Tafheem-ul-Quran - Al-Furqaan : 33
وَ لَا یَاْتُوْنَكَ بِمَثَلٍ اِلَّا جِئْنٰكَ بِالْحَقِّ وَ اَحْسَنَ تَفْسِیْرًاؕ
وَلَا يَاْتُوْنَكَ : اور وہ نہیں لاتے تمہارے پاس بِمَثَلٍ : کوئی بات اِلَّا : مگر جِئْنٰكَ : ہم پہنچا دیتے ہیں تمہیں بِالْحَقِّ : ٹھیک (جواب) وَاَحْسَنَ : اور بہترین تَفْسِيْرًا : وضاحت
اور (اس میں یہ مصلحت بھی ہے)کہ جب کبھی وہ تمہارے سامنے کوئی نرالی بات (یا عجیب سوال)لے کر آئے، اُس کا ٹھیک جواب بر وقت ہم نے تمہیں دے دیا اور بہترین طریقے سے بات کھول دی 46
سورة الْفُرْقَان 46 یہ نزول قرآن میں تدریج کا طریقہ اختیار کرنے کی ایک اور حکمت ہے۔ قرآن مجید کی شان نزول یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ " ہدایت " کے موضوع پر ایک کتاب تصنیف کرنا چاہتا ہے اور اس کی اشاعت کے لیے اس نے نبی کو ایجنٹ بنایا ہے۔ بات اگر یہی ہوتی تو یہ مطالبہ بجا ہوتا کہ پوری کتاب تصنیف کر کے بیک وقت ایجنٹ کے حوالے کردی جائے۔ لیکن دراصل اس کی شان نزول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کفر اور جاہلیت اور فسق کے مقابلہ میں ایمان و اسلام اور اطاعت وتقویٰ کی ایک تحریک برپا کرنا چاہتا ہے اور اس کے لیے اس نے ایک نبی کو داعی و قائد بنا کر اٹھایا ہے۔ اس تحریک کے دوران میں اگر ایک طرف قائد اور اس کے پیروؤں کو حسب ضرورت تعلیم اور ہدایت دینا اس نے اپنے ذمہ لیا ہے تو دوسری طرف یہ کام بھی اپنے ہی ذمہ رکھا ہے کہ مخالفین جب کبھی کوئی اعتراض یا شبہہ یا الجھن پیش کریں اسے وہ صاف کر دے۔ اور جب بھی وہ کسی بات کو غلط معنی پہنائیں وہ اس کی صحیح تشریح و تفسیر کر دے۔ ان مختلف ضروریات کے لیے جو تقریریں اللہ کی طرف سے نازل ہو رہی ہیں ان کے مجموعے کا نام قرآن ہے، اور یہ ایک کتاب آئین یا کتاب اخلاق و فلسفہ نہیں بلکہ کتاب تحریک ہے جس کے معرض وجود میں آنے کی صحیح فطری صورت یہی ہے کہ تحریک کے اول لمحہ آغاز کے ساتھ شروع ہو اور آخری لمحات تک جیسے جیسے تحریک چلتی رہے یہ بھی ساتھ ساتھ حسب موقع و ضرورت نازل ہوتی رہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول، صفحہ 13 تا 25
Top