Madarik-ut-Tanzil - Al-Furqaan : 33
وَ لَا یَاْتُوْنَكَ بِمَثَلٍ اِلَّا جِئْنٰكَ بِالْحَقِّ وَ اَحْسَنَ تَفْسِیْرًاؕ
وَلَا يَاْتُوْنَكَ : اور وہ نہیں لاتے تمہارے پاس بِمَثَلٍ : کوئی بات اِلَّا : مگر جِئْنٰكَ : ہم پہنچا دیتے ہیں تمہیں بِالْحَقِّ : ٹھیک (جواب) وَاَحْسَنَ : اور بہترین تَفْسِيْرًا : وضاحت
اور یہ لوگ تمہارے پاس جو (اعتراض کی) بات لاتے ہیں ہم تمہارے پاس اسکا معقول اور خوب مشرح جواب بھیج دیتے ہیں
33: وَلَا یَاْتُوْنَکَ بِمَثَلٍ (وہ نہیں لاتے آپ کے پاس کوئی عجیب سوال) مثل سے یہاں عجیب سوال مراد جو وہ باطل سوالات کرتے رہتے تھے۔ گویا باطل ہونے میں ایک مثال ہے۔ اِلَّا جِئْنٰکَ بِالْحَقِّ (مگر ہم آپ کو اس کا صحیح جواب عطاء کردیتے ہیں) مگر ہم آپ کے پاس صحیح تردید جس سے بھاگنے کا راستہ نہ ہو لے آتے ہیں۔ وَاَحْسَنَ تَفْسِیْرًا (اور بہترین تشریح کے ساتھ) اور اس چیز کے ساتھ جو معنی میں زیادہ خوب ہو اور اس کے سوال کا جواب بھی ہو۔ یہاں مثلہمؔ کا لفظ حذف کردیا گیا کیونکہ خودکلام میں اس حذف کی دلیل ہے جیسا کہ تم کہو : رأیت زیدًا وعمروا وکان عمرو احسن وجھًا اس میں دلیل ہے کہ تمہارا مقصود احسن و جھًا من زید ہے۔ جب تفسیر خود کلام کی دلالت کو کھولنے والی ہے تو اس کو اس کے معنی کی جگہ رکھ دیا گیا۔ چناچہ کہتے ہیں تفسیر ہذا الکلام کیت و کیت۔ جیسا کہا گیا ہے اس کا معنی کذا وکذا اولا یا تونک بحال وصفۃ عجیبۃ کیا وہ نہیں لاتے کسی حالت میں کوئی عجیب بات یہ کہتے ہوئے کیونکر قرآن اس پر اکٹھا نہیں اتارا گیا مگر ہم آپ کو ایسے حالات لاتے ہیں جن احوال کے آپ ہماری حکمت کے مطابق مستحق ہیں اور وہ حالات زیادہ واضح کرنے والے ہیں اس چیز کو جو آپ دیکر بھیجے گئے ہیں اور نبوت کی درستگی پر دلالت کرنے والے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ قرآن کا تھوڑا اترنا اور ان کو یہ چیلنج دینا کہ بعض حصہ قرآن کا مقابلہ میں قرآن بنا کر لائیں مگر ایسا کرنے سے وہ عاجز ہیں تو پورے قرآن کے مقابلہ سے خود عاجز ہوگئے کیونکہ قرآن سارا معجزہ ہے۔
Top