Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 73
فَقُلْنَا اضْرِبُوْهُ بِبَعْضِهَا١ؕ كَذٰلِكَ یُحْیِ اللّٰهُ الْمَوْتٰى١ۙ وَ یُرِیْكُمْ اٰیٰتِهٖ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ
فَقُلْنَا : پھر ہم نے کہا اضْرِبُوْهُ : اسے مارو بِبَعْضِهَا : اس کا ٹکڑا کَذٰلِکَ : اس طرح يُحْيِي اللّٰهُ : اللہ زندہ کرے گا الْمَوْتَىٰ : مردے وَيُرِیْكُمْ : اور تمہیں دکھاتا ہے اٰيَاتِهِ : اپنے نشان لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَعْقِلُوْنَ : غور کرو
پھر ہم نے کہا کہ اس مقتول کو اسی [ کے بعض اعضاء سے مارو ، اسی طرح اللہ زندہ کر دے گا مرے ہوؤں کو اور اللہ اپنی نشایاں تم کو دکھاتا ہے تاکہ تم سمجھ بوجھ سے کام لو
حکمت الٰہی کی کرشمہ سازی : 148: ہاں : ” اضْرِبُوْهُ “ میں ضمیر مذکر کی ہے اور ” بِبَعْضِهَا 1ؕ “ میں ضمیر مونث کی ، اور دونوں کا مرجع ہم نے مقتول ٹھہرایا ہے یہ کیوں ہے ؟ سو جن لوگوں نے اس سے گائے کا کوئی حصہ مقتول کے کسی حصہ سے مارنے کا لکھا ہے ان کے لئے بھی یہ مشکل ایسی ہی ہے جو اس کا حل ہے وہی حل اس کا بھی ہوگا۔ کیونکہ ” نفس “ بھی مونث ہے اور گائے بھی مونث ہی بیان کی گئی ہے۔ حالانکہ قرآن مجید میں اس کی مثالیں بہت مل جاتی ہیں یہ صرف ایک ذہنی اختراع ہے اس کے سوا اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور قرآن مجید کے قاری کو ان بحثوں میں جن کا کوئی سر پیر نہ ہو ، الجھنا ہی نہیں چاہئے۔ قرآن کریم میں بیان کیا گیا ہے کہ : كَفٰى بِنَفْسِكَ الْیَوْمَ عَلَیْكَ حَسِیْبًاؕ0014 (17 : 14) السَّاعَةَ تَكُوْنُ قَرِیْبًا 0063 (33 : 63) لَعَلَّ السَّاعَةَ قَرِیْبٌ 0017 (42 : 17) اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰهِ قَرِیْبٌ (7 : 56) وَ الْمَلٰٓىِٕكَةُ بَعْدَ ذٰلِكَ ظَهِیْرٌ 004 (66 : 4) وَ حَسُنَ اُولٰٓىِٕكَ رَفِیْقًاؕ0069 (4 : 69) اِذْ یَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّیٰنِ۠ عَنِ الْیَمِیْنِ وَ عَنِ الشِّمَالِ قَعِیْدٌ 0017 (50 : 17) ان سب جگہوں پر اس طرح نہیں کہا گیا اور نہ ہی کوئی اعتراض منقول ہے کہ یہاں حَسِیْبَۃً ، قَرِیْبَۃ ، ظَهْیَرآءَ ، رُفَقَاءَ ، قَعِیْدَانِہونا چاہیے ۔ اسی طرح اس جگہ بھی ” اضْرِبُوْهُ “ کی ضمیر مذکر پر کوئی اعتراض نہیں کہ وہ ” نفس “ کی طرف یعنی جو مقتول ہے اس کی طرف نہیں پھرے گی۔ کیوں نہیں ؟ پھرکَذٰلِكَ یُحْیِ اللّٰهُ الْمَوْتٰى سے جو اس جگہ مراد ہے وہ بالکل واضح اور عیاں ہے اس سے خواہ مخواہ روز قیامت کے بعث و نشر سے کیا واسطہ ہے جب ضرورت اس جگہ ایک مقتول کے قاتل کی ہے جو اس وقت باعث نزاع ہے۔ جس کا یہ مفہوم یہاں بالکل صاف ہے کہ ” نامعلوم قاتل معلوم ہوگیا “ یعنی ” اس طرح اللہ نے نامعلوم قاتل کو معلوم کرادیا “ یہ معنی بالکل وہی ہیں جو خود اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان فرمائے ہیں جہاں فرمایا : وَ کُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْیَاکُمْ 1ۚ یعنی تم معدود ، غیر موجود یا نامعلوم تھے پس تم کو عدم سے وجود عطا کیا ” معلوم کرایا “ ” زندہ کیا “ اور پھر اس کی وضاحت اس طرح بھی ہوگئی کہ ” ہَلْ اَتٰى عَلَى الْاِنْسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّهْرِ لَمْ یَكُنْ شَیْـًٔا مَّذْكُوْرًا 001 “ ہر انسان پر ایک ایسا وقت تھا کہ وہ زمانہ میں کوئی ذکر کی گئی شے نہیں تھا ، کتنی صاف بات ہے کہ ” تمہارا کسی کو معلوم نہیں تھا اور نہ ہی تم خود جانتے تھے “ بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے تم کو انسان کی صورت عطا فرما کر اس دنیا میں موجود ہوجانے کا حکم دیا۔ لیکن افسوس ہے کہ ہمارے مفسرین نے اس مذبوح گائے کے بعض حصے کو اس مقتول کے بعض حصے سے مارنے کا واقعہ لکھ دیا ، ایسا کیوں ہوا ؟ زیادہ گہرائی میں اتر کر دیکھنے والوں کی نگاہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ اس واقعہ کی اصل نوعیت بدل دو لہٰذا انہوں نے اس کی اصل نوعیت بدلوادی اور اس طرح سے اپنا مطلب سیدھا کرلیا لیکن مسلم قوم کے مفسرین نہ سمجھ سکے کہ ہم کیا لکھ رہے ہیں ؟ اس طرح تو گویا اس گائے کی بزرگی روز روشن کی طرح واضح ہوگئی کہ دیکھو ہم نے جو گائے کی پرستش کی اور گائے کو ماتا کا خطاب دیا اور اس کو متبرک جانا تو وہ بالکل صحیح نکلا کہ گائے کا ٹکڑا مقتول سے مس ہونا تھا کہ مقتول زندہ ہوگیا جس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ گائے فی الواقعہ ایک متبرک جانور ہے جو قابل پرستش ہے تب ہی تو اس کے صرف چھونے سے زندگی واپس لوٹ آئی۔ قوم مسلم کے علمائے کرام کو غور کرنا چاہئے کہ وہ کس سادگی سے یہود کی چالاکی کا شکار ہوگئے۔ فافھم و فتدبر قرآن کریم کی عبارت پر پھر غور کرو قرآن کریم نے کیا فرمایا : وَ اللّٰهُ مُخْرِجٌ مَّا کُنْتُمْ تَكْتُمُوْنَۚ0072 اس آیت میں مُخْرِجٌ تھا جس کے مقابلہ میں اللہ نے یُحْیِ اللّٰهُ فرمایا اور اس جگہ تَكْتُمُوْنَۚ0072 تھا جس کے مقابلہ میں اللہ نے الْمَوْتٰىکا لفظ فرمایا۔ جس سے پوری وضاحت ہوگئی کہ یُحْیِ اللّٰهُ سے ظاہر ہونا قاتل کا اور الْمَوْتٰى سے نامعلوم یا غیر ظاہر ہونا قاتل کا مراد ہے نہ کہ مقتول کا زندہ ہونا۔ سبحان اللہ ! کہ اللہ اپنی قدرت اور اپنی حکمت کو انہیں باتوں میں جو انسان روزمرہ کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں ظاہر کرتا ہے مگر انسان کا خیال اس پر قناعت نہیں کرتا اور دور از کار باتوں کو پسند کرتا ہے ۔ افسوس کہ انسانی زندگی کے لئے کتنی رہنمائیاں تھیں جو صرف ایک واقعہ سے عیاں ہوتی تھیں اور کتنے وہ علوم ہیں جن کی بنیاد صرف اور صرف یہ واقعہ ہو سکتا تھا لیکن دوستوں نے ایسا اعجازی رنگ اس میں بھرا کہ وہ گویا ایک واقعہ تھا جو ہوگیا اور اب ہمارے لئے صرف اتنا ہی کافی ہے کہ واعظانہ رنگ کی چاشنی پائیں اور سر دھن کر رہ جائیں یا کسی مردہ کو بخشوانے کے لئے اس کی تلاوت کا ثواب جمع کریں۔ اس واقعہ قتل سے کوئی خاص اور اہم قوی قتل بھی مراد ہو سکتا ہے جیسے انبیاء کرام کے قتل کی بیماری بنی اسرائیل میں موجود تھی جس کا ذکر بھی اوپر کی آیات کریمات میں آچکا۔ لہٰذا کوئی مفسر اگر اس کی تحقیق میں کسی نبی کے قتل کی نشادہی کرسکیں تو وہ بھی صحیح ہو سکتی ہے اور اس سے بھی ان سب حقیقتوں کی وضاحت ہو سکتی ہے جو اس واقعہ کا اندر پوشیدہ ہیں۔ اللھم ذرفزر
Top