Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 73
فَقُلْنَا اضْرِبُوْهُ بِبَعْضِهَا١ؕ كَذٰلِكَ یُحْیِ اللّٰهُ الْمَوْتٰى١ۙ وَ یُرِیْكُمْ اٰیٰتِهٖ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ
فَقُلْنَا : پھر ہم نے کہا اضْرِبُوْهُ : اسے مارو بِبَعْضِهَا : اس کا ٹکڑا کَذٰلِکَ : اس طرح يُحْيِي اللّٰهُ : اللہ زندہ کرے گا الْمَوْتَىٰ : مردے وَيُرِیْكُمْ : اور تمہیں دکھاتا ہے اٰيَاتِهِ : اپنے نشان لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَعْقِلُوْنَ : غور کرو
تو ہم نے کہا اس کو اس کے ایک جزو سے مارو۔ اسی طرح اللہ مردوں کو زندہ کرے گا اور تم کو اپنی نشانیاں دکھاتا ہے تاکہ تم سمجھو
“اس کو اس کے بعض سے مارو”عام طور پر اہل تاویل نے اس کا یہ مطلب لیا ہے کہ مقتول کو گائے کے گوشت کا ایک ٹکڑا چھوا دو جس سے وہ زندہ ہو جائے گا اور اپنے قاتل کا نام بتا دے گا۔ اگرچہ یہ مطلب لینے میں کوئی قباحت نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ سے کوئی بات بھی بعید نہیں ہے لیکن قسامہ کے تعلق سے کبھی کبھی مجھے یہ خیال ہوتا ہے کہ ممکن ہے یہ قسم لینے کی طرف اشارہ ہو یعنی مقتول پر قربان کی ہوئی گائے کا خون چھڑکو اور آس پاس والوں سے قسم لو۔ واقعہ کی تفصیل کے بجائے اس کی طرف صرف اشارہ اس لئے کافی سمجھا گیا ہو کہ یہاں مقصود واقعہ کو بیان کرنا نہیں بلکہ بنی اسرائیل کو ان کی تاریخ کے ایک واقعہ کو صرف جتا دینا تھا۔ یہ مطلب لینے کی صورت میں كَذٰلِكَ يُحْيِي اللَّهُ الْمَوْتٰى کا ٹکڑا بنی اسرائیل کی اس بات کا جواب ہوگا جو انہوں نے گائے ذبح کرنے کا حکم سن کر کہی تھی کہ اَتَتَّخِذُنَا ھُزُوًا (کیا تم ہمارا مذاق اڑا رہے ہو) یعنی تمہارے نزدیک تو یہ حکم ایک مذاق ہے لیکن اگر تم اس پر اس کی صحیح اسپرٹ کے ساتھ عمل کرو اور اس قربانی اور قسم میں ایمان داری برتو تو یہی راستہ ہے قاتلوں کے سراغ لگانے اور ان سے قصاص لینے کا جس میں سب کے لئے زندگی ہے۔ یہ بات کہ قصاص میں سب کے لئے زندگی ہے قرآن مجید میں واضح طور پر مذکور ہے وَلَکُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیَاۃٌ یَّا اُولِی الْاَلْبَابِ (۱۷۹ بقرہ) اور تمہارے لئے قصاص میں زندگی ہے اے عقل والو۔ تورات میں بھی ایک کے قتل کو سب کا قتل اور ایک کے قصاص کو سب کی زندگی قرار دیا گیا تھا۔ قرآن مجید میں اس حکم کا حوالہ اس طرح دیا گیا ہے۔ کَتَبْنَا عَلٰی بَنِیْٓ اِسْرَآءِیْلَ اَنَّہٗ مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَیْْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا وَمَنْ اَحْیَاہَا فَکَاَنَّمَا اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًا (۳۲ مائدہ) ہم نے بنی اسرائیل پر فرض کیا کہ جس نے کسی جان کو قتل کیا بغیر اس کے کہ اس نے کسی جان کو قتل کیا ہو یا ملک میں بدامنی برپا کی ہو اس نے گویا سب کو قتل کیا اور جس نے اس کو زندہ کیا اس نے گویا سب کو زندہ کیا۔ اس آیت سے یہ واضح ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل پر قانون قصاص کا یہ فلسفہ اس قدر واضح تھا کہ قصاص نہ لینے میں سب کی موت اور قصاص لینے میں سب کی زندگی ہے۔ وَيُرِيۡكُمْ اٰيَاتِهٖ کا تعلق اس صورت میں جملہ معترضہ سے ہوگا۔ یعنی اللہ تعالیٰ تمہیں اس بات کی نشانیاں دکھا رہا ہے کہ جو کچھ تم چھپا رہے ہو اس میں سے کوئی چیز بھی ڈھکی چھپی رہنے والی نہیں ہے بلکہ ہر چیز ظاہر ہو کے رہے گی۔ یہ اشارہ ان باتوں کی طرف ہو گا جن کو یہود نے چھپانے کی کوشش کی اور جن کو چھپانے کے لئے دین میں طرح طرح کی تحریفیں کیں لیکن اب وہ قرآن اور آنحضرت ﷺ کے ذریعہ سے ایک ایک کر کے ظاہر ہو رہی تھیں۔ یہ اس بات کی کھلی ہوئی نشانی تھی کہ خدا سے کسی بات کو چھپانے کی کوشش ایک بے سود کوشش ہے، وہ ایک دن سارے رازوں سے پردہ اٹھا دے گا۔
Top