Al-Qurtubi - Al-Baqara : 279
فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ١ۚ وَ اِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْ١ۚ لَا تَظْلِمُوْنَ وَ لَا تُظْلَمُوْنَ
فَاِنْ : پھر اگر لَّمْ تَفْعَلُوْا : تم نہ چھوڑو گے فَاْذَنُوْا : تو خبردار ہوجاؤ بِحَرْبٍ : جنگ کے لیے مِّنَ : سے اللّٰهِ : اللہ وَرَسُوْلِهٖ : اور اس کا رسول وَاِنْ : اور اگر تُبْتُمْ : تم نے توبہ کرلی فَلَكُمْ : تو تمہارے لیے رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْ : تمہارے اصل زر لَا تَظْلِمُوْنَ : نہ تم ظلم کرو وَلَا تُظْلَمُوْنَ : اور نہ تم پر ظلم کیا جائے گا
اگر ایسا نہ کرو گے تو خبردار ہوجاؤ (کہ تم) خدا اور رسول سے جنگ کرنے کے لئے (تیار ہوتے ہو) اور اگر توبہ کرلو گے (اور سود کو چھوڑ دو گے) تو تم کو اپنی اصل رقم لینے کا حق ہے جس میں نہ اوروں کو نقصان اور نہ تمہارا نقصان
مسئلہ نمبر : (31) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” فان لم تفعلوا فاذنوا بحرب من اللہ ورسولہ “۔ یہ وعید ہے اگر انہوں نے سود نہ چھوڑا اور جنگ قتل کی دعوت دیتی ہے اور حضرت ابن عباس ؓ نے روایت کیا ہے کہ قیامت کے دن سود کھانے والے کو کہا جائے گا : جنگ کے لئے اپنے ہتھیار لے لے، اور حضرت ابن عباس ؓ نے یہ بھی کہا ہے : جو کوئی سود پر قائم رہے اور اس سے باز نہ آئے تو مسلمانوں کے امام پر لازم ہے کہ وہ اس سے سود کا مال واپس لے لے پس اگر وہ باز آجائے۔ (تو فبہا) اور نہ وہ اسے قتل کر دے۔ اور حضرت قتادہ ؓ نے کہا ہے : اللہ تعالیٰ نے سود لینے والوں کو قتل کی دھمکی دی ہے اور انہیں مباح قرار دیا ہے جہاں بھی وہ پکڑے جائیں، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ معنی یہ ہے : اگر تم باز نہ آئے تو تم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ جنگ کرنے والے ہو یعنی تم ان کے دشمن ہو۔ ابن خویز منداد نے کہا ہے : اگر کسی شہر والوں نے سود پر اسے حلال سمجھتے ہوئے صلح کرلی تو وہ مرتد ہوگئے اور انکے بارے میں حکم مرتدین کے حکم کی طرح ہوگا۔ اور اگر وہ اسے حلال نہ سمجھیں تو امام وقت کے لئے ان سے جنگ لڑنا جائز ہے۔ کیا آپ جانتے نہیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں اعلان فرمایا ہے (آیت) ” فاذنوا بحرب من اللہ ورسولہ “۔ ترجمہ پھر وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی جانب سے اعلان جنگ سن لیں۔ اور ابوبکر نے حضرت عاصم (رح) سے ” وازنوا “ پڑھا ہے، اس معنی کی بنیاد پر کہ تم اپنے سوا کو بتا دو کہ تم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے حالت جنگ میں ہو۔ مسئلہ نمبر : (32) ابن بکیر نے بیان کیا ہے کہ ایک آدمی حضرت امام مالک بن انس ؓ کے پاس آیا اور کہا : اے ابا عبداللہ ! میں نے ایک آدمی کو نشہ کہ حالت میں دیکھا، وہ گالی گلوچ کر رہا تھا اور چاہتا تھا کہ وہ چاند کو پکڑ لے، سو میں نے کہا میری بیوی کو طلاق اگر ابن آدم (انسان) کے پیٹ میں شراب سے بڑھ کر کوئی بری شے داخل ہوتی ہو، تو آپ نے اسے فرمایا : تو واپس چلا جا یہاں تک کہ میں تیرے مسئلہ میں غور وفکر کرلوں، پھر وہ دوسرے دن آیا، تو آپ نے اسے پھر فرمایا : تو واپس لوٹ جا یہاں تک کہ میں تیرے مسئلہ میں غور وفکر کرلوں، وہ پھر تیسرے دن آیا تو آپ نے اسے فرمایا : تیری بیوی کو طلاق ہوچکی ہے میں نے کتاب اللہ اور حضور نبی مکرم ﷺ کی سنت میں خوب چھان بین کی، گہری غور وفکر کی تو میں نے سود سے بڑھ کر کوئی بری شے نہ دیکھی، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس میں جنگ کا اعلان کیا ہے۔ مسئلہ نمبر : (33) یہ آیت اس پر دلیل ہے کہ سود کھانا اور اس کے مطابق کاروبار کرنا گناہ کبیرہ میں سے ہے اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے ہم اسے بیان کریں گے۔ حضور نبی مکرم ﷺ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” یاتی علی الناس زمان لایبقی احد الا اکل الربا ومن لم یا کل الربا اصابہ غبارہ “۔ (لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا کہ کوئی باقی نہیں رہے گا مگر وہ سود کھائے گا اور جس نے نہ کھایا تو اس کا غبار اس تک پہنچ جائے گا) اور دارقطنی نے حضرت عبداللہ ابن حنظلہ غسیل الملائکہ ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : لدرھم ربا اشد عند اللہ تعالیٰ من ست وثلاثین زنیۃ فی الخطیئۃ “۔ (سود کا ایک درہم اللہ تعالیٰ کے نزدیک گناہ میں چھتیس مرتبہ زنا کرنے سے زیادہ شدید ہے) اور آپ ﷺ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : ” الربا تسعۃ وتسعون بابا ادناھا کا تیان الرجل بامہ (1) (ابن ماجہ، باب التغلیظ فی الرباء حدیث نمبر 2264، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) (سود کے ننانوے دروازے ہیں اور ان میں سے ادنی آدمی کا اپنی ماں کے ساتھ زنا کرنے کی مثل ہے) اور حضرت ابن مسعود ؓ نے فرمایا : سود کھانے والا، کھلانے والا، اسے لکھنے والا اور اس کی شہادت دینے والا سب پر حضور نبی مکرم ﷺ کی زبان سے لعنت کی گئی ہے۔ اور امام بخاری نے ابو جحیفہ ؓ سے روایت کیا ہے (2) (صحیح بخاری، باب ثمن الکلب، حدیث نمبر : 2084، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) کہ انہوں نے بیان کیا رسول اللہ ﷺ نے خون کے ثمن (قیمت) کتے کے ثمن اور بدکاری کی کمائی سے منع فرمایا ہے اور سود کھانے اور کھلانے والے پر (بال) گودنے اور گدوانے والی پر اور تصویر بنانے والے پر لعنت کی ہے۔ نھی رسول اللہ ﷺ عن ثمن الدم وثمن الکلب وکسب البغی ولعن اکل الربا ومؤکلہ والواشمۃ والمستوشمۃ والمصور “۔ (اور صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” سات ہلاک کرنے والی چیزوں سے بچو اور ان میں سے ہے۔۔۔۔ واکل الربا اور سود کھانے والا، اور مصنف ابی داؤد میں حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت ہے (3) ( جامع ترمذی، کتاب البیوع، حدیث نمبر 1127، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے سود کھانے والے، کھلانے والے، اسے لکھنے والے اور اس پر شاہد بننے والے سبھی پر لعنت کی ہے۔ مسئلہ نمبر : (34) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” وان تبتم فلکم رؤوس اموالکم “۔ الایۃ، ابو داؤد نے سلیمان بن عمرو سے اور انہوں نے اپنے باپ سے روایت بیان کی ہے (4) (سنن ابی داؤد، باب فی وضع الرباء حدیث نمبر 2896، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) کہ انہوں نے کہا : میں نے حجتہ الوداع میں رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : ” خبردار سنو بیشک دور جاہلت کے سودوں میں سے تمام سود ختم کردیئے گئے ہیں تمہارے لئے اصل مال ہوں گے نہ تم ظلم کرو اور نہ ہی تم پر ظلم کیا جائے گا ، ‘ اور آگے پوری حدیث بیان کی، تو اللہ تعالیٰ نے انہیں توبہ کے ساتھ اپنے راس الاموال کی طرف لوٹا دیا اور انہیں فرمایا : سود لینے میں ” تم ظلم نہ کرو “ اور تم پر یہ ظلم نہیں کیا جائے گا “۔ کہ تمہارے رأس الاموال میں سے کوئی شے روک لی جائے اور تمہارے اموال ختم ہوجائیں۔ اور یہ احتمال بھی ہوسکتا ہے کہ تم پر ٹال مٹول کرکے ظلم نہیں کیا جائے گا، کیونکہ غنی کا ٹال مٹول کرنا بھی ظلم ہے (1) (صحیح بخاری، باب الحوالۃ، حدیث نمبر 2125، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) پس معنی یہ ہوا کہ فیصلہ سود ختم کرنے کے ساتھی ہی ہوگا اور اسی طرح صلح کا طریقہ ہے اور یہی صلح کے زیادہ مشابہ شے ہے، کیا آپ جانتے نہیں کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے جب کعب بن مالک کی طرف ابن ابی حدرد کے قرض میں نصف ختم کرنے کے بارے ارشارہ کیا اور کعب نے کہا : جی ہاں، تو رسول اللہ ﷺ نے دوسرے کو فرمایا : ” اٹھ اور اسے ادا کر دے “ پس علماء نے آپ ﷺ کے امر بالقضاء کو مصالحات میں سنت کے طور پر لیا ہے، عنقریب سورة النساء میں صلح کا بیان آئے گا اور ان کا جن میں صلح جائز ہوتی ہے اور جن میں جائز نہیں ہوتی، انشاء اللہ تعالیٰ ۔ مسئلہ نمبر : (35) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” وان تبتم فلکم رئوس اموالکم “۔ یہ تاکید ہے اس (ربا) کو باطل کرنے کی جس پر قبضہ نہیں کیا گیا اور اس رأس المال کو لینے کی جس میں سود نہیں، پس بعض علماء نے اس پر استدلال کیا ہے کہ ہر وہ شے جو بیع پر قبضہ کرنے سے پہلے ان چیزوں میں سے طاری ہو جو عقد کی تحریم کو ثابت کرتی ہیں تو وہ عقد کو باطل کر دے گی، جیسا کہ جب کوئی مسلمان شکار خریدے پھر مشتری یا بائع قبضہ سے پہلے اسے حرام کر دے تو بیع باطل ہوجائے گی، کیونکہ اس پر قبضہ سے پہلے وہ شے طاری ہوچکی ہے جس نے عقد کے حرام ہونے کو ثابت کردیا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس (ربا) کو باطل قرار دیا ہے جس پر قبضہ نہیں ہوا، کیونکہ اس پر وہ طاری ہوچکی ہے جس نے قبضہ سے پہلے اس کی تحریم کو ثابت کردیا ہے اور اگر اس پر پہلے قبضہ کرلیا گیا ہو پھر اس پر کوئی اثر نہ پڑے گا، یہ امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کا مذہب ہے اور یہی امام شافعی (رح) کے اصحاب کا بھی قول ہے اور اس کے ساتھ اس پر استدلال کیا جاتا ہے کہ قبضہ سے پہلے بائع کے ہاتھ میں مبیع کا ہلاک ہوجانا اور مبیع میں قبضہ کا ساقط ہوجانا عقد کے باطل ہونے کو واجب کرتا ہے بخلاف بعض سلف کے اور یہ اختلاف امام احمد سے روایت کیا جاتا ہے، اور اس کے قول کے مطابق جاری ہو سکتا ہے جو یہ کہتا ہے : بیشک ربا میں عقد فی الاصل منعقد ہوچکا تھا اور پھر وہ قبضہ سے پہلے طاری ہونے والے اسلام کے سبب باطل ہوگیا اور رہے وہ جنہوں نے اصل میں ربا کے انعقاد کا انکار کیا ہے تو (ان کے نزدیک) یہ کلام صحیح نہیں ہے وہ یہ کہ سود (تمام) ادیان میں حرام کردیا گیا ہے اور وہ جو دور جاہلیت میں اس کا کاروبار کرتے تھے تو وہ مشرکین کی عادت تھی اور ربا میں سے جس پر انہوں نے قبضہ کرلیا ہے وہ ان مالوں کے جمع ہونے کی جگہ میں ہے جو ان تک غصب اور سلب کے ذریعہ پہنچے ہیں تو اس پر کوئی تعرض نہ کیا جائے گا، پس اس بناء پر استشہاد صحیح نہیں ہوگا ان مسائل میں جو انہوں نے ذکر کئے ہیں اور ہم سے پہلے انبیاء (علیہم السلام) کی شریعتوں کا ربا کی تحریم پر مشتمل ہونا مشہور ہے اور کتاب اللہ میں مذکور ہے، جیسا کہ اس قول باری تعالیٰ میں یہودیوں کے بارے میں بیان کیا گیا ہے۔ (آیت) ” واخذھم الربوا وقد نھوا عنہ “۔ (النساء : 161) ترجمہ : اور بوجہ ان کے سود لینے کے حالانکہ منع کئے گئے تھے اس سے۔ اور حضرت شعیب (علیہ السلام) کے قصہ میں مذکور ہے کہ ان کی قوم نے ان کا انکار کیا اور کہا : (آیت) ” اصلوتک تامرک ان نترک ما یعبدابآؤنا او ان نفعل فی اموالنا مانشؤا “۔ (ہود : 87) ترجمہ ؛ کیا تمہاری نماز تمہیں حکم دیتی ہے کہ ہم چھوڑ دیں انہیں جن کی عبادت کرتے ہو اہمارے دادا یا نہ تصرف کریں اپنے مالوں میں جیسے ہم چاہیں) پس اس بنا پر اس سے استدلال درست نہ ہوگا، ہاں اس سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ عقود جو دارالحرب میں واقع ہوں جب امام وقت ان پر غالب آئے تو وہ فسخ کے احکام جاری نہیں کرے گا اگرچہ وہ عقود فاسدہ ہی ہوں۔ مسئلہ نمبر : (36) ارباب ورع وزہد میں سے بعض غلو کرنے والوں نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ حلال مال میں جب حرام مال اس طرح مل جائے کہ تمیز ممکن نہ رہے پھر وہ ملے جلے مال میں سے حرام مال کی مقدار مال نکال دے تو پھر بھی (مابقی مال) حلال اور پاک نہ ہوگا، کیونکہ یہ ممکن ہے کہ جو مال نکالا گیا ہے وہ حلال ہو اور جو باقی ہے وہ حرام ہو، ابن عربی (رح) نے کہا ہے : یہ دین میں غلو ہے، کیونکہ ہر وہ مال جس میں تمیز کرنا (اور اسے علیحدہ علیحدہ کرنا) ممکن نہ رہے تو پھر اس سے مقصود اس کی مالیت ہوتی ہے نہ کہ اس کا عین، اور اگر مال ضائع ہوجائے تو پھر اس کی مثل مال اس کے قائم مقام ہوتا ہے، دونوں قسم کے مالوں کا مخلوط ہوجانا اس کی تمیز اور علیحدگی کے اعتبار سے اتلاف اور ضیاع ہی ہے جیسا کہ ہلاک کردینا اس کے عین (ذات) کے لئے اتلاف اور ضیاع ہے اور مثل ضائع ہونے والے مال کے قائم مقام ہوتی ہے اور یہ حسا اور معنی بین اور واضح ہے، واللہ اعلم۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : ہمارے علماء نے کہا ہے اموال حرام میں سے جو آدمی کے قبضہ میں ہو اگر وہ سود کا مال ہے تو اس سے توبہ کا طریقہ یہ ہے کہ وہ اسے اس کے پاس واپس لوٹا دے جس پر سود لگایا تھا اور اگر وہ حاضر نہ ہو تو اسے تلاش کرے اور اگر اسے پانے سے مایوس ہوجائے تو پھر چاہیے کہ وہ اسے صدقہ کر دے اور اگر اس نے وہ مال ظلما لیا ہو تو جس کے ساتھ اس نے ظلم کیا ہے اس کے ساتھ بھی اسے اسی طرح معاملہ کرنا چاہئے اور اگر اس پر معاملہ مشتبہ ہوجائے اور وہ یہ نہ جان سکے کہ جو مال اس کے قبضے میں ہے اس حلال میں سے حرام کتنا ہے تو جو مال اس کے قبضے میں ہے اس میں سے وہ مقدار تلاش کرے جس کا لوٹانا اس پر واجب ہے، یہاں تک کہ اسے اس میں کوئی شک نہ رہے کہ جو مال باقی ہے وہ خالص اس کا اپنا ہے، پس جو مال اس نے اپنے قبضے سے زائل کیا اسے وہ ان لوگوں کو واپس لوٹائے گا جن کے بارے میں یہ معروف ہو کہ اس نے اس پر ظلم کیا ہے یا اس سے بطور سود مال لیا ہے اور اگر وہ اسے آدمی کو پانے سے مایوس ہوجائے تو پھر اس کی طرف سے وہ مال صدقہ کر دے۔ اور اگر مظالم اس کے ذمہ کا احاطہ کئے ہوئے ہوں اور وہ یہ جانتا ہو کہ اس پر جو کچھ واجب الادا ہے وہ اسے کثیر ہونے کے سبب کبھی بھی ادا کرنے کی طاقت نہیں رکھے گا تو اس کی توبہ کا طریقہ یہ ہے کہ جو کچھ اس کے پاس موجود ہے وہ سب اپنی ملکیت سے زائل کر دے، چاہے مساکین کو دے دے اور چاہے تو ایسے کاموں میں خرچ کر دے جو عام مسلمانوں کی منفعت اور صلاح کے لئے ہوں، یہاں تک کہ اس کے پاس کوئی شے باقی نہ رہے، سوائے اس کم سے کم لباس کے جس میں نماز جائز ہوتی ہے اور وہ اتنا کپڑا ہے جو شرمگاہ کو ڈھانپ سکے اور وہ ناف سے لے کر گھٹنوں تک ہے، اور ایک دن کی خوراک (باقی رہ جائے) کیونکہ یہ وہ مقدار ہے جو اضطراری حالت میں دوسرے کے مال سے لینا واجب ہوتی ہے، اگرچہ وہ اسے ناپسند کرے جس سے وہ لے رہا ہے اور اکثر علماء کے قول کے مطابق یہاں مفلس علیحدہ اور جدا ہوگیا، کیونکہ مفلس کے پاس لوگوں کے اموال کسی زیادتی یا ظلم کی وجہ سے نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے وہ مال اس کے حوالے کر رکھے ہوتے ہیں پس اس کے لئے اتنا مال چھوڑ دیا جائے گا جو اسے چھپا لے گا اور وہ وہ ہے جو اس کے لباس کی ہئیت وکیفیت میں ہو۔ اور ابو عبید وغیرہ یہ کہتے ہیں کہ وہ مفلس کے لئے لباس نہ چھوڑے مگر وہ کم سے کم مقدار جو نماز میں اسے کافی ہو اور وہ وہ ہے جو اسے ناف سے گھٹنے تک ڈھانپ لے، پھر جب بھی کوئی شے اس کے ہاتھ میں آئے اسے وہ اپنے ہاتھ سے نکال دے اور اس سے وہ کچھ روک کر نہ رکھے سوائے اس مقدار کے جو ہم نے ذکر کردی ہے، یہاں تک کہ وہ جان لے، اور کون اس کی حالت کو جان سکتا ہے کہ اس نے وہ ادا کردیا ہے جو اس کے ذمہ واجب الادا ہے۔ مسئلہ نمبر : (37) یہ وہ وعید ہے جس کے سبب اللہ تعالیٰ نے سود کھانے کی صورت میں جنگ سے ڈرایا دھمکایا ہے اور اسی کی مثل حضور نبی کریم ﷺ کی جانب سے بٹائی پر کھیتی کرنے کے بارے میں بھی وارد ہے، ابو داؤد نے روایت کیا ہے اور کہا ہے : یحییٰ بن معین اور ابن رجانے ہمیں خبر دی ہے اور ابن رجا نے کہا ہے کہ مجھے ابن خیثم نے ابو الزبیر سے اور انہوں نے حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے بیان کیا ہے کہ انہوں نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : ” جس نے بٹائی پر کھیتی کرنے کو نہ چھوڑا تو اسے چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی جانب سے اعلان جنگ سن لے۔ “ پس یہ بٹائی پر کھیتی کرنے سے روکنے پر دلیل ہے اور مخابرہ سے مراد زمین کو نصف یا تہائی یا چوتھائی پیداوار کے عوض لینا ہے اور اسے مزارعت کہا جاتا ہے، اور امام مالک (رح) کے تمام اصحاب، امام شافعی (رح) امام ابوحنیفہ (رح) اور ان کے متبعین اور داؤد رحمۃ اللہ علہیم نے اس پر اجماع کیا ہے کہ زمین ثلث اور ربع پر دینا جائز نہیں ہے اور نہ ہی اس پیداروار کے جز پر جو زمین سے حاصل کی جائے گی، کیونکہ وہ مجہول ہے، مگر امام شافعی (رح) اور آپ کے اصحاب اور امام اعظم ابوحنیفہ (رح) نے کہا ہے کہ زمین کو اناج کے عوض کرائے پر دینا جائز ہے بشرطیکہ مقدار معلوم ہو، کیونکہ حضور ﷺ نے فرمایا : ” پس جو شے معلوم ہو اس کی ضمانت ہوسکتی ہو تو اس کے عوض کوئی حرج نہیں ہے۔ “ اسے مسلم نے بیان کیا ہے اور محمد بن عبداللہ بن عبدالحکم نے یہی موقف اپنا یا ہے اور امام مالک (رح) اور آپ کے اصحاب نے اس سے منع کیا ہے کیونکہ مسلم نے حضرت رافع بن خدیج ؓ سے یہ بھی روایت کیا ہے کہ انہوں نے بیان کیا : ہم رسول اللہ ﷺ کے عہد میں زمین کی کھیتی پکنے سے پہلے فروخت کردیتے تھے اور ہم زمین ثلث، ربع اور مقررہ اناج کے عوض کرائے پر دیتے تھے، پس ایک دن میرے چچاؤں میں سے ایک آدمی ہمارے پاس آیا اور اس نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ایسے معاملے سے منع کیا ہے جو ہمارے لئے باعث نفع تھا اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول معظم ﷺ کی اطاعت وفرمانبرداری ہمارے لئے زیادہ نفع بخش ہے اور آپ ﷺ نے ہمیں اس سے منع کیا ہے کہ ہم زمین کی کھیتی پکنے سے پہلے فروخت کردیں اور ہم زمین ثلث، ربع، اور مقررہ اناج کی شرط پر کرائے پر دیں اور آپ نے زمین کے مالک کو حکم دیا ہے کہ وہ خود کاشت کرے یا اسے مزارعت پر دے دے، اور آپ نے اس کے کرائے کو اور جو کچھ اس کے سوا ہے اسے ناپسند کیا ہے، انہوں نے کہا ہے : پس زمین کا کرایہ اناج میں سے کسی شے کے ساتھ جائز نہیں ہے کسی بھی حال میں چاہے وہ شے کھائی جانے والی ہو یا پی جانے والی، کیونکہ یہ طعام کے بدلے طعام ادھار بیچنے کے معنی میں ہے اور اسی طرح زمین کا کرایہ ان کے نزدیک اس شے سے دینا بھی جائز نہیں ہے جو زمین سے نکلے گی اگرچہ وہ کھایا اور پیا جانے والا طعام نہ بھی ہو، سوائے لکڑی، کا نے اور ایندھن کی لکڑی کے، کیونکہ ان کے نزدیک یہ بیع مزابنہ کے معنی میں ہے۔ (بیع مزابنہ سے مراد بغیر کیل اور وزن کے صرف اندازے کے ساتھ کسی شے کی بیع کرنا ہے) یہی وہ ہے جو امام مالک (رح) اور آپ کے اصحاب سے محفوظ ہے۔ اور ابن سحنون نے مغیرہ بن عبد الرحمن مخزومی مدنی سے بیان کیا ہے کہ انہوں نے کہا کہ زمین کو اس اناج کے عوض کرائے پر دینے میں کوئی حرج نہیں ہے جو اس سے نہ پیدا ہوتا ہو اور یحییٰ بن عمر نے مغیرہ سے روایت کیا ہے کہ وہ جائز نہیں ہے، جیسا کہ تمام اصحاب مالک (رح) کا قول ہے۔ اور ابن حبیب نے ذکر کیا ہے کہ ابن کنانہ کہتے تھے : زمین کو ایسے شے کے عوض کرائے پر نہیں دیا جائے گا کہ جب وہ شے زمین میں لوٹائی جائے تو وہ اگ پڑے، اور اس کے سوا تمام ایسی اشیاء کے عوض کرائے پر دینے کوئی حرج نہیں ہے جو کھائی جاتی ہوں اور ان کے عوض جو نہ کھائی جاتی ہوں چاہے وہ زمین سے پیدا ہوں یا نہ ہوں، اور اسی طرح یحییٰ بن یحییٰ نے بھی کہا ہے اور کہا ہے : بیشک یہ امام مالک (رح) کے قول میں سے ہے۔ (ابن حبیب نے) کہا ہے اور ابن نافع کہا کرتے تھے : زمین کو طعام وغیرہ میں سے ہر شے کے عوض کرائے پر دینے میں کوئی حرج نہیں ہے جو زمین سے پیدا ہو یا نہ پیدا ہو، ما سوائے گندم اور اس جیسی اجناس کے، کیونکہ یہ محاقلہ ہے جس سے منع کیا گیا ہے، (اور محاقلہ سے مراد کھیتی کو پکنے سے پہلے فروخت کردینا ہے۔ ) اور امام مالک (رح) نے الموطا میں کہا ہے وہ آدمی جو اپنی سفید زمین اس سے حاصل ہونے والی پیداوار کے ثلث اور ربع کے عوض دے دیتا ہے تو یہ اس میں سے ہے جس میں دھوکہ داخل ہے کیونکہ پیداوار ایک بار کم ہوتی ہے اور دوسری بار زیادہ ہوتی ہے اور بسا اوقات بالکل کچھی بھی نہیں ہوتا تو زمین کا مالک مقررہ کرایہ ترک کرنے والا ہوجائے گا، بیشک اس کی مثال اس آدمی کی مثل ہے جس نے کسی مزدور کو معین شے کے عوض سفر کے لئے اجرت پر لیا پھر مستاجر نے اجیر کو کہا : میں اپنے اس سفر سے جو نفع حاصل کروں گا اس کا دسواں حصہ تجھے دوں گا وہی تیرے لئے اجرت ہوگی، تو نہ یہ حلال ہے اور نہ اسے ایسا کرنا چاہیے۔ امام مالک (رح) نے کہا ہے کسی آدمی کو نہیں چاہیے کہ وہ اپنی ذات کو، اپنی زمین کو، اپنی کشتی اور اپنے جانور کو اجرت پر دے مگر ایسی معلوم شے کے عوض جو زائل اور ہلاک نہ ہو اور امام شافعی، امام ابوحنیفہ (رح) اور ان دونوں کے اصحاب رحمۃ اللہ علہیم بھی یہی کہتے ہیں۔ امام احمد بن حنبل، لیث ثوری، اوزاعی، حسن بن حی، امام ابو یوسف، اور امام محمد رحمۃ اللہ علہیم نے کہا ہے : کوئی حرج نہیں ہے کہ کوئی آدمی اپنی زمین کسی کو اس سے حاصل ہونے والی پیداوار کے ایک جز مثلا ثلث اور ربع وغیرہ کی شرط پر دے دے، یہی ابن عمر ؓ اور طاؤس (رح) کا قول ہے، اور انہوں نے خیبر کے واقعہ سے استدلال کیا ہے اور وہ یہ کہ رسول اللہ ﷺ نے وہاں کے باسیوں کو ہی اپنی زمینوں پر ان سے حاصل ہونے والی پیداوار اور پھلوں میں سے نصف کی شرط پر عامل مقرر کیا، امام احمد نے کہا ہے کہ کھیت کے کرائے سے نہی کے بارے میں حضرت رافع بن خدیج ؓ کی حدیث مضطرب الالفاظ ہے اور وہ صحیح نہیں ہے اور قصہ خیبر کے بارے قول اولی اور ارجح ہے اور وہ حدیث صحیح ہے۔ (1) (صحیح بخاری، باب اذا لم یشترط السنین فی المزارعۃ، حدیث نمبر 2161، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) تابعین کی ایک جماعت اور ان کے بعد آنے والوں نے اسے جائز قرار دیا ہے کہ آدمی اپنی کشتی سواری کسی کو دے جس طرح کہ وہ اپنی زمین اس جز کے بدلے دیتا ہے جو اس پیداوار میں سے ہو جو اللہ تعالیٰ اسے محنت کے سبب عطا فرمائے گا، اور انہوں نے اس میں اپنی اصل اور بنیاد اس مضاربت کو بنایا ہے جس پر اجماع ہے۔ اس کا بیان انشاء اللہ تعالیٰ سورة المزمل میں اس ارشاد کے تحت آئے گا : (آیت) ” واخرون یضربوں فی الارض یبتغون من فضل اللہ “۔ اور امام شافعی (رح) نے حضرت ابن عمر ؓ کے قول کے بارے کہا ہے کہ ہم بٹائی پر کھیتی کرتے تھے اور ہم اس میں کوئی حرج نہ دیکھتے تھے یہاں تک کہ ہمیں حضرت رافع بن خدیج ؓ نے خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے، یعنی ہم زمین اس سے حاصل ہونے والی پیداوار کے بعض کے عوض کرائے پر دیتے تھے، امام شافعی (رح) نے فرمایا : اس میں قصہ خیبر والی حدیث کا نسخ ہے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : جو شے امام شافعی (رح) کے نسخ کے بارے قول کو صحیح قرار دیتی ہے وہ وہ روایت ہے جسے ائمہ نے روایت کیا ہے اور الفاظ دارقطنی کے ہیں، حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے محاقلہ (پکنے سے پہلے کھیتی فروخت کردینا) مزابنہ (اندازے سے بیع کرنا) مخابرہ (بٹائی پر کھیتی کا کام کرنے) اور الثنایا (عقد بیع کے وقت مبیع میں سے مجہول شے کی اسثنا کردینا) سے منع فرمایا ہے مگر یہ کہ 0 جس شے کی استثناء کی گئی ہے) وہ معلوم ہو، یہ روایت صحیح ہے، اور ابو داؤد نے حضرت زید بن ثابت ؓ سے روایت بیان کی ہے (2) (سنن ابی داؤد، باب فی المغابرۃ، حدیث نمبر 2958، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) کہ انہوں نے فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے مخابرہ سے منع فرمایا ہے، میں نے پوچھا، مخابرہ کیا ہے ؟ انہوں نے فرمایا کہ تو زمین نصف یا تہائی یا چوتھائی پداوار کے عوض لے لے۔ مسئلہ نمبر : (38) یہ قراتوں کے بیان میں ہے۔ جمہور نے مابقی میں یا کو متحرک پڑھتا ہے اور حسن نے اسے سکون کے ساتھ پڑھا ہے اور اسی کی مثل جریر کا قول ہے : ھو الخلیفۃ فارضوا مارضی لکم ماضی العزیمۃ مافی حکمہ جنف۔ اور عمر بن ربیعہ نے کہا ہے : کم قد ذکرتک لو اجزی بذکرکم یا اشبہ الناس کل الناس بالقمر انی لاجدل ان امسی مقابلہ حبا لرؤیۃ من اشبھت فی الصور اس کی اصل ما رضی اور ان امسی ہے، اور انہوں نے انہیں سکون دیا ہے اور شعر میں ایسا کثرت سے ہوتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں یا کو الف کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے تو جس طرح الف پر حرکت نہیں آسکتی تو اسی طرح یہاں یا پر بھی حرکت نہیں آسکتی، اور اس لغت میں سے جس کی طرف دعوت دینا میں پسند کرتا ہوں اور میں چاہتا ہوں کہ میں تجھے اس کی نصیحت کروں وہ واؤ اور یا کو ساکن کرنا ہے حسن نے ما بقی الف کے ساتھ پڑھا ہے اور یہ لغت طی ہے وہ جاریہ کے لئے اجاراۃ اور ناصیۃ کے لئے ناصاۃ بولتے ہیں۔ اور شاعر کا قول ہے : لعمرک لا اخشے التصعلک مابقی علی الارض قیسی یسوق الاباعرا ابو السمال نے تمام قراء کے درمیان سے من الربوا “ را مشددہ کے کسرہ با کے ضمہ اور واؤ کے سکون کے ساتھ پڑھا ہے اور ابو الفتح عثمان بن جنی نے کہا ہے : دو اعتبار سے یہ حرف شاذ ہے، ایک تو اس اعتبار سے کہ اس میں کسرہ سے ضمہ کی طرف خروج ہے اور دوسرا اس اعتبار سے کہ اس میں اسم کے آخر میں ضمہ کے بعد واؤ واقع ہے اور مہدوی نے کہا ہے : اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے الف کو پر پڑھا ہے تو وہ اس سے اس واؤد کی طرف جھک گئی جس سے الف ہے اور سوائے اس وجہ کے کسی پر اسے محمول نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ کلام میں کوئی اسم نہیں جس کے آخر میں واؤ ساکن ہو اور اس سے پہلے ضمہ ہو، کسائی اور حمزہ نے الربا میں را میں کسرہ کے محل کی وجہ سے امالہ کیا ہے، اور باقیوں نے با کے فتحہ کی وجہ سے اسے تفخیم کے ساتھ پڑھا ہے۔ ابو بکر نے عاصم اور حمزہ سے ” فاذنوا “ پڑھا ہے یعنی تم آگاہ ہوجاؤ، (یہ کونوا علی اذن) یہ تیرے اس قول سے ہے : انی علی علم (میں جانتا ہوں) اسے ابو عبید نے اصمعی سے بیان کیا ہے، اور اہل لغت نے بیان کیا ہے کہ کہا جاتا ہے : اذنت بہ اذنا، ای علمت بہ، یعنی میں نے اس کے بارے جان لیا، اور مفسرین میں سے حضرت ابن عباس ؓ وغیرہ نے کہا ہے : (آیت) ” فاذنوا “ کا معنی ہے تو اللہ تعالیٰ کی جانب سے جنگ یقینی سمجھو، اور یہ بمعنی الاذن ہے اور ابو علی وغیرہ نے قراۃ المد کو ترجیح دی ہے اور کہا ہے : کیونکہ جب انہیں ان دوسروں کو خبردار کرنے کے بارے حکم دیا گیا جو اس سے آگاہ نہیں تو لامحالہ انہوں نے انہیں بتایا۔ مزید کہا : پس ان کے بتانے میں ان کا علم ہے اور ان کے علم میں ان کا اعلام (بتانا) نہیں ہے۔ اور علامہ طبری نے قراۃ القصر کو ترجیح دی ہے، کیونکہ یہ ان کے ساتھ مختص ہے، بیشک انہیں مد کی قرات پر اپنے سوا کو آگاہ کرنے کے بارے حکم دیا گیا ہے اور تمام قراء نے (آیت) ” لا تظلمون “ تا کے فتحہ کہ ساتھ اور ولا تظلمون “ تا کے ضمہ کے ساتھ قرات کی ہے اور مفضل نے عاصم سے لا تظلمون، ولا تظلمون یعنی پہلی میں تا کو ضمہ کے ساتھ اور دوسرے میں تاکہ فتحہ کے ساتھ روایت کیا ہے اور ابو علی نے کہا ہے، جماعت کی قرات ترجیح یافتہ ہے کیونکہ یہ (آیت) ” وان تبتم کے قول سے مناسبت رکھتی ہے ان میں کہ دونوں فعلوں کی اسناد فاعل کی طرف ہے اور تظلمون تاء کے فتحہ کے ساتھ بھی آتا ہے اور یہ اپنے ماقبل سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔
Top