Maarif-ul-Quran - Al-Furqaan : 33
وَ لَا یَاْتُوْنَكَ بِمَثَلٍ اِلَّا جِئْنٰكَ بِالْحَقِّ وَ اَحْسَنَ تَفْسِیْرًاؕ
وَلَا يَاْتُوْنَكَ : اور وہ نہیں لاتے تمہارے پاس بِمَثَلٍ : کوئی بات اِلَّا : مگر جِئْنٰكَ : ہم پہنچا دیتے ہیں تمہیں بِالْحَقِّ : ٹھیک (جواب) وَاَحْسَنَ : اور بہترین تَفْسِيْرًا : وضاحت
اور نہیں لاتے تیرے پاس کوئی مثال کہ ہم نہیں پہنچا دیتے تجھ کو ٹھیک بات اور اس سے بہتر کھول کر
خلاصہ تفسیر
اور یہ لوگ کیسا ہی عجیب سوال آپ کے سامنے پیش کریں مگر ہم (اس کا) ٹھیک جواب اور وضاحت میں بڑھا ہوا آپ کو عنایت کردیتے ہیں (تاکہ آپ مخالفین کو جواب دے سکیں۔ یہ بظاہر بیان اس تقویت قلب کا ہے جس کا ذکر اس سے پہلی آیت میں ہوا ہے کہ بتدریج نازل کرنے میں ایک حکمت آپ کی دلجمی اور تقویت قلب ہے کہ جب کفار کی طرف سے کوئی اعتراض آئے تو اسی وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب نازل کردیا جائے) یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے چہروں کے بل جہنم کی طرف لے جائے جاویں گے (یعنی گھسیٹ کر) یہ لوگ جگہ میں بھی بدتر ہیں اور طریقہ میں بھی بہت گمراہ ہیں۔ (یہاں تک انکار رسالت پر وعید اور قرآن پر اعتراضات کے جواب تھے، آگے اس کی تائید میں زمانہ ماضی کے بعض واقعات نقل کئے گئے ہیں جن میں منکرین رسالت کا انجام اور عبرت انگیز حالات مذکور ہیں اور اس میں بھی آنحضرت ﷺ کے لئے تسلی اور تقویت قلب کا سامان ہے کہ پچھلے انبیاء کی اللہ تعالیٰ نے جس طرح مدد فرمائی اور دشمنوں پر غالب فرمایا وہ آپ کے لئے بھی ہونے والا ہے اس میں پہلا قصہ حضرت موسیٰ ؑ کا ذکر کیا گیا کہ) اور بتحقیق ہم نے موسیٰ کو کتاب (یعنی تورات) دی تھی اور (اس کتاب ملنے سے پہلے) ہم نے ان کے ساتھ ان کے بھائی ہارون کو (ان کا) معین (و مددگار) بنایا تھا پھر ہم نے (دونوں کو) حکم دیا کہ دونوں آدمی ان لوگوں کے پاس (ہدایت کرنے کے لئے) جاؤ جنہوں نے ہماری (توحید کی) دلیلوں کو جھٹلایا ہے (مراد اس سے فرعون اور اس کی قوم ہے چناچہ یہ دونوں حضرات وہاں پہنچے اور سمجھایا مگر انہوں نے نہ مانا) سو ہم نے ان کو (اپنے قہر سے) بالکل ہی غارت کردیا (یعنی دریا میں غرق کئے گئے)۔
Top