Tafheem-ul-Quran - Al-Baqara : 279
فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ١ۚ وَ اِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْ١ۚ لَا تَظْلِمُوْنَ وَ لَا تُظْلَمُوْنَ
فَاِنْ : پھر اگر لَّمْ تَفْعَلُوْا : تم نہ چھوڑو گے فَاْذَنُوْا : تو خبردار ہوجاؤ بِحَرْبٍ : جنگ کے لیے مِّنَ : سے اللّٰهِ : اللہ وَرَسُوْلِهٖ : اور اس کا رسول وَاِنْ : اور اگر تُبْتُمْ : تم نے توبہ کرلی فَلَكُمْ : تو تمہارے لیے رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْ : تمہارے اصل زر لَا تَظْلِمُوْنَ : نہ تم ظلم کرو وَلَا تُظْلَمُوْنَ : اور نہ تم پر ظلم کیا جائے گا
لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا ، تو آگاہ ہو جاوٴ کہ اللہ اور اُس کے رسول ؐ کی طرف سے تمہارے خلاف اعلانِ جنگ 323ہے۔ اب بھی توبہ کرلو (اور سُود چھوڑ دو)تو اپنا اصل سرمایہ لینے کے تم حق دار ہو۔ نہ تم ظلم کرو ، نہ تم پر ظلم کیا جائے
سورة الْبَقَرَة 323 یہ آیت فتح مکہ کے بعد نازل ہوئی اور مضمون کی مناسبت سے اس سلسلہ کلام میں داخل کردی گئی۔ اس سے پہلے اگرچہ سود ایک ناپسندیدہ چیز سمجھا جاتا تھا مگر قانوناً اسے بند نہیں کیا گیا تھا۔ اس آیت کے نزول کے بعد اسلامی حکومت کے دائرے میں سودی کاروبار ایک فوجداری جرم بن گیا۔ عرب کے جو قبیلے سود کھاتے تھے، ان کو نبی ﷺ نے اپنے عمال کے ذریعے سے آگاہ فرمادیا کہ اگر اب وہ اس لین دین سے باز نہ آئے، تو ان کے خلاف جنگ کی جائے گی۔ نجران کے عیسائیوں کو جب اسلامی حکومت کے تحت اندرونی خود مختاری دی گئی، تو معاہدے میں یہ تصریح کردی گئی کہ اگر تم سودی کاروبار کرو گے، تو معاہدہ فسخ ہوجائے گا اور ہمارے اور تمہارے درمیان حالت جنگ قائم ہوجائے گی۔ آیت کے آخری الفاظ کی بنا پر ابن عباس، حسن بصری، ابن سیرین اور ربیع بن انس کی رائے یہ ہے کہ جو شخص دارالاسلام میں سود کھائے اسے توبہ پر مجبور کیا جائے اور اگر باز نہ آئے، تو اسے قتل کردیا جائے۔ دوسرے فقہا کی رائے میں ایسے شخص کو قید کردینا کافی ہے۔ جب تک وہ سود خواری چھوڑ دینے کا عہد نہ کرے، اسے نہ چھوڑا جائے۔
Top