Kashf-ur-Rahman - Al-Baqara : 279
فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ١ۚ وَ اِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْ١ۚ لَا تَظْلِمُوْنَ وَ لَا تُظْلَمُوْنَ
فَاِنْ : پھر اگر لَّمْ تَفْعَلُوْا : تم نہ چھوڑو گے فَاْذَنُوْا : تو خبردار ہوجاؤ بِحَرْبٍ : جنگ کے لیے مِّنَ : سے اللّٰهِ : اللہ وَرَسُوْلِهٖ : اور اس کا رسول وَاِنْ : اور اگر تُبْتُمْ : تم نے توبہ کرلی فَلَكُمْ : تو تمہارے لیے رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْ : تمہارے اصل زر لَا تَظْلِمُوْنَ : نہ تم ظلم کرو وَلَا تُظْلَمُوْنَ : اور نہ تم پر ظلم کیا جائے گا
پھر اگر تم ایسا نہیں کرتے تو اللہ اور اس کے رسول کی جانب سے جنگ کا اعلان سن لو اور اگر تم توبہ کرلو تو تمہارے اصل مال تمہارے لئے ہیں نہ تم کسی پر زیادتی کرو اور نہ تم پر زیادتی کی جائے4
4۔ پھر اگر تم نے ایسا نہ کیا یعنی پچھلے چڑھے ہوئے سودکا مطلبہ ترک نہ کیا تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی جانب سے ایک سخت جنگ کا یقین کرو اور اللہ و رسول کی جانب سے جنگ کا اعلان سن لو اور ہوشیار و خبردار ہو جائو یعنی دنیا میں تمہارے خلاف جہاد ہوگا اور آخرت میں تم کو آ گ کا عذاب دیا جائے گا اور اگر تم توبہ کرلو تو تم کو تمہارے اصل مال پہنچتے ہیں اور تم کو اپنی اصل رقم لینے کا حق ہے نہ تم سود کا مطالبہ کر کے کسی پر ظلم کرو اور نہ تم پر زیادتی اور ظلم کیا جائے کہ تمہاری اصل رقم واپس نہ کی جائے یا اس رقم میں سے دیا ہوا سود وضع کرلیا جائے ۔ ( تیسیر) فاذنوا ۔ ذال کے زیر اور زبر دونوں کے ساتھ پڑھا گیا ہے ہم نے تیسیر میں دونوں قراءتوں کی رعایت سے ترجمہ کردیا ہے ۔ اللہ اور اس کے رسول کی جانب سے جنگ کے اعلان کا مطلب یہ ہے کہ رسول کی طرف سے جہاد اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے قیامت میں عذاب۔ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن سود خور سے کہا جائے گا لڑائی کے لئے اپنے ہتھیارسنبھال لے۔ عمرو بن العاص کی روایت میں ہے جب کسی قوم میں سود خواری علم ہوگی تو اس پر قحط واقع ہوجائے گا اور جب کسی قوم میں رشوت خواری بڑھے گی تو اس پر ہیبت اور رعب چھا جائے گا ۔ مطلب یہ ہے کہ جب تم لوگ سود کھانے سے باز نہ آئو گے اور بقایا کا مطالبہ کرو گے تو پیغمبر ﷺ تم سے جہاد کرے گا جیسا کہ آج بھی اگر کوئی شخص سود کھائے تو امام کو حق ہے کہ اس سے توبہ کا مطالبہ کرے اور اس کو قید کرے اور اگر وہ توبہ نہ کرے یہاں تک کہ وہ حکم الٰہی کی طرف رجوع کرے اور اگر وہ صاحب قوت ہو اور اس کے حمایتی مزاحمت کریں اور اس کو قید ہونے سے روکیں تو ان لوگوں کے خلاف جہادکرے یہی حکم ہے ان لوگوں کے لئے جو نماز کے تارک ہوں یا زکوٰۃ کے تارک ہوں یا کسی اور فرض کے تارک ہوں یا کبائر میں سے کسی کبیرہ کے مرتکب ہوں اور کبیرہ کے ارتکاب پر اصرار کریں اور امام کے جبر کرنے پر مزاحمت کریں اور گردہ بنا کر مقابلہ کریں تو ان لوگوں کا حکم باغیوں کا ہوگا اور انکے خلاف جہاد کرنا واجب ہوگا بلکہ اگر کسی سنت متوارثہ کے ترک پر اصرار کریں اور گردہ بندہ کر کے مقابلہ پر آمادہ ہوجائیں تو ان کے خلاف بھی امام کو جہاد کرنا ہوگا ۔ وان تبتم کا مطلب یہ ہے کہ اگر توبہ کرلیں اور پچھلے سود کا مطالبہ ترک کردیں تو وہ اپنی اصل رقم لے سکتے ہیں اگرچہ توبہ نہ کرنے کی شکل کا یہاں صراحتہً ذکر نہیں ہے لیکن ظاہر ہے کہ اگر سود کو حرام سمجھتے ہوئے توبہ نہیں کرتے تو باغی ہیں ان پر باغیوں کے احکام جاری ہوں گے اور اگر معاذ اللہ حلال سمجھ کر توبہ نہیں کرتے تو مرتد ہوں گے اور ان پر مرتدین کے احکام جاری ہوں گے۔ یہ تمام احکام کتب فقہ میں مذکور ہیں نہ تم کسی پر ظلم کرو اور نہ تم پر کوئی ظلم کرے۔ اس کا مطلب صاف ہے جیسا کہ تیسیر میں عرض کیا جاچکا ہے ۔ تم پر ظلم نہ کہ تمہاری اصل رقم نہ دلوائی جائے۔ یا لیا ہوا سود واپس دلوایا جائے اور دوسروں پر ظلم یہ کہ اصل رقم یعنی مول سے زیادہ حاصل کرو۔ اس آیت کو مسلمانان بنی مغیرہ اور بنی عمرو نے سن کر کہا ، ہم اللہ تعالیٰ کی جناب میں توبہ کرتے ہیں ہم کو اللہ اور اس کے رسول سے لڑنے کی طاقت اور ہمت نہیں ہے چناچہ صرف راس المال یعنی اصل رقم اور مول لینے پر راضی ہوگئے اور سود کے بقایا کا مطالبہ ترک کردیا ۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی اگلا سود لیا ہوا تمہارے اصل مال میں حساب کرے تو تم پر ظلم اور منع کے بعد اگلا چڑھا سود تم مانگو تو تمہارا ظلم ہے۔ ( موضح القرآن) لا تظلمون ولا تظلمون کی اس تشریح کے بعد کچھ عرض کرنے کی ضرورت نہیں ۔ البتہ صاحب تفسیر مظہری نے ایک اور بات بھی کہی ہے وہ یہ کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے۔ مطل الخنی ظلم یعنی ہوتے سا تھے قرض خواہ کو ٹالنا اور قرض کی ادائیگی میں تاخیر کرنا ظلم ہے یہ جو فرمایا کہ نہ تم پر کوئی ظلم کرے ۔ اس کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ تمہاری اصل رقم کے لوٹانے میں ہوتے سا تھے کوئی تاخیر نہ کرے اور تمہارے مطالبے پر فوراً رقم ادا کردی جائے۔ سبحان اللہ ! کیا معتدل قانون ہے ایک طرف مقروض سے سود لینے کو منع فرمایا تو دوسری طرمقروض کو تاکید فرمائی کہ اگر ہوتے سا تھے نہ دو گے یا قرض کی ادائیگی میں تاخیر کرو گے اور قرض خواہ کو ٹال مٹول بتائو گے تو ظالم قرار دیئے جائو گے۔ ( تسہیل)
Top