Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - Al-Baqara : 279
فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ١ۚ وَ اِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْ١ۚ لَا تَظْلِمُوْنَ وَ لَا تُظْلَمُوْنَ
فَاِنْ
: پھر اگر
لَّمْ تَفْعَلُوْا
: تم نہ چھوڑو گے
فَاْذَنُوْا
: تو خبردار ہوجاؤ
بِحَرْبٍ
: جنگ کے لیے
مِّنَ
: سے
اللّٰهِ
: اللہ
وَرَسُوْلِهٖ
: اور اس کا رسول
وَاِنْ
: اور اگر
تُبْتُمْ
: تم نے توبہ کرلی
فَلَكُمْ
: تو تمہارے لیے
رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْ
: تمہارے اصل زر
لَا تَظْلِمُوْنَ
: نہ تم ظلم کرو
وَلَا تُظْلَمُوْنَ
: اور نہ تم پر ظلم کیا جائے گا
لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا ، تو آگاہ ہوجاؤ کہ اللہ اور رسول کی طرف سے تمہارے خلاف اعلان جنگ ہے ۔ اب بھی توبہ کرلو اور سود چھوڑدو تو اپنا اصل سرمایہ تم لینے کے حق دار ہو نہ تم ظلم کرو ، نہ تم پر ظلم کیا جائے۔ “
اسلام نے ان لوگوں کے حق میں وہ سودی منافع چھوڑ دیا جو وہ کھاچکے تھے ۔ یہ فیصلہ نہ کیا کہ کھایا ہوا سود بھی ان سے لوٹایا جائے ۔ نہ اسلام نے ان کی تمام یا کچھ جائیداد کو ضبط کرنے کا حکم دیا ۔ اس سبب سے کہ ان کے کاروبار میں سود شامل تھا ۔ اس لئے کہ اسلام میں کوئی بات حرام نہیں قرار پاتی جب تک اسے اللہ تعالیٰ حرام قرارنہ دیں ۔ بغیر قانون سازی کے کوئی حکم نہیں دیا جاسکتا ۔ اور قانون کا مزاج یہ ہے کہ وہ اپنے آثار اپنے نفاذ کے بعد ظاہر کرتا ہے ۔ جو گزرچکا سو گزرچکا ۔ گزرے ہوئے معاملات اللہ کے سپرد ہیں ۔ ان پر قانونی احکام کا اطلاق نہیں ہوتا ۔ اس طرح اسلام نے سوسائٹی کو ایک بڑے دھماکہ خیز اقتصادی اور اجتماعی بحران سے بچالیا ۔ اگر اس قانون کا موثر بماضی قرار دیا جاتا تو ایک بہت بڑا بحران پیدا ہوجاتا ۔ یہ وہ اصول ہے جسے جدید قانونی نظام نے حال ہی میں اپنایا ہے ۔ اس لئے کہ اسلام میں قانون سازی اس لئے کی جاتی ہے کہ اس کی وجہ سے انسان کی واقعی اور زندگی کی اصلاح ہو۔ وہ اسے صحیح راستے پر ڈالے ، اسے گندگیوں سے پاک کرے ، اسے ناجائز بندھنوں سے آزاد کرے تاکہ وہ ترقی کرے اور اس کا معیار بلندہو ، اس کے ساتھ ساتھ اسلام نے اہل ایمان کے ایمان کو اس بات پر موقوف کردیا کہ وہ تب ہی مومن ہوں گے جب وہ اس قانون سازی کو قبول کریں ۔ وہ نازل ہوتے ہی اور علم میں آتے ہی اسے اپنی زندگیوں میں نافذ کردیں ۔ اور اس کے ساتھ ساتھ اسلام ان کے دلوں میں خوف اللہ اور تقویٰ بھی پیدا کرتا ہے ۔ تقویٰ کا شعور ہی وہ گارنٹی ہے جس کے ذریعہ اسلام اپنے قوانین نافذ کراتا ہے ۔ یہ وہ گارنٹی ہوتی ہے جو خود اہل ایمان کے نفس کے اندر پیدا ہوتی ہے ۔ یہ اندر کا چوکیدار ہوتا ہے اور اسلام میں اس کا درجہ ان گارنٹیوں اور چوکیداروں سے اونچا ہے جو کسی قانون کو روایتی طور پر حاصل ہوتا ہے ۔ اس لئے اسلامی قوانین کو نفاذ کے لئے وہ گارنٹی اور نگرانی حاصل ہوتی ہے جو جدید دور کے وضعی قوانین کو حاصل نہیں ہوتی ، اس لئے کہ یہ قوانین صرف خارجی دباؤ کی وجہ سے نافذ ہوتے ہیں ۔ اور یہ بات پوشیدہ نہیں کہ خارجی نگران کو کس خوبی سے جل دی جاسکتی ہے ۔ ایسے حالات میں جب انسان کے ضمیر کے اندر کوئی چوکیدار نہ بیٹھا ہو یعنی اللہ خوفی اور رضائے الٰہی کا نگران ۔ یہ تو تھی ترغیب اس بات کی کہ ربا کو ترک کردو ، لیکن اس کے ساتھ ساتھ دھمکی اور ترہیب بھی آتی ہے ۔ اور یہ دھمکی اس قدر شدید ہے کہ اس سے دل دہل جاتے ہیں ۔ فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ........ ........ ” اگر تم نے ایسا نہ کیا تو آگاہ ہوجاؤ کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے تمہارے خلاف اعلان جنگ ہے ۔ “ اللہ کی پناہ ! اور اس کے رسول کی جانب سے اعلان جنگ ! یہ ایسی جنگ ہے ، جو نفس انسانی کو درپیش ہے ۔ خوفناک جنگ ہے ۔ جس کا انجام بالکل سامنے ہے ۔ جس میں بشر کو شکست سے دوچار ہونا ہی ہے ۔ انسان فانی اور ضعیف ہے ۔ وہ اللہ تعالیٰ کی قوت جابرہ کا کیا مقابلہ کرے گا جو آن واحد میں سب کچھ بھسم کرکے رکھ دے گی ۔ اور اس کا نام ونشان مٹادے گی ۔ ان آیات کے نزول کے بعد ، رسول اکرم ﷺ نے حاکم مکہ کو حکم دیا کہ وہ مکہ کے آل مغیرہ کے ساتھ جنگ کریں ، اس لئے کہ وہ ان آیات کے نزول کے بعد بھی سودی کاروبار سے باز نہ آئے تھے ۔ فتح مکہ کے دن رسول اللہ ﷺ نے اپنے خطبے میں جاہلیت کے دور کے تمام سودی قرضوں کو ختم کردیا تھا ۔ اور آپ نے فرمایا سب سے پہلے میں اپنے چچا عباس ؓ کے قرضے کو معاف کرتا ہوں ۔ اور یہ بوجھ قرضداروں پر اسلام کے آنے کے بعد ایک عرصہ تک رہا ۔ لیکن جب اسلامی معاشرہ پختہ ہوگیا ۔ اور اس کی بنیادیں مضبوط ہوگئیں اور وقت آگیا کہ علاقے کے اقتصادی نظام کو اصول ربا سے ہٹا کر صحیح اسلامی اصولوں سے استوار کیا جائے تو اسلام نے یہ قدم اٹھایا ۔ اس موقع پر رسول ﷺ نے فرمایا۔ ” جاہلیت کے دور کا تمام سود میرے ان دونوں پاؤں کے نیچے ہے اور سب سے پہلا سودی قرضہ جسے میں موقوف کرتا ہوں وہ عباس کا سود ہے ۔ “ اس کے ساتھ ساتھ آپ لوگوں کو یہ تلقین بھی فرماتے کہ دورجاہلیت میں انہوں نے جو سود وصول کیا اسے واپس کردیں ........ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی حکومت کا فریضہ ہے کہ وہ ان لوگوں کے ساتھ جنگ کرے جو سودی اقتصادیات کو جاری رکھنے پر مصر ہیں ۔ اور جو اللہ کے حکم کی نافرمانی کرتے ہیں ۔ اگرچہ ایسے لوگ یہ اعلان کریں کہ وہ مسلمان ہیں ۔ حضرت ابوبکر ؓ نے مانعین زکوٰۃ کے خلاف جنگ اسی اصول کے تحت کی تھی حالانکہ وہ لاالٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ یعنی کلمہ پڑھتے تھے ۔ نماز ادا کرتے تھے ۔ اس لئے جو شخص شریعت کی اطاعت کا انکار کردے اور اسے اپنی زندگی میں نافذ نہ کرے وہ مسلم نہیں رہتا ۔ یہاں یہ بات پیش نظر رہے کہ اللہ اور رسول اللہ کی جانب سے سود خوروں کے خلاف اعلان جنگ توپ وتفنگ کی جنگ سے عام ہے ۔ جو ایک امام وقت کسی قوت کے خلاف کرتا ہے۔ یہ اعلان جنگ ، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہر اس معاشرے کے خلاف ہے جو اپنے اقتصادی نظام کی اساس سود پر رکھتاہو ، یہ جنگ ہمہ گیر اور خوفناک جنگ ہے ۔ یہ اعصاب کی جنگ ہے ۔ یہ دلوں کی جنگ ہے ۔ یہ خیر و برکت اور خوشحالی کے خلاف ربا کی جنگ ہے ۔ یہ سودی نظام کی جانب سے انسانیت کی سعادت اور خوشحالی اور اطمینان کے خلاف جنگ ہے ۔ یہ انسان کی کشاکش اور ایک دوسرے کے تعاقب کی جنگ ہے ۔ آخرکار یہ جنگ اقوام اور امم کے درمیان افواج اور اسلحہ کی جنگ ہے ۔ یہ ایک ہمہ گیر اور تباہ کن جنگ ہے اس کرہ ارض پر اس لئے برپا ہوتی ہے کہ یہاں کا نظام اصول ربا پر مبنی ہوجاتا ہے ۔ اور جس کی وجہ سے اس زمین سے خیر و برکت ختم ہوکر رہ جاتی ہے اور خوشحالی ناپید ہوجاتی ہے ۔ یہ تمام جنگیں اور کشمکشیں ان سرمایہ داروں کی جانب سے برپا کی جاتی ہیں جو پوری دنیا کے سرمایہ پر قابض ہوتے ہیں ۔ اور ان جنگوں کے شعلے بھڑکاتے ہیں ۔ کبھی وہ یہ کام براہ راست کرتے ہیں اور کبھی بالواسطہ کرتے ہیں۔ وہ اپنے دام تزویر میں کارخانوں اور کمپنیوں کو پھانس لیتے ہیں ۔ اس کے بعد اقوام اور حکومتیں ان کے دام میں شکار ہوتی ہیں ۔ اس کے بعد یہ حکومتیں ، اپنے شکار پر جھپٹتی ہیں اور یوں ان کے درمیان جنگ شروع ہوجاتی ہے ۔ کبھی یہ حکومتیں اپنے مفادات اور سرمائے کو بچانے کے لئے دوڑتی ہیں اور اپنی فوجی قوت میدان میں لاتی ہیں اور یوں میدان جنگ کے شعلے بھڑک ہیں ۔ بعض اوقات یوں ہوتا ہے کہ عوام الناس ٹیکس اور حکومتی واجبات ادا کرنے سے قاصر ہوجاتے ہیں ۔ عوام میں غربت عام ہوجاتی ہے ۔ محنت کار اور جفاکش لوگ تنگ آکر ایسی تحریکات سے وابستہ ہوجاتے ہیں جن کا مشن تخریب کاری اور تباہی پھیلانا ہوتا ہے ۔ اور یوں کسی بھی علاقے میں عوامی جنگ شروع ہوجاتی ہے ۔ اور اس سودی نظام کے تحت جو کشمکش برپا ہوتی ہے۔ اس کے عام بسہولت برآمدہونے والے نتائج یہ ہوتے ہیں کہ لوگوں کے نفوس خراب ہوجاتے ہیں ۔ اخلاقی تباہی پھیل جاتی ہے ۔ لوگوں میں عیاشی پیدا ہوجاتی ہے ۔ اور انسانیت کا ڈھانچہ تباہ ہوکر رہ جاتا ہے۔ اور انسان کی روحانی دنیا ایسی تباہی کا شکار ہوتی ہے کہ اس جیسی تباہی انسان کے جسم کو کسی ایٹمی جنگ سے بھی نہیں پہنچ سکتی ۔ یہ جنگ جس کا اعلان سودی کاروبار کرنے والوں کے خلاف کیا گیا ہے ۔ ہر وقت اس کے شعلے بلندہوتے ہیں ۔ آج بھی یہ ہر طرف برپا ہے ۔ گم کردہ راہ انسانیت کا رطب دیا بس اس کی نظر ہورہا ہے ۔ لیکن یہ انسانیت اس کو سمجھنے سے قاصر ہے ۔ انسانیت یہ سمجھ رہی ہے کہ وہ دولت کمارہی ہے ۔ وہ ترقی کررہی ہے ۔ وہ بڑی کثرت سے مادی نتائج پیدا کررہی ہے ۔ متنوع مصنوعات تیار ہورہی ہیں ۔ لیکن یہ پیداوارہی اس کے لئے تباہی ہے ۔ یہی پیداوار اگر کسی پاک اور غیر سودی نظام سے ہوتی تو یہ انسانیت کیلئے نیک بختی اور خوشحالی کا سبب ہوتی ۔ لیکن یہ پیداوار سود کے ناپاک اور آلودہ نظام کے نتیجے میں سامنے آتی ہے ۔ اس لئے یہ انسانیت کے لئے ایک ایسا بوجھ ہے جس کے نتیجے میں انسانیت کا دم گھٹ رہا ہے ۔ جبکہ سود خوروں کا علمی گروہ عیش و آرام سے زندگی بسر کررہا ہے ۔ اور اسے اس پوری انسانیت کی مصیبتوں اور رنج والم کا کوئی احساس ہی نہیں ہورہا ہے ۔ اسلام نے پہلی اسلامی جماعت کو اس بات کی دعوت دی اور آج پوری انسانیت کو اس بات کی دعوت دے رہا ہے کہ وہ پاک و صاف ذریعہ آمدن اختیار کریں اور وبائی سودی نظام سے تائب ہوکر راہ راست اختیار کریں وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لا تَظْلِمُونَ وَلا تُظْلَمُونَ................ ” اب بھی توبہ کرلو تو اپنا اصل سرمایہ لینے کے تم حق دار ہو ۔ نہ تم ظلم کرو نہ تم پر ظلم کیا جائے ۔ “ یہ ایک معصیت سے توبہ ہے ، ایام جاہلیت میں رائج خطاکاری سے رجوع ہے ۔ اور جاہلیت کا تعلق کسی خاص زمانے سے نہیں ہوتا یا کسی خاص نظام ہی پر جاہلیت کا اطلاق نہیں ہوتا۔ جاہلیت کی حقیقت یہ ہے انسان الٰہی نظام زندگی سے منحرف ہوجائے جب بھی یہ انحراف ہو اور جہاں بھی ہو ، وہ جاہلیت ہوگی ۔ ربا ایک ایسی خطاکاری ہے جس کے اثرات انسان کے تصور حیات ، انسان کے اخلاق اور انسان کے شعور پر چھاجاتے ہیں ۔ پھر اس کے اثرات سوسائٹی پر اور سوسائٹی کے اجتماعی تعلقات پر پڑتے ہیں ۔ پوری انسانی زندگی پر اس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ اقتصادی نشوونما اور ترقی پر اس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں اگرچہ وہ لوگ جو سودی کاروبار کرنے والوں کے جھانسے میں آچکے ہیں ، یہ سمجھتے ہیں کہ سودی نظام اقتصادیات وہ واحد نظام ہے جو نشوونما اور اقتصادی ترقی کا اہل اور سبب ہے۔ صرف اصل زر کی واپسی کا حق دینا ایک ایسا قاعدہ ہے جس کی رو سے نہ قرض دہندہ کو نقصان ہے اور نہ ہی قرض گیرندہ پر ظلم ہے ۔ رہی یہ بات کہ دولت میں اضافہ کیسے کیا جائے گا تو اس کے وسائل وذرائع علیحدہ ہیں ۔ جو ربا سے پاک وصاف ہیں ۔ اس کا پہلا ذریعہ ایک فرد کی ذاتی جدوجہد ہے ۔ دوسرا ذریعہ بطریقہ مضاربت باہم شراکت اموال ہے ۔ یعنی ایک شخص سرمایہ فراہم کرے اور دوسرا اس کے ساتھ کاروبار کرے اور دونوں فائدے اور نقصان میں شریک ہوں ۔ نیز اقتصادی ترقی ان کمپنیوں کے ذریعہ بھی ممکن ہوگی جو اپنے حصص براہ راست بازار حصص میں فروخت کرتی ہیں ۔ (ماسوائے تاسیسی سندات کے جن کے ذریعہ زیادہ نفع سمیٹ لیا جاتا ہے۔ ) اور حلال اور جائز کاروبار سے منافع حاصل کرتی ہیں ۔ پھر ایسی رقومات سے بھی اقتصادی ترقی ممکن ہوگی جو بغیر منافع کے محض امانت کے طور پر بینکوں میں جمع ہوں گی ۔ اس طرح کہ ایسی رقومات کو بینک ، کمپنیوں ، صنعتوں ، تجارتی اور کاروباری مدات میں براہ راست استعمال کریں یا بالواسطہ ان میں شرکت کریں اور شرط یہ ہو کہ وہ اپنے لئے متعین منافع طے نہ کریں اور بینک اپنا منافع یا خسارہ ایک مقررہ نظام کے تحت ان لوگوں پر تقسیم کریں جو ان کے پاس اپنی امانتیں رکھتے ہیں ۔ اور بینک کو یہ اجازت ہو کہ وہ اپنی کاروباری مصروفیات کے عوض ایک مقرر اور معین منافع اپنے لئے رکھ لے ۔ غرض ان ذرائع اور وسائل کے علاوہ بھی اقتصادی ترقیات کے لئے مزید اور وسائل اور ذرائع بھی پیدا کئے جاسکتے ہیں ۔ جن کی تفصیلات کا یہ موقع نہیں ہے ۔ اگر کسی قوم کا ایمان مضبوط ہو تو ایسے بیشمار وسائل پیدا کئے جاسکتے ہیں ۔ نیز نیت صاف ہوجائے اور پختہ ارادہ کرلیا جائے کہ ہم نے پاک اور صاف ذرائع سے وسائل رزق و ترقی حاصل کرنے ہیں اور گندہ اور ناپاک ذرائع پر لات مارنی ہے ۔ آخر میں قرآن کریم قرضوں کے بارے میں احکام کی ایک خاص شکل کو بیان کرتا ہے کہ اگر مدیون کے لئے قرضے کی ادائیگی ممکن نہ ہو ، اس کے لئے مشکلات ہوں تو اس کا حل یہ نہیں ہے کہ اس پر بذریعہ ربا قرضے کا اضافہ کردیا جائے ، بلکہ حل یہ ہے کہ اسے اس وقت تک مہلت دی جائے جب تک اس کے حالات اچھے نہیں ہوجاتے ۔ اور جو شخص زیادہ بھلائی سمیٹنا چاہے اس کے لیے بہتر یہ ہے کہ وہ سرے سے قرضہ ہی معاف کردے ۔ اسلام کی نظر میں یہی بلند مرتبہ ہے ۔
Top