Ruh-ul-Quran - Al-Furqaan : 33
وَ لَا یَاْتُوْنَكَ بِمَثَلٍ اِلَّا جِئْنٰكَ بِالْحَقِّ وَ اَحْسَنَ تَفْسِیْرًاؕ
وَلَا يَاْتُوْنَكَ : اور وہ نہیں لاتے تمہارے پاس بِمَثَلٍ : کوئی بات اِلَّا : مگر جِئْنٰكَ : ہم پہنچا دیتے ہیں تمہیں بِالْحَقِّ : ٹھیک (جواب) وَاَحْسَنَ : اور بہترین تَفْسِيْرًا : وضاحت
وہ آپ پر کوئی اعتراض پیش نہیں کریں گے مگر ہم اس کا صحیح جواب اور اس کی بہترین توجیہ آپ کو بتادیں گے
وَلاَ یَاْ تُوْنَـکَ بِمَثَلٍ اِلاَّ جِئْنٰـکَ بِالْحَقِّ وَاَحْسَنَ تَفْسِیْرًا۔ (الفرقان : 33) (وہ آپ پر کوئی اعتراض پیش نہیں کریں گے مگر ہم اس کا صحیح جواب اور اس کی بہترین توجیہ آپ کو بتادیں گے۔ ) قرآن کریم کے تدریجاً نزول کی ایک اور حکمت قرآن کریم کیوں تدریجاً نازل کیا گیا، اس کی ایک حکمت پیش نظر آیت کریمہ میں بھی بیان فرمائی گئی، وہ یہ ہے کہ جب بھی نبی کریم ﷺ ان کے سامنے قرآن کریم کی دعوت یا قرآن کریم کا کوئی حکم پیش کرتے ہیں تو وہ اپنی عادت کے مطابق اس پر عجیب و غریب سوالات اٹھاتے ہیں، الٹے سیدھے اعتراض کرتے ہیں اور نئی سے نئی باتیں نکالتے ہیں۔ ” مثل “ کا اطلاق ان تمام باتوں پر ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ وہ جو سوال بھی کریں ہم اس کا بہترین جواب آپ پر اتاریں۔ کوئی سوال اٹھائیں تو ہم اس کی توجیہ و تفسیر آپ پر نازل کردیں۔ اس طرح سے آپ کی دعوت کے راستے کے کانٹے سمٹ جائیں گے، علمی دشواریاں دور ہوتی جائیں گی اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ تبلیغ و دعوت کے راستے میں ایسے کندہ ناتراش لوگوں سے واسطہ پڑجاتا ہے جو ماحول کو پراگندہ کرتے اور حالات کو بےقابو کردیتے ہیں۔ ایسی حالت میں ایک داعی کو جہاں علمی کمک کی ضرورت ہوتی ہے وہاں اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کی بھی حاجت ہوتی ہے۔ ایسی حالت میں قرآن کریم جب اترتا ہے تو جہاں وہ سوالوں اور اعتراضات کا جواب لے کر آتا ہے، وہیں حوصلے کے اصل سرچشمے سے سیرابی اور وابستگی کا سامان لے کر بھی آتا ہے۔ اور یہ وہ چیز ہے جس کی ضرورت بار بار انبیائے کرام کو پیش آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ چونکہ انھیں دنیا کے لیے مینارہ نور بناتا ہے اس لیے ان کی رہنمائی اور ان کے طرزعمل میں کسی کمزوری کا شائبہ بھی باقی نہیں چھوڑتا تاکہ قیامت تک آنے والے لوگ ان سے استفادہ کرتے رہیں۔
Top