Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 279
فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ١ۚ وَ اِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْ١ۚ لَا تَظْلِمُوْنَ وَ لَا تُظْلَمُوْنَ
فَاِنْ : پھر اگر لَّمْ تَفْعَلُوْا : تم نہ چھوڑو گے فَاْذَنُوْا : تو خبردار ہوجاؤ بِحَرْبٍ : جنگ کے لیے مِّنَ : سے اللّٰهِ : اللہ وَرَسُوْلِهٖ : اور اس کا رسول وَاِنْ : اور اگر تُبْتُمْ : تم نے توبہ کرلی فَلَكُمْ : تو تمہارے لیے رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْ : تمہارے اصل زر لَا تَظْلِمُوْنَ : نہ تم ظلم کرو وَلَا تُظْلَمُوْنَ : اور نہ تم پر ظلم کیا جائے گا
اگر تم نے ایسا نہیں کیا تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے جنگ کے لیے خبردار ہوجاؤ اور اگر تم توبہ کرلو تو اصل رقم کا تمہیں حق ہے۔ نہ تم کسی کا حق مارو، نہ تمہارا حق مارا جائے۔
سود خوروں کو الٹی میٹم : اس کی نوعیت بالکل الٹی میٹم کی ہے یعنی اب جو لوگ اس حکم کو نہ مانیں گے وہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے جنگ کے لیے خبردار ہوجائیں۔ سود کے متعلق جو لب و لہجہ ان آیات کا ہے بعینہ یہی لہجہ سود سے متعلق آنحضرت ﷺ کا خطبہ حجۃ الوداع میں معلوم ہوتا ہے جس سے ان آیات کے زمانہ نزول کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس آیت سے صریح طور پر یہ بات سامنے آتی ہے کہ اسلامی نظام میں سودی کاروبار کرنے والوں کی حیثیت باغیوں اور مفسدوں کی ہے جن کی سرکوبی کے لیے عند الضرورت فوجی کاروائی بھی کی جاسکتی ہے۔ اس پر تفصیلی بحث سورة مائدہ میں آئے گی۔ اس الٹی میتم کے بعد سودی کاروبار رکھنے والوں کو صرف اس امر کی اجازت دی گئی کہ وہ اپنی اصل رقمیں قرض داروں سے واپس لے سکتے ہیں، نہ وہ اس میں کسی چال سے سود کی کوئی رقم جوڑ کر قرض دار کی حق تلفی کی راہ ڈھونڈھیں اور نہ قرض داروں کے لیے یہ بات جائز ہے کہ وہ اس اصلاح سے فائدہ اٹھا کر مہاجنوں کی اصل رقمیں بھی دبا بیٹھنے کی کوشش کریں۔ یہ تنبیہ اس لیے ضروری ہوئی کہ جب کوئی اہم اور معاشی اصلاح عمل میں آتی ہے تو اس سے متاثر ہونے والے طبقات میں بڑی ہلچل پیدا ہوجاتی ہے۔ جن کو اس اصلاح سے نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے وہ ایسی تدبیریں اور ایسے حیلے اختیار کرتے ہیں جن سے وہ اپنے آپ کو نقصان سے بچا لے جائیں اور جنہیں فائدہ پہنچنے کی توقع ہوتی ہے وہ فائدہ کی اسی مقدار پر قناعت نہیں کرنا چاہتے جو انہیں قانون پہنچا رہا ہے بلکہ وہ قانون کی حدود سے آگے بڑھ کر ہاتھ مارنا چاہتے ہیں۔ اس افراتفری اور کشاکش کو روکنے کے لیے قرآن نے اول تو اس کے لیے بہت پہلے سے، جیسا کہ اوپر واضح ہوا، ذہنوں کو تیار کیا، پھر جب آخری حکم دیا تو اس کے ساتھ یہ ہدایت فرما دی کہ لَا تَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْنَ۔ اسی ہدایت کی یہ برکت تھی کہ عرب میں یہ عظیم معاشی اصلاح بغیر کسی طبقاتی کش مکش کے عمل میں آگئی۔ نہ مہاجنوں پر کوئی آفت آئی نہ قرضداروں کو کوئی گزند پہنچا بلکہ دونوں اس اصلاح کی برکت سے یکساں طور پر مستفید ہوئے۔ اگر بات کے اپنے حدود سے آگے بڑھ جانے کا اندیشہ نہ ہوتا تو یہاں ہم دکھاتے کہ دنیا میں دوسری قوموں کو اس قسم کی اصلاحات کے لیے کیا کیا قیمتیں دینا پڑی ہیں۔
Top