Taiseer-ul-Quran - Al-Baqara : 280
وَ اِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ اِلٰى مَیْسَرَةٍ١ؕ وَ اَنْ تَصَدَّقُوْا خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
وَاِنْ : اور اگر كَانَ : ہو ذُوْ عُسْرَةٍ : تنگدست فَنَظِرَةٌ : تو مہلت اِلٰى : تک مَيْسَرَةٍ : کشادگی وَاَنْ : اور اگر تَصَدَّقُوْا : تم بخش دو خَيْرٌ : بہتر لَّكُمْ : تمہارے لیے اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو تَعْلَمُوْنَ : جانتے
اور اگر مقروض تنگ دست ہے تو اسے اس کی آسودہ حالی تک مہلت دینا چاہیے۔ اور اگر (راس المال بھی) چھوڑ ہی دو تو یہ تمہارے 400 لیے بہت بہتر ہے۔ اگر تم یہ بات سمجھ سکو
400 مقروض کو مہلت دینے یا اسے معاف کردینے میں جو بہتری ہے وہ درج ذیل احادیث سے واضح ہوتی ہے ؟ (1) حضرت ابو قتادہ فرماتے ہیں کہ : جس شخص کو یہ بات محبوب ہو کہ اللہ تعالیٰ اسے قیامت کی سختیوں سے نجات دے اسے چاہئے کہ تنگدست کو مہلت دے یا پھر اسے معاف کردے (مسلم : کتاب المساقاۃ والمزارعۃ، باب فضل انظار المعسر) (2) آپ نے فرمایا کہ : جس شخص کے ذمہ کسی کا قرضہ ہوا اور مقروض ادائیگی میں تاخیر کرے تو قرض خواہ کے لئے ہر دن کے عوض صدقہ ہے (احمد بحوالہ، مشکوٰۃ۔ کتاب البیوع۔ باب الافلاس والا نظار، فصل ثالث) (3) آپ نے فرمایا : جو شخص کسی تنگ دست کو مہلت دے یا معاف کردے، قیامت کے دن اللہ اسے اپنے سایہ میں جگہ دے گا (طویل حدیث سے اقتباس) (مسلم۔ کتاب الزھد۔ باب حدیث جابر و قصۃ ابی بسیر) اور اگر مقروض تنگدست ہو اور قرض خواہ زیادہ ہوں تو اسلامی عدالت قرض خواہ یا قرض خواہوں سے مہلت دلوانے یا قرض کا کچھ حصہ معاف کرانے کی مجاز ہوتی ہے۔ (اس صورت حال کو ہمارے ہاں دیوالیہ کہتے ہیں اور عربی میں افلاس اور تفلیس) چناچہ حضرت ابو سعید کہتے ہیں کہ دور نبوی میں ایک شخص کو پھل کی خریدو فروخت میں نقصان ہوا اور اس کا قرضہ بہت بڑھ گیا۔ آپ نے لوگوں سے فرمایا : اس پر صدقہ کرو لوگوں نے صدقہ کیا، پھر بھی اتنی رقم نہ ہوسکی جو قرضے پورے کرسکے۔ آپ نے قرض خواہوں سے فرمایا : جو کچھ (قرضہ کی نسبت سے) تمہیں ملتا ہے لے لو اور تمہارے لئے یہی کچھ ہے (مسلم۔ کتاب المساقاۃ والمزارعۃ۔ باب وضع الجوائع) اور عبداللہ بن کعب ؓ کہتے ہیں کہ (میرے باپ) کعب بن مالک نے عبداللہ بن ابی حدرد سے مسجد نبوی میں اپنے قرض کا تقاضا کیا۔ دونوں چلانے لگے۔ آپ اپنے حجرہ میں تھے۔ ان دونوں کی آوازیں سنیں تو آپ حجرے کا پردہ اٹھا کر برآمد ہوئے اور کعب کو پکارا۔ کعب نے کہا : حاضر یا رسول اللہ ﷺ آپ نے اشارے سے فرمایا : آدھا قرض چھوڑ دو کعب کہنے لگے : یارسول اللہ ! میں نے چھوڑ دیا۔ پھر آپ نے ابو حدرد سے فرمایا : اٹھ اور اس کا قرض ادا کر (بخاری۔ کتاب الحضومات۔ باب کلام الحضوم بعضہم فی بعض۔ نیز کتاب الصلٰوۃ، باب التقاضی والملازمۃ فی المسجد) ہاں اگر کوئی قرض خواہ مقروض کے ہاں اپنی چیز (جس کی مقروض نے قیمت ابھی ادا نہ کی تھی) بجنسہ پالے تو وہ اس کی ہوگی۔ (بخاری۔ کتاب فی الاستقراض۔ باب من وجد مالہ عند مفلس نیز مسلم۔ کتاب المساقاۃ والمزارعۃ، باب من ادرک مالہ۔۔ ) دیوالیہ کی صورت میں اسلامی عدالت مقروض کی جائداد کی قرقی کرسکتی ہے۔ چناچہ حضرت کعب بن مالک اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت معاذ کو اپنے مال میں تصرف کرنے سے روک دیا تھا اور وہ مال ان کے قرض کی ادائیگی کے لئے فروخت کیا گیا۔ (رواہ دارقطنی و صححہ الحاکم و اخرجہ، ابو داؤد مرسلاً ) البتہ درج ذیل اشیاء قرقی سے مستثنی کی جائیں گی (1) مفلس کے رہنے کا مکان، (2) اس کے اور اس کے اہل خانہ کے پہننے والے کپڑے، (3) اگر تاجر ہے تو بار دانہ اور محنت کش ہے تو اس کے کام کرنے کے اوزار، (4) اس کے اور اس کے اہل خانہ کے کھانے پینے کا سامان اور گھر کے برتن وغیرہ (فقہ السنۃ، ج 3 ص 408)
Top