Tafheem-ul-Quran - Al-Furqaan : 32
وَ قَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَوْ لَا نُزِّلَ عَلَیْهِ الْقُرْاٰنُ جُمْلَةً وَّاحِدَةً١ۛۚ كَذٰلِكَ١ۛۚ لِنُثَبِّتَ بِهٖ فُؤَادَكَ وَ رَتَّلْنٰهُ تَرْتِیْلًا
وَقَالَ : اور کہا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) لَوْلَا : کیوں نہ نُزِّلَ : نازل کیا گیا عَلَيْهِ : اس پر الْقُرْاٰنُ : قرآن جُمْلَةً وَّاحِدَةً : ایک ہی بار كَذٰلِكَ : اسی طرح لِنُثَبِّتَ : تاکہ ہم قوی کریں بِهٖ : اس سے فُؤَادَكَ : تمہارا دل وَرَتَّلْنٰهُ : اور ہم نے اس کو پڑھا تَرْتِيْلًا : ٹھہر ٹھہر کر
منکرین کہتے ہیں”اِس شخص پر سارا قرآن ایک ہی وقت میں کیوں نہ اُتار دیا گیا؟“ 44۔۔۔۔ ہاں، ایسا اس لیے کیا گیا ہے کہ اس کو اچھی طرح ہم تمہارے ذہن نشین کرتے رہیں 45 اور (اسی غرض کے لیے)ہم نے اس کو ایک خاص ترتیب کے ساتھ الگ الگ اجزاء کی شکل دی ہے
سورة الْفُرْقَان 44 یہ کفار مکہ کا بڑا دل پسند اعتراض تھا جسے وہ اپنے نزدیک نہایت زور دار اعتراض سمجھ کر بار بار دہراتے تھے، اور قرآن میں بھی اس کو متعدد مقامات پر نقل کر کے اس کا جواب دیا گیا ہے (تفہیم القرآن، جلد دوم، النحل حواشی 101 تا 106 بنی اسرائیل، حاشیہ 119) ان کے سوال کا مطلب یہ تھا کہ اگر یہ شخص خود سوچ سوچ کر، یا کسی سے پوچھ پوچھ کر اور کتابوں میں سے نقل کر کر کے یہ مضامین نہیں لا رہا ہے، بلکہ یہ واقعی خدا کی کتاب ہے تو پوری کتاب اکٹھی ایک وقت میں کیوں نہیں آجاتی۔ خدا تو جانتا ہے کہ پوری بات کیا ہے جو وہ فرمانا چاہتا ہے۔ وہ نازل کرنے والا ہوتا تو سب کچھ بیک وقت فرما دیتا۔ یہ جو سوچ سوچ کر کبھی کچھ مضمون لایا جاتا ہے اور کبھی کچھ، یہ اس بات کی صریح علامت ہے کہ وحی اوپر سے نہیں آتی، یہیں کہیں سے حاصل کی جاتی ہے، یا خود گھڑ گھڑ کر لائی جاتی ہے۔ سورة الْفُرْقَان 45 دوسرا ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ " اس کے ذریعہ سے ہم تمہارا دل مضبوط کرتے رہیں " یا " تمہاری ہمت بندھاتے رہیں "۔ الفاظ دونوں مفہوموں پر حاوی ہیں اور دونوں ہی مراد بھی ہیں۔ اس طرح ایک ہی فقرے میں قرآن کو بتدریج نازل کرنے کی بہت سی حکمتیں بیان کردی گئی ہیں 1 وہ لفظ بلفظ حافظہ میں محفوظ ہو سکے، کیونکہ اس کی تبلیغ و اشاعت تحریری صورت میں نہیں بلکہ ایک اَن پڑھ نبی کے ذریعہ سے ان پڑھ قوم میں زبانی تقریر کی شکل میں ہو رہی ہے۔ 2 اس کی تعلیمات اچھی طرح ذہن نشین ہو سکیں۔ اس کے لیے ٹھہر ٹھہر کر تھوڑی تھوڑی بات کہنا اور ایک ہی بات کو مختلف اوقات میں مختلف طریقوں سے بیان کرنا زیادہ مفید ہے۔ 3 اس کے بتائے ہوئے طریق زندگی پر دل جمتا جائے۔ اس کے لیے احکام و ہدایات کا بتدریج نازل کرنا زیادہ مبنی بر حکمت ہے، ورنہ اگر سارا قانون اور پورا نظام حیات بیک وقت بیان کر کے اس قائم کرنے کا حکم دے دیا جائے تو ہوش پراگندہ ہوجائیں۔ علاوہ بریں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہر حکم اگر مناسب موقع پر دیا جائے تو اس کی حکمت اور روح زیادہ اچھی طرح سمجھ میں آتی ہے، بہ نسبت اس کے کہ تمام احکام دفعہ وار مرتب کر کے بیک وقت دے دیے گئے ہوں۔ 4 تحریک اسلامی کے دوران میں جبکہ حق اور باطل کی مسلسل کشمکش چل رہی ہو، نبی اور اس کے پیروؤں کی ہمت بندھائی جاتی رہے اس کے لیے خدا کی طرف سے بار بار، وقتاً فوقتاً ، موقع بموقع پیغام آنا زیادہ کار گر ہے بہ نسبت اس کے کہ بس ایک دفعہ ایک لمبا چوڑا ہدایت نامہ دے کر عمر بھر کے لیے دنیا بھر کی مزاحمتوں کا مقابلہ کرنے کو یونہی چھوڑ دیا جائے۔ پہلی صورت میں آدمی محسوس کرتا ہے کہ جس خدا نے اس کام پر مامور کیا ہے، وہ اس کی طرف متوجہ ہے، اس کے کام سے دلچسپی لے رہا ہے، اس کے حالات پر نگاہ رکھتا ہے، اس کی مشکلات میں رہنمائی کر رہا ہے، اور ہر ضرورت کے موقع پر اسے شرف باریابی و مخاطبت عطا فرما کر اس کے ساتھ اپنے تعلق کا تازہ کرتا رہتا ہے۔ یہ چیز حوصلہ بڑھانے والی اور عزم کو مضبوط رکھنے والی ہے دوسری صورت میں آدمی کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ بس وہ ہے اور طوفان کی موجیں۔
Top