Tadabbur-e-Quran - Al-Waaqia : 83
فَلَوْ لَاۤ اِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُوْمَۙ
فَلَوْلَآ : پس کیوں نہیں اِذَا بَلَغَتِ : جب پہنچ جاتی ہے الْحُلْقُوْمَ : حلق کو۔ نرخرے کو
اگر تمہارا یہ گمان ہے کہ تم کسی کے محکوم نہیں
(فلولا اذا بلغت لحلقوم وانتم حینئذ تنظرون ونحن اقرب الیہ منکم ولکن لا تبصرون فلولا ان کنتم غیر مدینین ترجعونھا ان کنتم صدقین) (84، 87) (خدا کے قبضہ قدرت سے کوئی باہر نہیں ہے)۔ یعنی اس ڈھٹائی سے تم قرآن کا جو مذاق اڑا رہے ہو اور سمجھتے ہو کہ جس جزاء و سزا سے یہ تمہیں آگاہ کر رہا ہے وہ محض ایک ڈراوا ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں ہے، نہ تم کسی کے محکوم ہو ورنہ تمہیں کسی کے آگے اپنے کسی قول و فعل سے متعلق کوئی جواب دہی کرنی ہے تو اپنے آپ کو یا اپنے کسی محبوب سے محبوب کو موت کے پنجہ سے کیوں نہ بچا لیتے ؟ جب تم میں سے کسی کی موت آتی ہے تو اس وقت تو تم اپنے آپ کو بالکل ہی بےبس پاتے ہو اور جان فرشتہ اجل کے حوالے کرنی پڑتی ہے تو اپنی اس بےبسی کا مشاہدہ کرتے ہوئے تم نے اپنے آپ کو مطلق العنان اور شتر بےمہار کیوں سمجھ رکھا ہے ؟ اوپر آیت 60 میں فرمایا ہے (نحن قدرنا بینکم الموت وما نحن بسموقین) (ہم نے تمہارے درمیان موت مقدر کر رکھی ہے اور ہم کسی کو پکڑنے سے عاجز رہنے والے نہیں ہیں) وہی حقیقت یہاں دوسرے الفاظ میں ممثل کر کے سمجھاتی ہے کہ کوئی اپنے آپ کو مطلق العنان نہ سمجھے۔ کوئی خدا کی گرفت سے باہر نہیں ہے سب موت کے اسیر ہیں اور یہ موت اسی لیے مقدر کی گئی ہے کہ وہ ہر متنفس کو ایک یوم موعود میں خدا کے آگے پیش ہونے کے لیے جمع کرتی رہے۔ (موت کے اسیر سب ہیں) فلولا اذا بلغت الحلقوم بلغت)۔ کا فاعل نفس (جان) یہاں پر بنائے قرینہ محذوف ہے۔ یعنی انسان کی جان جب نزع کے وقت حلق میں آ پھنستی ہے۔ سورة قیامہ میں بھی اسی طرح (بلغت) کا فاعل مخدوف ہے (فاذا بلغت التراقی) (القیمۃ، 75، 26) (پس جب کہ جان پسلی میں آپھنسے گی) بلاغت کے پہلو سے اس حذف کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ واقعہ کا ہول، ابہام کے سبب سے، زیادہ موثر ہو کر سامنے آتا ہے۔ (لولا) کا جواب آگے نہایت موثر انداز میں آ رہا ہے۔ (وانتم حینیذ تنظرون) یعنی یہ نہیں ہوتا کہ یہ حادثہ دوسروں کی بیخبر ی میں پیش آجاتا ہے بلکہ مبتلائے نزع کے اعزہ و اقرباء اس کے سارے محب و محبوب اس کے معالج اور ڈاکٹر اس کے پاس موجود ہوتے ہیں لیکن موت کا فرشتہ ان سب کے سامنے سے اس کی جان نکال کے لے کرچلا جاتا ہے اور کسی کی کچھ پیش نہیں جاتی۔ وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ اگر وہ پاس موجود ہوتے تو فرشتہ اجل کا ہاتھ پکڑ لیتے بلکہ ان کی ساری جاں نثاریاں اور تمام تدبیریں بالکل بےسود ہو کے رہ جاتی ہیں۔ (ونحن اقرب الیہ منکم ولکن لا تبصرون، الیہ) میں ضمیر کا مرجع مبتلائے نزع شخص ہے۔ یعنی تم تو اس کے پاس ہوتے ہی ہو، تم سے زیادہ قریب اس کے ہم ہوتے ہیں لیکن تم ہم کو نہیں دیکھتے۔ تم کو اپنے ڈاکٹر کا ہاتھ نظر آتا ہے لیکن ہمارے فرشتہ کا ہاتھ نظر نہیں آتا کہ وہ کس چابکدستی سے اس کی جان نکال لیتا ہے۔ (فلولا ان کنتم غیر مدینین ترجعونھا ان کنتم صدقین) یہ اس لولا کا جواب ہے جو اوپر مذکور ہواچون کہ شرط اور اس کے جواب میں دوری ہوگئی تھی اس وجہ سے اس کو پھر دہرا دیا ہے۔ فرمایا کہ اگر تم یہ گمان رکھتے ہو کہ تم کسی ایسے کے محکوم و مقہور نہیں ہو جو تم کو پکڑ سکے اور سزا دے سکے تو اس جان کو لوٹا کیں نہیں لیتے جس کو تمہاری آنکھوں کے سامنے ہمارا فرشتہ نکال لیتا ہے۔ مدین کے معنی محکوم اور مقہور (under control) کے ہیں۔
Top