Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 279
فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ١ۚ وَ اِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْ١ۚ لَا تَظْلِمُوْنَ وَ لَا تُظْلَمُوْنَ
فَاِنْ : پھر اگر لَّمْ تَفْعَلُوْا : تم نہ چھوڑو گے فَاْذَنُوْا : تو خبردار ہوجاؤ بِحَرْبٍ : جنگ کے لیے مِّنَ : سے اللّٰهِ : اللہ وَرَسُوْلِهٖ : اور اس کا رسول وَاِنْ : اور اگر تُبْتُمْ : تم نے توبہ کرلی فَلَكُمْ : تو تمہارے لیے رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْ : تمہارے اصل زر لَا تَظْلِمُوْنَ : نہ تم ظلم کرو وَلَا تُظْلَمُوْنَ : اور نہ تم پر ظلم کیا جائے گا
پس اگر تم نہ کرو تو جنگ کا اعلان سن لو اللہ کی طرف سے اور اس کے رسول کی طرف سے، اور اگر تم توبہ کرلو تو تمہارے لیے اصل مال ہیں نہ تم ظلم کرو گے نہ تم پر ظلم کیا جائے گا۔
سود خوروں کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعلان جنگ اس آیت کا سبب نزول بیان کرتے ہوئے علماء تفسیر نے نقل کیا ہے کہ قبیلہ بنی ثقیف کے چار آدمی جو آپس میں بھائی بھائی تھے بنی مغیرہ سے سود کا معاملہ کرتے تھے یعنی بنی مغیرہ کو سود پر قرض دیتے تھے۔ جب طائف پر رسول اللہ ﷺ کا غلبہ ہوگیا (اور طائف اسلامی علاقہ میں داخل ہوگیا) تو یہ چاروں بھائی بھی مسلمان ہوگئے، انہوں نے بنی مغیرہ سے اپنا سود طلب کیا تو بنی مغیرہ نے کہا کہ اللہ کی قسم ہم اسلام قبول کرنے کے بعد سود نہیں دیں گے جبکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو ختم فرما دیا ہے، یہ قضیہ حضرت عتاب بن اسید ؓ کی خدمت میں پیش ہو جو مکہ معظمہ پر رسول اللہ ﷺ کی طرف سے عامل یعنی حاکم تھے۔ انہوں نے پورا واقعہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لکھ کر بھیج دیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ شانہ نے آیت نازل فرمائی، سودی مال بہت زیادہ تھا۔ آیت شریفہ سن کر ان لوگوں نے اپنا سود چھوڑ دیا۔ آیت شریفہ میں باقی سود چھوڑنے کا حکم فرمایا اور یہ بھی فرمایا کہ تم اصلی مال لے سکتے ہو، نیز یہ بھی فرمایا کہ اگر تم سود چھوڑنے کو تیار نہیں ہو تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلان جنگ سن لو، یہ بات سن کر لوگوں نے کہا کہ ہمیں اللہ سے مقابلہ کی کہاں طاقت ہے ؟ کس کے بس کی بات ہے جو اللہ سے جنگ کرے ؟ ہم اپنا سود چھوڑتے ہیں۔ آیت کا سبب نزول ہم نے اس لیے ذکر کیا کہ کوئی ایسا شخص جو مسلمان ہے اور اس نے سود پر قرضے دے رکھے ہیں اور بہت سے سود وصول بھی کر رکھے ہیں وہ آیت کا مطلب یہ نہ نکال لے کہ جو سود میں نے اب تک لیا ہے وہ میرے لیے حلال ہے باقی سود چھوڑ دیتا ہوں اور اصل مال لے لیتا ہوں، آیت میں ان لوگوں کا ذکر ہے جن لوگوں نے زمانہ کفر میں سود پر قرضے دئیے تھے اور بہت سا سود قرض داروں سے وصول کرچکے تھے، وہ اسلام قبول کرنے کے بعد بھی باقی سود وصول کرنا چاہتے تھے ان کو حکم فرمایا کہ جو سود باقی ہے اس کو چھوڑ دو ۔ جو کوئی مسلمان سود پر قرضے دے کر سود وصول کرچکا ہو اس کا حکم اس آیت میں مذکور نہیں ہے، اگر کسی مسلمان نے سود لیا ہے اگرچہ سود دینے والے نے خوشی سے دیا ہے تو اس کا واپس کردینا واجب ہے، اگر یاد نہ رہا ہو کہ کس کس سے لیا ہے تو جتنا مال سود کا وصول کیا تھا اس کا صدقہ کردینا واجب ہے، جن لوگوں نے سودی قرضے دے رکھے ہیں وہ تو بہ کریں کہ سود وصول نہ کریں گے اگر توبہ نہیں کرتے تو اپنا انجام سوچ لیں کیونکہ اللہ تعالیٰ سے جنگ کرنا ہے اور اس کی گرفت و عذاب سے نڈر ہوجانا ہے جو اموال سود کے طور پر لے چکے ہیں ان کو واپس کریں جن سے سود لیا ہے البتہ اپنا حاصل مال وصول کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ سود لے کر ظلم نہ کریں، اور جن لوگوں پر قرضے ہیں وہ اصل مال روک کر قرض دینے والوں پر ظلم نہ کریں۔ بنکوں میں جو رقمیں رکھتے ہیں اور ان پر سود لیتے ہیں یہ سخت حرام ہے اگرچہ ان کا نام نفع رکھ لیں۔ توبہ کریں اور وہاں سے اپنا اصلی مال لے لیں، نام رکھنے سے حقیقت نہیں بدل جاتی اور سود کا نام نفع رکھنے سے نفع نہیں ہوجاتا، جو لوگ سود کا نام نفع رکھ لیتے ہیں اور پھر سود لیتے رہتے ہیں ان کا قول انہی لوگوں کے قول کے مطابق ہوجاتا ہے جنہوں نے (اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبوٰ ) کہ تھا۔ اللہ پاک نے ان کی تردید فرمائی اور (وَ اَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰوا) فرمایا، جب کسی چیز کا رواج ہوجاتا ہے وہ خواہ کیسی ہی بری چیز ہو اس کی قباحت اور شناعت دلوں سے اٹھ جاتی ہے۔ جب سے بینکوں کا سلسلہ چلا ہے لوگ بینکوں سے سود لینے کے خوگر ہوگئے ہیں اور اس کی قباحت دلوں سے جاتی رہی ہے اور سود کو حلال کرنے کے لیے کہتے ہیں کہ صاحب بینک والے ہمارے پیسوں سے تجارت کرتے ہیں نفع کماتے ہیں ہمیں بھی انہوں نے اگر نفع میں شریک کرلیا تو کیا ہوا ؟ یہ ان کی جہالت و گمراہی کی بات ہے۔ وہ بینک تجارت تو کرتا ہے، اور تمہارے پیسوں سے کرتا ہے لیکن تم نے بینک کو مال مضاربت کے اصول پر نہیں دیا، تمہیں فی صد ایک متعین رقم مل جاتی ہے۔ شرعی اصول سے یہ سود ہے، باتوں کی ہیرا پھیری سے سود حلال نہ ہوگا۔ فائدہ : جو شخص سود نہ چھوڑے اس کے لیے اللہ پاک نے اپنی طرف سے اور اپنے رسول ﷺ کی طرف سے اعلان جنگ فرمایا، اس طرح کا مضمون ان لوگوں کے بارے میں بھی آیا ہے جو اللہ کے دوستوں سے دشمنی کریں، صحیح بخاری میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : (اِنَّ اللّٰہ تَعَالیٰ قَالَ مَنْ عَادٰی لِیْ وَلِیًّا فَقَدْ اَذَنْتُہٗ بالْحَرْبِ ) (کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص میرے کسی دوست سے دشمنی کرے تو اس سے میں جنگ کا علان کرتا ہوں) ۔ اور ایک حدیث میں ارشاد ہے۔ من عادٰی للّٰہ ولیا فقد بارز اللّٰہ بالمحاربۃ (مشکوٰۃ المصابیح ص 455 ازابن ماجہ والبیہقی فی شعب الایمان) یعنی جس نے اللہ کے کسی ولی سے دشمنی کی وہ اللہ سے جنگ کرنے کے لیے میدان میں آگیا، شراح حدیث نے لکھا ہے کہ یہی دو گناہ ایسے ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں ان کا ارتکاب کرنے والوں سے اعلان جنگ کرتا ہوں اور یہ دونوں گناہ ایسے ہیں جو آج کل بہت زیادہ رواج پا گئے ہیں۔ سود کا لین دین بھی بہت ہو رہا ہے۔ اور جو اولیاء اللہ ہیں اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع ہوتے ہیں۔ عبادت و تلاوت میں لگے رہتے ہیں قرآن و حدیث کے علوم پڑھتے ہیں۔ دینی علوم و اعمال کی طرف بلاتے ہیں دین کے لیے محنتیں کرتے ہیں۔ ان لوگوں سے دشمنی کی جاتی ہے۔ ان حالات میں اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے امید وار بھی ہیں جس سے لڑائی ہے اس سے امید رحمت کیسی ناسمجھی کی بات ہے۔
Top