Tadabbur-e-Quran - Al-Furqaan : 33
وَ لَا یَاْتُوْنَكَ بِمَثَلٍ اِلَّا جِئْنٰكَ بِالْحَقِّ وَ اَحْسَنَ تَفْسِیْرًاؕ
وَلَا يَاْتُوْنَكَ : اور وہ نہیں لاتے تمہارے پاس بِمَثَلٍ : کوئی بات اِلَّا : مگر جِئْنٰكَ : ہم پہنچا دیتے ہیں تمہیں بِالْحَقِّ : ٹھیک (جواب) وَاَحْسَنَ : اور بہترین تَفْسِيْرًا : وضاحت
اور یہ لوگ جو اعتراض بھی اٹھائیں گے ہم اس کا صحیح جواب اور اس کی بہترین توجیہ تمہیں بتا دیں گے
آیت 9 کے تحت ہم واضح کر آئے ہیں کہ ضرب مثل کا محاورہ اعتراض و نکتہ چینی کے لئے بھی آتا ہے یہاں موقع دلیل ہے کہ یہ اعتراض ہی کے مفہوم میں ہے اور آیت میں اس کا مقابللفظ حق استعمال ہوا ہے جس سے یہ بات نکلی کہ اس سے مراد یہاں اعتراض باطل ہے۔ آنحضرت ﷺ کو اطمینان دبانی معترضین کے تمام اعتراضوں کا مسکت اور دل نشین جواب دینے کے بعد یہ پیغمبر ﷺ کو تسلی دی گئی ہے کہ تم مطمئن رہو۔ یہ لوگ جو اعتراض باطل بھی تمہارے خلاف اٹھائیں گے اس کے جواب کی ذمہ داری ہمارے اوپر ہے۔ ہم اس کا صحیح جواب اور اس کی بہترین توجیہ و تفسیر تم پر نازل کردیں گے۔ اس اطمینان دہانی کی ضرورت اس وجہ سے تھی کہ نبی ﷺ نے اپنی نبوت و رسالت اور قرآن کی جو دعوت لوگوں کو دی وہ خدا کے حکم سے دی، اس میں کوئی ادنیٰ دخل بھی آپ ﷺ کی اپنی خواہش کو نہیں تھا۔ آپ ﷺ کے اس دعوے اور دعوت کی وجہ سے پوری قوم آپ ﷺ کی دشمن بن کر اٹھ کھڑی ہوئی اور ہر طرف سے اعتراضات کی بوچھاڑ شروع ہوگئی۔ اگر مخالفین کے ان تمام حملوں کی مدافعت کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ اپنے اوپر نہ لیتا تو تمام خلق کا منہ آپ ﷺ کس طرح بند کرسکتے تھے۔
Top