراکز بھی پھر اور بھی بہت سے سرکاری، نیم سرکاری اور نجی ادارے ہیں جو سود پر رقم لے کر اپنا کاروبار چلاتے ہیں۔ اور لوگوں سے مختلف شکلوں میں سود وصول کرتے ہیں۔ آج کل اقساط پر اشیاء کی فروخت کا کاروبار بھی بہت رواج پا چکا ہے۔ اور یہ بات مال بیچنے والا اور لینے والا سب جانتے ہیں کہ ان اقساط میں سود کی رقم شامل ہوتی ہے اور اگر سرکاری واجبات یا بلوں کی ادائیگی میں تاخیر ہوجائے تو سرکاری اور نیم سرکاری ادارے جبراً اس پر سود وصول کرتے ہیں الغرض ہر طرف ہی فضا سود کے اثرات سے مسموم ہوچکی ہے۔ بایں ہمہ یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ اگر آج بھی کوئی شخص سود سے بچنے کا پختہ عزم کرلے تو وہ سود سے بچ سکتا ہے۔ البتہ اگر کوئی ناقابل علاج چیز ہے تو وہ انسان کی ہوس ہے۔ اگر ایک تاجر دوسروں کی دیکھا دیکھی ایک لاکھ کے سرمایہ سے بنک کی ملی بھگت سے چار لاکھ کا کاروبار کرنا چاہتا ہے تو وہ اسے اضطرار کا نام کیوں دیتا ہے۔ اور اگر کوئی چیز درآمد کرتا ہے تو وہ پوری رقم پیشگی جمع کرا کر سود کے دھندے سے بچ بھی سکتا ہے۔ جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں وہ یہ ہے کہ اضطرار کہیں بھی نہیں ہوتا بلکہ بات صرف اتنی ہے کہ حلال طریقے سے کمائی کم ہوتی ہے۔ صرف زیادہ کمائی کی خاطر سود میں ملوث ہونا، پھر اسے اضطرار کا نام دینا ڈھٹائی نہیں تو اور کیا ہے اور ایسے حیلوں بہانوں سے کمائی ہوئی ساری کی ساری دولت حرام ہوجاتی ہے۔ اور اگر حقیقتاً انسان کسی وقت مجبور ہوجائے تو وہ گناہ نہیں اور اللہ تعالیٰ وہ معاف فرمادے گا اور ایسا اضطرار صرف سود دینے میں ہی ہوسکتا ہے۔ لینے میں کبھی نہیں ہوسکتا۔ پھر یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اگر سودی دھندا کرنے والے ہر طرف بکھرے ہوئے ہیں تو بعض ادارے ایسے بھی موجود ہیں جو مضاربت اور شراکت کی بنیادوں پر لوگوں سے سرمایہ اکٹھا کرتے ہیں۔ مثلاً جائنٹ سٹاک کمپنیاں اور کو آپریٹو سوسائٹیاں خالص تجارتی بنیادوں پر کاروبار کرتی ہیں۔ ان کے حصص کی قیمت گھٹتی بڑھتی رہتی ہے۔ اور کھلے بازار یہ حصص فروخت ہوتے رہتے ہیں۔ علاوہ ازیں آج بھی کئی ایسے دیانت دار اور دیندار تاجر موجود ہیں جو مضاربت کی شرائط پر رقم قبول کرتے ہیں اور وقت مقررہ پر طے شدہ شرائط کے مطابق منافع بھی ادا کرتے ہیں اور بوقت ضرورت اصل رقم بھی واپس کردیتے ہیں۔ البتہ ایسے لوگوں کو تلاش ضرور کرنا پڑتا ہے۔ مگر ناپید نہیں ہیں۔ لہذا ہر شخص کو لازم ہے کہ وہ بہرصورت اس جرم عظیم سے اجتناب کرے۔
399
اللہ تعالیٰ نے معاشرہ کو سودی نظام سے نجات حاصل کرنے کی بہترین ترکیب خود ہی بتادی جو یہ تھی کہ اس حکم کے نزول کے بعد کوئی سود پر قرض دینے والا صرف اپنا اصل زر ہی وصول کرنے کا حقدار ہوگا اور سود کا مطالبہ کرکے مقروض پر ظلم نہیں کرے گا۔ اسی طرح مقروض کو اصل زر ضرور قرض خواہ کو ادا کرنا ہوگا۔ وہ اصل زر بھی یا اس کا کچھ حصہ دبا کر قرض خواہ پر ظلم نہیں کرے گا۔ یہ ہیں وہ آیات جنہیں آیات ربا کہا جاتا جن کے مطابق سود کو کلیتہ حرام قرار دیا گیا اور یہ سورة بقرہ میں سب سے آخر میں بلکہ آپ کی وفات سے صرف چار ماہ پیشتر نازل ہوئی تھیں۔ چناچہ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ جب سورة بقرہ کی سب سے بعد نازل ہونے والی آیات سود کے بارے میں نازل ہوئیں تو نبی اکرم نے مسجد میں جاکر ان آیتوں کو سنایا۔ پھر شراب کی سوداگری بھی حرام کردی (بخاری۔ کتاب التفسیر زیر آیات مذکورہ) اور حضرت عمر ؓ نے فرمایا : آیات ربا قرآن کی ان آیات سے ہیں، جو آخر زمانہ میں نازل ہوئیں اور رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوگئی۔ پیشتر اس کے کہ تمام احکام ہم پر واضح فرماتے۔ لہذا تم سود کو بھی چھوڑ دو اور ہر اس چیز کو بھی جس میں سود کا شائبہ ہو (ابن ماجہ، دارمی، بحوالہ مشکوٰۃ، کتاب البیوع، باب الربا۔ فصل ثالث) ان آیات کے نزول کے چند ہی دن بعد آپ نے حجۃ الوداع ادا کیا اور اس حکم کو عملی جامہ پہناتے ہوئے اپنے خطبہ حجۃ الوداع میں یوں اعلان فرمایا کہ : جاہلیت کے تمام سود باطل قرار دیئے جاتے ہیں اور سب سے پہلے میں اپنے خاندان کا سود یعنی عباس بن عبدالمطلب کا سود باطل کرتا ہوں (مسلم۔ کتاب الحج۔ باب حجۃ النبی) شراب کی طرح سود بھی دراصل عرب معاشرہ کی گھٹی میں پڑا ہوا تھا اور اس کا استیصال بھی بتدریج ہوا۔ سود کی مذمت میں سب سے پہلی نازل ہونے والی آیت سورة روم کی آیت نمبر
39
ہے جس میں یہ بتلایا گیا کہ جو رقم تم سود پر دیتے ہو تاکہ لوگوں کے اموال بڑھ جائیں تو ایسا مال، اللہ کے ہاں نہیں بڑھتا دوسری آیت سورة آل عمران کی آیت نمبر
130
ہے جس میں کہا گیا کہ : اے ایمان والو ! دگنا چوگنا سود نہ کھاؤ (یعنی سود مرکب) پھر اس کے بعد سورة بقرہ کی مندرجہ بالا آیات نازل ہوئیں۔ جن کے بعد سود ایک فوجداری جرم بن گیا اور عرب کے سود خور قبیلوں کو آپ نے عمال کے ذریعے آگاہ فرمایا کہ اگر وہ سودی لین دین سے باز نہ آئے تو ان کے خلاف جنگ کی جائے گی۔
Top