Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 279
فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ١ۚ وَ اِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْ١ۚ لَا تَظْلِمُوْنَ وَ لَا تُظْلَمُوْنَ
فَاِنْ : پھر اگر لَّمْ تَفْعَلُوْا : تم نہ چھوڑو گے فَاْذَنُوْا : تو خبردار ہوجاؤ بِحَرْبٍ : جنگ کے لیے مِّنَ : سے اللّٰهِ : اللہ وَرَسُوْلِهٖ : اور اس کا رسول وَاِنْ : اور اگر تُبْتُمْ : تم نے توبہ کرلی فَلَكُمْ : تو تمہارے لیے رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْ : تمہارے اصل زر لَا تَظْلِمُوْنَ : نہ تم ظلم کرو وَلَا تُظْلَمُوْنَ : اور نہ تم پر ظلم کیا جائے گا
اگر تم نے ایسا نہ کیا تو پھر اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرنے کیلئے تیار ہوجاؤ اور اگر تم اپنی روش سے توبہ کرتے ہو تو پھر اپنا اصل زر لے لو اور زائد چھوڑ دو اس طرح نہ تم کسی پر ظلم کرو گے اور نہ تم پر ظلم کیا جائے گا
اگر ” الربوا “ کی رقم کو چھوڑنا مشکل ہے تو اللہ اور رسول سے جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ : 489: غور کرو قرآن کریم نے انسانی معاصی و جرائم کے متعلق طرح طرح کی وعیدیں فرمائی ہیں لیکن ” الربوا “ کے متعلق جو سخت وعید سنائی ہے وہ آپ نے سن لی اور اس سے سخت تر وعید اور کسی سخت سے سخت جرم و معصیت کی بھی نسبت نہیں آئی۔ اصل بات یہ ہے کہ انسان کا کوئی فعل طلب نفع اور غرض خویش سے خالی نہیں ہوتا یا کم ہی ہوتا ہے اور اس خود غرضی کا ایک بدترین ظہور جمع و حصول مال کی بھوک ہے۔ اگر غور سے دیکھیے تو عالم انسانیت میں اس مرض کا کوئی ظہور اس درجہ انسان کے ملکوتی فضائل کے لیے مہلک اور اس کی قوت بہیمی کے لیے اس سے زیادہ کوئی مقوی فعل نہیں ہے جتنا کہ ” الربوا “ کو لینا یہ ایسا بدترین فعل ہے کہ اسلام کی ہیئت اجتماعیہ اور پوری انسانیت کی صحت کے لیے سم قاتل ہے۔ یہ عالم انسانیت کا ایک خوفناک درندہ بنا دینے کے لیے کافی و وافی ہے۔ ” الربوا “ سے زیادہ بڑھ کر کوئی عمل السحر نہیں ہے ” الربوا “ اور ” الربوا خوری “ کی مختلف شکلیں اس پر کھلی شہادت پیش کر رہی ہیں۔ پھر اس نامراد بیماری سے جس جس طرح کے سوتے پھوٹتے ہیں اس کا مسلسل ذکر آپ پڑھتے آ رہے ہیں۔ یہ معاشرہ اسلامی کے لیے سرطان کے نامراد مرض سے کچھ کم نہیں۔ جو اس کی زد میں ایک بار آیا وہ زندگی میں مشکل ہی سے اس سے نجات حاصل کرسکا۔ یقیناً تمام انسانی گناہوں میں صرف یہی وہ معصیت ہے جس کو ” بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ 1ۚ “ کہا گیا ہے کیونکہ اور سی معصیت میں انسان اللہ کے بندوں کے لیے اس درجہ بےرحم اور خونخوار نہیں ہوجاتا جس درجہ ” الربوا “ کو اپنا وسیلہ معاش بنا لینے کے بعد ازسرتاپا مجسمہ شقاوت و قساوت اور بہیمی قوتوں کا مجمسہ بن جاتا ہے اور اللہ کے بندوں کے آگے بےرحمی سے مغرور ہونا فی الحقیقت خدائے قدوس کے آگے مغرور ہو کر آمادئہ جنگ و پیکارہونا ہے۔ ایک شخص چور ہے ، ڈاکو ہے ، قاتل ہے تو قانون اس کو سزا دے گا اور انسانی آبادی اس سے پناہ مانگے گی لیکن ایک الربوا خور کہتا ہے کہ ” اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا 1ۘ “ گویا اس نے ایک تجارت کی دکان کھول دی ہے اور ضرورت و احتیاج پہلے ہی وہ چیز ہے جو انسان کے ہوش و حواس معطل کردیتی ہے۔ ڈاکو سے انسان بھاگتا ہے مگر مظلوم ، قرضدار خود دوڑ کر اس کے پاس جاتا ہے۔ پس فی الحقیقت قتل و غارت کسی قانون اور مذہب کے لیے اس درجہ سختی کی مستحق نہیں ، جس قدر ” الربوا “ اور الربوا خوری کی مہیب زندگی ، پھر کیا ” بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ 1ۚ“ سے اس کی تعبیر صحیح نہیں ہے۔ دنیا میں خودغرضی کے جس قدر اعمال کیے جاتے ہیں ، ان میں سے کسی میں بھی اس درجہ استمرار اور مداومت نہیں جیسی اس کاروباری بےرحمی میں۔ الربوا خور کا عمل ظلم دائمی اور انسانی عمروں ، خاندانوں اور نسلوں تک جاری رہتا ہے اور وہ اس جس شکار کو پکڑتا ہے اس کی بےکسی اور مظلومی کا نظارہ برسوں تک دیکھتا رہتا ہے اور جب تک ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس کے تڑپنے ، لوٹنے اور کر اہنے کے نظارہ کا تحمل اپنے اندر نہ پیدا کرے وہ الربوا خور نہیں بن سکتا۔ اس لیے صرف اور صرف اس معصیت کو ” بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ 1ۚ “ سے تعبیر کیا ہے۔ ہاں ! اگر توبہ وانابت الیٰ اللہ کر کے آئندہ ” الربوا “ کو بالکل ترک کردینے کا عہد کرلے تو اپنا رأس المال لینے میں کوئی گناہ نہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ربا کی ہر شاخ کو حرام قرار دیا اور الربوا خوروں کو اس کے نتائج المیہ سے ڈرایا لیکن افسوس کہ مسلمان کہلوانے والوں نے ” الربوا “ کی نت نئی صورتیں وضع کرنا شروع کردیں اور سب سے بڑھ کر تعجب یہ ہوا کہ ” الربوا “ حرام ، ” الربوا “ حرام کا شور کرنے والوں نے خود ” الربوا “ کی ایسی ایسی صورتیں ایجاد کرلیں کہ پہلے الربوا خوروں کو وہ شکست دے گئے۔ کیونکہ انہوں نے اپنے ” الربوا “ کو پاکیزہ بنا لیا اور اپنی دکانداریوں کو خانقاہوں ، مقدس مقاموں اور مسجد کے حجروں میں سجایا اور بغیر ہلدی ، پھٹکڑی کے کروڑوں کمانے شروع کردیئے اور بلّی سو چوہے کھانے کے بعد پھر پاک کی پاک اور صاف کی صاف رہی۔ زیر نظر آیت فتح مکہ کے بعد نازل ہوئی اور مضمون کی مناسبت سے اس سلسلہ کلام میں داخل کردی گئی یعنی موجودہ ترتیب میں اس کو اس جگہ رسول اللہ ﷺ نے حکم الٰہی سے رکھوا دیا۔ اس کے نزول سے قبل اگرچہ ” الربوا “ ایک ناپسندیدہ فعل سمجھا جاتا تھا مگر قانوناً اسے بند نہیں کیا گیا تھا۔ اس آیت کے نزول کے بعد اسلامی حکومت کے دائرے میں سودی کاروبار ایک فوجداری جرم بن گیا۔ عرب کے جو قبیلے الربوا کھاتے تھے اور جو افراد بھی اس بیماری میں مبتلا تھے ان سب کو نبی کریم ﷺ نے اپنے اعمال کے ذریعے سے آگاہ فرما دیا کہ اگر اب وہ اس لین دین سے باز نہ آئے تو ان کے خلاف جنگ کی جائے گی۔ نجران کے عیسائیوں کو جب اسلامی حکومت کے تحت اندرونی خودمختاری دی گئی تو معاہدے میں یہ تصریح کردی گئی کہ اگر تم الربوا کا کاروبار کرو گے تو معاہدہ فسخ ہوجائے گا اور ہمارے اور تمہارے درمیان حالت جنگ قائم ہوجائے گی۔ آیت کے آخری الفاظ کی بناء پر کہ ” اِنْ تُبْتُمْ “ بعض صحابہ رضوان اللہ علیہم کی رائے یہ ہے کہ جو شخص دارالاسلام میں ” الربوا “ کھائے اسے توبہ پر مجبور کیا جائے اور اگر باز نہ آئے تو آخر الکلام اس کو ختم کردیا جائے اور بعض کی رائے یہ ہے کہ اسے قید کردیا جائے اور جب تک وہ ” الربوا “ خوری چھوڑ دینے کا عہد نہ کرے اسے قید سے رہا نہ کیا جائے۔ امام احمد نے اپنی مسند میں اور دارقطنی نے عبداللہ بن حنظلہ سے روایت کیا ہے کہ : ” درہم ربوا یاکلہ الرجل وھو یعلم اشد من ستۃ و ثلثین زینۃ “ جو شخص معلوم ہونے کے باوجود ” الربوا “ کا ایک درہم کھاتا ہے اس کو چھتیس بغایا کی اجرت کھانے والے سے بھی زیادہ گناہ ہوتا ہے۔ ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ (قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ ۔ الرِّبَا سَبْعُونَ حُوبًا أَیْسَرُهَا أَنْ یَنْکِحَ الرَّجُلُ أُمَّهُ ) (ابن ماجہ : 432) ” الربوا کے گناہ کے ستّر اجزاء ہیں اور ان میں سے ادنیٰ ترین جزء یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی ماں سے نکاح کرے۔ “ یہ ایک محاورہ ہے جو عربوں میں عام بولا جاتا ہے جبکہ کوئی شخص وہ کام کرے جس سے اس کو منع کیا گیا ہو۔ اس محاورہ میں نکاح کا ترجمہ ” زنا “ کرنا ایک ادبی غلطی ہے۔ توبہ کے ” الربوا “ کو چھوڑ دو اور اصل زر اگر موجود ہے تو وصول کرلو یہ تمہارے حق میں بڑی رعایت ہے : 490: اگر تم توبہ کرلو اور آئندہ کے لیے ” الربوا “ کی بقایا رقم چھوڑنے کا عزم کرلو تو تمہیں تمہارے اصل زر یعنی رأس المال مل جائیں گے۔ نہ تم اصل زر سے زائد حاصل کر کے کسی پر ظلم کرنے پاؤ گے اور نہ کوئی اصل زر میں کمی یا پورے کا پورا غصب کر کے تم پر ظلم کرنے پائے گا۔ اس میں اصل زر واپس دینے کو اس شرط کے ساتھ مشروط کیا ہے کہ تم توبہ کرلو اور آئندہ کو ” الربوا “ چھوڑ دو ، تب اصل زر ملے گا ورنہ اصل زر بھی بحق سرکار ضبط ہوجائے گا۔ جس کی تفصیل یہ ہے کہ اگر مسلمان ہونے کے باوجود ” الربوا “ کو حرام ہی نہ سمجھے اور ” الربوا “ لیتا رہے یعنی ” الربوا “ باقاعدہ وصول کرتا رہے تو اس حرکت سے وہ شخص اسلام سے خارج ہوگیا اور اس پر ارتداد کا قانون نافذ ہوجائے گا اور اس کی ایک سزا اس کو یہ بھی ملے گی کہ اصل زر بھی ضبط کرلیا جائے گا جو بیت المال میں جمع ہوگا۔ اگر وہ عملاً باز بھی نہیں آتا اور اسلامی حکومت کے خلاف کسی قسم کی تحریک اٹھاتا ہے اور مقابلہ کرتا ہے تو وہ باغی ہے اور اس پر بغاوت کا مقدمہ چلے گا اور اس کی کُل جائیداد بھی بیت المال میں داخل کردی جائے گی جو بطور امانت ہوگی۔ جب وہ توبہ کرے گا تو اس کا مال اس کو واپس دیدیا جائے گا اور یہ کام حکومت اسلامی سر انجام دے گی افراد کو یہ حق نہیں کہ وہ اپنی طرف سے قانون نافذ کرنا شروع کردیں اور سب حدود اللہ میں یہی حکم ہے۔
Top