Al-Qurtubi - Al-Baqara : 73
فَقُلْنَا اضْرِبُوْهُ بِبَعْضِهَا١ؕ كَذٰلِكَ یُحْیِ اللّٰهُ الْمَوْتٰى١ۙ وَ یُرِیْكُمْ اٰیٰتِهٖ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ
فَقُلْنَا : پھر ہم نے کہا اضْرِبُوْهُ : اسے مارو بِبَعْضِهَا : اس کا ٹکڑا کَذٰلِکَ : اس طرح يُحْيِي اللّٰهُ : اللہ زندہ کرے گا الْمَوْتَىٰ : مردے وَيُرِیْكُمْ : اور تمہیں دکھاتا ہے اٰيَاتِهِ : اپنے نشان لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَعْقِلُوْنَ : غور کرو
تو ہم نے کہا اس بیل کا کوئی سا ٹکڑا مقتول کو مارو اسی طرح خدا مردوں کو زندہ کرتا ہے اور تم کو (اپنی قدرت کی) نشانیاں دکھاتا ہے تاکہ تم سمجھو
آیت نمبر 73 اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فقلنا اضربوہ ببعضھا بعض علماء نے فرمایا : بعض سے مراد زبان ہے کیونکہ وہ کلام کا آلہ ہے۔ بعض نے کہا : ریڑھ کی ہڈی، کیونکہ اس سے انسان کی تخلیق مرکب کی جاتی ہے۔ بعض نے فرمایا : ران ہے، بعض نے فرمایا : کوئی ہڈی ہے، کوئی کاٹا ہوا عضو ہے، جب اسے گائے کا کوئی ٹکڑا لگایا گیا تو وہ زندہ ہوگیا اور اس نے اپنے قاتل کے متعلق خبر دی پھر مردہ ہوگیا جس طرح پہلے تھا۔ مسئلہ : امام مالک (رح) نے قسامت کے قول کی صحت پر مقتول کے قول کا (میرا خون فلاں پر ہے یا مجھے فلاں نے قتل کیا ہے) ابن وہب اور ابن قاسم کی روایت سے استدلال کیا ہے۔ امام شافعی اور جمہور علماء نے مقتول کے قول سے استدلال سے منع کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں : یہی صحیح ہے کیونکہ مقتول کا قول میرا خون فلاں پر ہے یا مجھے فلاں نے قتل کیا ہے یہ ایک خبر ہے جو صدق وکذب کا احتمال رکھتی ہے اور اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ مدعیٰ علیہ کا خون معصوم ہے اور اس کو مباح کرنا ممنوع ہے مگر یقین کے ساتھ اور احتمال کے ہوتے ہوئے یقین نہیں ہو سکتا۔ پس مقتول کے قول کا اعتبار باطل ہے۔ رہا بنی اسرائیل کا مقتول تو وہ معجزہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے زندہ کرنے کی خبر دی تھی۔ وہ اپنے قاتل کے متعلق پختہ سچی خبر دینے کا متضمن ہے اس میں کوئی احتمال نہیں ہے۔ پس یہ دونوں باتیں ایک دوسرے سے جدا ہیں۔ ابن عربی نے کہا : اس شخص کے زندہ کرنے میں معجزہ تھا۔ جب وہ زندہ ہوگیا تو اس کا کلام قبول ورد میں دوسرے لوگوں کے کلام کی طرح ہوگیا۔ یہ ایک دقیق علم کا فن ہے جس کو صرف امام مالک ہی سمجھ سکتے ہیں، قرآن میں کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ جب وہ خبر دے گا تو اس کا صدق واجب ہوگا۔ ہو سکتا ہے انہیں اس کے ساتھ قسامت کا بھی حکم دیا ہو۔۔۔ امام بخاری، امام شافعی اور علماء کی ایک جماعت نے اس کو بعید سمجھا ہے۔ انہوں نے کہا : خون کے بارے اس کا قول کیسے معتبر ہوگا حالانکہ اس کا قول ایک درہم کے بارے بھی قبول نہیں کیا جائے گا۔ مسئلہ : قسامت کے حکم میں علماء کا اختلاف ہے۔ سالم، ابو قلابہ، عمر بن عبد العزیز اور حکم بن عینیہ سے اس کے حکم کے بارے میں توقف مروی ہے۔ امام بخاری کا میلان بھی اسی طرف ہے کیونکہ انہوں نے قسامت کی حدیث اپنی جگہ پر ذکر نہیں کی۔ جمہور علماء نے کہا : قسامت کا حکم نبی کریم ﷺ سے ثابت ہے پھر اس کے حکم کی کیفیت میں اختلاف ہے۔ ایک طائفہ نے کہا : پہلے دعویٰ کرنے والے قسمیں اٹھائیں گے۔ جب وہ قسمیں اٹھا دیں گے تو وہ مستحق ہوجائیں گے اگر وہ انکار کریں گے تو مدعیٰ علیہم پچاس قسمیں اٹھائیں گے اور بری ہوجائیں گے۔ یہ اہل مدینہ، لیث، امام شافعی، امام احمد اور ابو ثور کا قول ہے۔ اس کی دلیل حویصہ اور محیصہ والی حدیث ہے۔ اس کو امام مالک وغیرہ نے تخریج کیا ہے۔ ایک گروہ کا خیال ہے کہ مدعیٰ علیہم سے پہلے قسم لی جائے گی۔ پس وہ قسمیں اٹھا دیں گے تو وہ بری ہوجائیں گے۔ حضرت عمر بن خطاب، شعبی اور نخعی سے یہی مروی ہے، ثوری اور کو فیوں نے بھی کہا ہے اور ان علماء نے شعبہ بن عبید عن بشیر بن یسار کی حدیث سے حجت پکڑی ہے جس میں ہے مدعیٰ علیہم پہلے قسمیں اٹھائیں اور وہ یہود تھے۔ اور اس حدیث سے حجت پکڑی ہے جسے ابو داؤد نے عن الزھری عن ابی سلمہ بن عبد الرحمن عن رجال من الانصار کے سلسلہ سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے یہود سے فرمایا : اور پہلے ان سے آغاز کیا، کیا تم میں سے پچاس آدمی قسمیں اٹھائیں گے ؟ انہوں نے انکار کیا۔ آپ نے پھر انصار سے فرمایا : (تم قسمیں اٹھا کر) اپنا حق طلب کرو۔ انہوں نے کہا : یا رسول اللہ ! ﷺ ہم غیب پر (کیسے) قسمیں اٹھائیں ؟ رسول اللہ ﷺ نے دیت یہود پر لازم فرمائی کیونکہ مقتول ان کے درمیان پایا گیا تھا، اور نبی کریم ﷺ کے اس ارشاد سے حجت پکڑی ہے کہ “ قسم مدعیٰ علیہ پر ہے (1) ” پس مدعیٰ علیہ متعین کیے گئے۔ ان علماء نے فرمایا : یہ قطعی اصل ہے دعوی میں جس کی حکمت پر شرع نے تنبیہ فرمائی ہے “ اگر لوگوں کو ان کے متعلق دیا جاتا تو لوگ دوسرے لوگوں کے خون اور مالوں کا دعویٰ کرتے لیکن قسم مدعیٰ علیہ پر ہے۔” پہلے مقالہ والوں نے ان کا جواب اس طرح دیا ہے کہ سعید بن عبید کی حدیث یہود کے آغاز کرانے میں اہل حدیث کے نزدیک وہم ہے۔ اسے نسائی نے نقل کیا ہے اور انہوں نے فرمایا : اس روایت میں سعید کا متابع کوئی نہیں اور حضرت بشیر عن سہیل کی حدیث ہے کہ نبی کریم ﷺ نے مدعین سے آغاز فرمایا۔ حضرات یحییٰ بن سعید، ابن عینیہ، حماد بن زید، عبد الوہاب الثقفی، عیسیٰ بن حماد اور بشیر بن المفضل یہ سات افراد ہیں انہوں نے اس حدیث کو مسند ذکر کیا ہے۔ اگرچہ اس حدیث کو امام مالک نے مرسل ذکر کیا لیکن حفاظ کی ایک جماعت نے اسے متصل ذکر کیا ہے۔ یہ حدیث سعید بن عبید کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے۔ ابو محمد الاصیلی نے کہا : خبر واحد کے ساتھ ایک جماعت کی خبر پر معارضہ کرنا جائز نہیں اس کے ساتھ ساتھ سعید بن عبید نے اپنی حدیث میں کہا : نبی کریم ﷺ نے صدقہ کے اونٹوں سے سو اونٹ اس کی دیت دی اور صدقہ دیت میں نہیں دیا جاتا اور صدقہ کے ذریعے غیر اہل سے صلح نہیں کی جاتی۔ ابو داؤد کی حدیث مرسل ہے اس کے ساتھ احادیث صحیحہ متصلہ کا معارضہ نہیں کیا جاسکتا اور اصل میں تمسک کا یہ جواب دیا ہے کہ یہ حکم خونوں کی حرمت کے لئے بنفسہ اصل ہے۔ ابن منذر نے کہا : یہ ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بینہ (دلیل) کو مدعی اور قسم کو مدعیٰ علیہ پر جاری فرمایا اور اس کے ظاہر کے ساتھ حکم لگانا واجب ہے مگر اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں یا اپنے نبی کی زبان پر کسی چیز کے بارے میں حکم کو خاص کر دے تو اس خبر سے اس کی استثناء کی جائے گی۔ ان چیزوں میں کتاب اللہ جس پر دلالت کرتی ہے مقذوف کی حد، قاذف کو لازم کرنا جب اس کے پاس چار گواہ نہ ہوں جو قاذف کی صداقت کی گواہی دیں۔ اس بارے میں جو اس نے مقذوف پر تہمت لگائی۔ اسی طرح جس نے اپنی بیوی پر تہمت لگائی تو اسے اس سے حد کو ساقط کرنے کے ساتھ خاص فرمایا جب کہ وہ چار مرتبہ شہادت دے، اور ان دلائل میں سے جس کو سنت نے خاص کیا ان میں نبی کریم ﷺ کا قسامت کے ساتھ فیصلہ کرنا ہے۔ ابن جریج نے عطاء عن ابی ہریرہ کے سلسلہ سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : دعویٰ کرنے والے پر گواہ پیش کرنا ہے اور قسم منکر پر ہے مگر قسامت میں (ایسا نہیں) اس حدیث کو دار قطنی نے نقل کیا ہے۔ امام مالک نے اس مسئلہ کے لئے مؤطا میں جس دلیل سے حجت پکڑی ہے اس میں کفایت ہے، وہاں غور کرو۔ مسئلہ : قسامت کے ساتھ قصاص کے وجوب میں بھی اختلاف ہے۔ ایک طائفہ نے اس کے ساتھ قصاص واجب کیا ہے۔ یہ امام مالک، لیث، احمد اور ابو ثور کا قول ہے۔ اس کی وجہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے جو آپ نے حویصہ محیصہ اور عبد الرحمٰن کو فرمایا کیا تم قسم اٹھاؤ گے اور تم اپنے ساتھ کے خون کے مستحق ہوجاؤ گے (2) ۔ ابو داؤد نے عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ کے سلسلہ سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے بنی نضر بن مالک کے ایک شخص کو قسامت کی وجہ سے قتل کیا۔ دار قطنی نے کہا : عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ کا نسخہ صحیح ہے۔ اسی طرح ابو عمر عبد البر نے عمرو بن شعیب کی حدیث کو صحیح قرار دیا ہے اور اس سے حجت پکڑی ہے۔ امام بخاری نے فرمایا : میں نے علی بن مدینی، احمد بن حنبل، حمیدی، اسحاق بن راہویہ کو دیکھا وہ اس حدیث سے حجت پکڑتے تھے۔ دار قطنی نے “ السنن ” میں یہی کہا۔ ایک جماعت نے کہا : ایک جماعت نے کہا : قسامت کے ساتھ قصاص نہیں ہے اس سے دیت واجب ہوتی ہے۔ یہ حضرت عمر اور حضرت ابن عباس سے مروی ہے یہی نخعی اور حسن کا قول ہے۔ یہی نظریہ ثوری، کو فیوں، امام شافعی اور اسحاق کا ہے۔ ان علماء نے اس روایت سے حجت پکڑی ہے جو امام مالک سے ابن ابی لیلیٰ بن عبد اللہ عن سہل بن ابی حثمہ کے سلسلہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے انصار کو فرمایا : تم اپنے ساتھی کی دیت دے دو یا اعلان جنگ کرو۔ ان علماء نے فرمایا : یہ دیت پر دلیل ہے نہ کہ قصاص پر اور یہ علماء فرماتے ہیں : نبی کریم ﷺ کا حویصہ وغیرہ کو یہ کہنا کہ تم اپنے ساتھی کے خون کے مستحق ہوجاؤ گے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ تم اپنے مقتول کے خون کی دیت کے مستحق ہوجاؤ گے کیونکہ یہود ان کے اصحاب نہیں تھے اور جو اپنے ساتھی کی دیت کا مستحق ہوگا وہی اس کے خون کا مستحق ہوگا کیونکہ کبھی دیت قتل عمد میں لی جاتی ہے۔ پس یہ خون کا استحقاق ہوگا۔ مسئلہ : قسامت کا موجب جب اللوث ہے اس کا ہونا ضروری ہے اور اللوث سے مراد ایسی علامت ہے جو قتل کے مدعی کی سچائی کو ظن پر غالب کر دے۔ مثلاً ایک عادل آدمی کا قتل کے دیکھنے پر گواہی دینا یا مقتول اپنے خون میں لت پت دیکھا گیا اور جس پر تہمت لگائی ہے وہ اسی طرح ہے یا اس کے قریب ہے اس پر قتل کے آثار ہیں۔ اللوث، اس کے متعلق قول میں اختلاف ہے۔ امام مالک نے فرمایا : وہ مقتول کا قول ہے کہ میرا خون فلاں کے پاس ہے۔ ایک عادل گواہ لوث ہے۔ اسی طرح ابن القاسم کی روایت مالک سے ہے۔ اشہب نے مالک سے روایت کیا ہے کہ ایک غیر عادل شاہد اور ایک عورت کے ساتھ قسم لی جائے گی۔ ابن وہب نے روایت کیا ہے کہ عورتوں کی گواہی لوث ہے۔ محمد نے ابن قاسم سے روایت کیا ہے کہ دو عورتوں کی گواہی لوث ہے نہ کہ ایک عورت کی گواہی۔ قاضی ابوبکر بن عربی نے کہا : اللوث میں بہت زیادہ اختلاف ہے۔ مذہب مشہور یہ ہے کہ وہ عادل شاہد ہے۔ محمد نے کہا : یہی میرے نزدیک محبوب ہے۔ فرمایا : ابن القاسم اور ابن عبد الحکم نے اسی کو اختیار کیا۔ عبد الملک بن مروان سے مروی ہے کہ مجروح اور مضروب جب ہے کہ میرا خون فلاں پر ہے اور پھر وہ مرجائے تو قسامت ہے۔ امام مالک اور لیث بن سعد کا بھی یہی قول ہے۔ امام مالک نے بنی اسرائیل کے مقتول سے حجت پکڑی ہے۔ اس نے کہا تھا : مجھے فلاں نے قتل کیا۔ امام شافعی نے فرمایا : اللوث ایک گواہ ہے یا تو وہ دلیل لائے اگرچہ وہ عادل نہ بھی ہوں۔ ثوری اور کو فیوں نے صرف مقتول کے پائے جانے کے ساتھ قسامت کو ثابت کیا ہے اور انہوں نے مقتول کے قول کی رعایت اور ایک گواہ کی کوئی پرواہ نہیں کی۔ وہ کہتے ہیں : جب مقتول ایک قوم کے محلہ میں پایا گیا اور اس پر قتل کا اثر بھی ہے تو اس جگہ کے لوگ حلف اٹھائیں گے کہ انہوں نے اسے قتل نہیں کیا اور دیت ان (اہل محلہ) پر ہوگی اور جب اس پر قتل کا کوئی اثر نہ ہوگا تو عاقلہ پر کچھ نہ ہوگا مگر یہ کہ کسی ایک کے خلاف بینہ (دلیل) قائم ہوجائے۔ سفیان نے کہا : ہمارے نزدیک اس پر اجماع ہے۔ یہ ضعیف قول ہے۔ انہوں نے اہل علم کی مخالفت کی ہے۔ اس میں ان سے پہلے کوئی ایسا قول کرنے والا نہیں ہے۔ یہ قول قرآن وسنت کے مخالف ہے کیونکہ اس میں عاقلہ پر بغیر دلیل اور بغیر اقرار کے مال کو لازم کرنا ہے۔ امام مالک اور امام شافعی کا نظریہ ہے کہ مقتول جب کسی قوم کے محلہ میں پایا جائے تو وہ رائیگاں ہے کسی قریبی گھر والے کو نہیں پکڑا جائے گا کیونکہ کبھی مقتول قتل کیا جاتا ہے پھر اسے کسی دوسرے قوم کے دروازے پر ڈال دیا جاتا ہے تاکہ وہ ملوث ہوجائیں۔ پس ایسی صورت میں مؤاخذہ نہیں ہوگا حتیٰ کہ وہ اسباب جو قسامت کے وجوب میں علماء نے مقرر کیے ہیں وہ پائے جائیں۔ حضرت عمر بن عبد العزیز نے کہا : اس میں فیصلہ کو مؤخر کیا جائے گا حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اس میں فیصلہ فرمائے گا۔ مسئلہ : قاسم بن مسعدہ نے کہا : میں نسائی سے کہا امام ماک قسامت کا قول نہیں کرتے مگر لوث کے ساتھ، پھر انہوں نے قسامت کی حدیث کیوں ذکر کی ہے۔ اس میں لوث کا ذکر تو نہیں ہے۔ نسائی نے کہا : مالک نے انصار اور یہود کے درمیان جو عداوت تھی اسے لوث کے قائم مقام رکھا ہے اور لوث اور میت کے قول کو عداوت کے قائم مقام رکھا ہے۔ ابن ابی زید نے کہا : اس کی اصل بنی اسرائیل کے قصہ میں ہے جب اللہ تعالیٰ اس شخص کو زندہ فرمایا جس کو گائے کا کوئی حصہ لگایا گیا تھا اور اس نے کہا تھا : مجھے فلاں نے قتل کیا ہے اور عداوت بھی لوث (علامت) ہے۔ امام شافعی نے فرمایا : ہم مقتول کے قول کو لوث نہیں سمجھتے جیسا کہ پیچھے گزرا ہے۔ امام شافعی نے فرمایا : جب دو قوموں میں عداوت ظاہر ہو جیسا کہ انصار اور یہود کے درمیان عداوت تھی اور مقتول کسی ایک فریق میں پایا گیا ہو اور ان کے درمیان اور کوئی قوم نہ ہو تو قسامت اس میں واجب ہوگی۔ مسئلہ : اس مقتول کے بارے اختلاف ہے جو اس محلہ میں پایا گیا جس کے باشندے کرائے دار ہیں۔ اصحاب الرائے نے کہا : قسامت مالکوں پر ہوگی، رہائشی لوگوں پر کچھ نہ ہوگا، اگر وہ مالکان اپنے مکانات بیچ دیں پھر کوئی مقتول پایا گیا تو دیت مشتری پر ہوگی رہنے والوں پر کچھ نہ ہوگا۔ اگر گھروں کے مالکان غائب ہوں اور انہوں نے اپنے گھر کرائے پر دے دئیے ہوں تو قسامت اور دیت غائب مالکان پر ہوگی، رہائشیوں پر کچھ نہ ہوگا جن کے درمیان وہ مقتول پایا گیا۔ پھر یعقوب نے اس قول سے رجوع کرلیا۔ اس نے کہا : قسامت اور دیت گھروں میں رہنے والوں پر ہوگی۔ اس قول کو ابن ابی لیلیٰ سے حکایت کیا ہے اور انہوں نے اس سے بھی حجت پکڑی ہے کہ اہل خیبر عمال تھے اور رہائشی تھے (مالکان نہیں تھے) وہ کام کرتے تھے۔ پس مقتول ان میں پایا گیا۔ ثوری نے کہا : ہم کہتے ہیں : وہ اصل مالکوں پر ہوگا۔ امام احمد نے کہا : ابن ابی لیلیٰ کا قول قسامت میں ہے نہ کہ دیت میں ہے۔ امام شافعی نے فرمایا : یہ سب برابر ہیں، نہ دیت ہے نہ قصاص ہے مگر ایسی دلیل کے ساتھ جو قائم ہوجائے یا کوئی ایسی بات پائی جائے جو قسامت کو ثابت کرے تو اولیاء قسم دیں گے۔ ابن منذر نے کہا : یہ قول اصح ہے۔ مسئلہ : قسامت میں پچاس سے کم آدمی قسم نہیں اٹھائیں گے کیونکہ حویصہ اور محیصہ کی حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا : “ تم میں پچاس سے کم آدمی قسم نہیں اٹھائیں گے ان میں سے کسی ایک پر۔ ” اگر مستحق پچاس ہوں تو ان میں سے ہر ایک ایک قسم اٹھائے گا۔ اگر ان کی تعداد پچاس سے کم ہو یا ان میں سے کوئی ایسا شخص قسم اٹھانے سے انکار کرے جس کا معاف کرنا جائز نہیں تو ان کی تعداد کے مطابق ان پر قسمیں لوٹائی جائیں گی اور قتل عمد میں دو مردوں سے کم قسم نہیں اٹھائیں گے۔ مردوں میں سے ایک اور عورتیں قسم نہیں اٹھائیں گی، اولیاء قسم اٹھائیں گے اور وہ قسم اٹھائیں گے جن سے اولیاء مدد طلب کرتے ہوں گے عصبہ میں سے اور یہ پچاس قسمیں اٹھائیں گے۔ یہ امام مالک، امام لیث، امام ثوری، امام اوزاعی، امام احمد اور داؤد کا مذہب ہے۔ مطرف نے مالک سے روایت کیا ہے کہ مدعیٰ علیہ کے ساتھ کوئی قسم نہیں اٹھائے گا اور وہی خود قسمیں اٹھائیں گے جیسا کہ اگر وہ ایک ہو یا زیادہ ہوں تو پچاس قسمیں اٹھائیں گے اور اپنے آپ کو قسموں کے ذریعے بری کریں گے۔ یہ امام شافعی کا قول ہے۔ امام شافعی نے فرمایا : قسم نہیں اٹھائے گا مگر وارث خواہ قتل عمد ہو یا قتل خطا ہو۔ مال پر قسم نہیں اٹھوائی جائے گی اور اس کا مستحق نہ ہوگا مگر جس کے لئے بذات خود مالک ہو یا ورثاء میں سے جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے ملک بنائی ہو اور ورثاء اپنی اپنی میراث کے مطابق قسمیں اٹھائیں گے۔ یہ ابو ثور کا قول ہے۔ ابن منذر نے اس کو اختیار کیا اور یہی صحیح ہے کیونکہ جس پر دعویٰ نہیں کیا گیا اس کے لئے کوئی سبب نہیں ہے کہ اس کی طرف اس میں قسم متوجہ ہو (یعنی اس سے قسم لی جائے) ۔ قسم سے مقصود دعویٰ سے برأت ہے اور جس پر دعویٰ ہی نہیں کیا گیا وہ بری ہے۔ امام مالک نے قتل خطا میں فرمایا : اس میں مردوں میں سے اور عورتوں میں سے ایک قسم لی جائے گی۔ جب پچاس قسمیں ایک سے یا زیادہ سے مکمل ہوجائیں گے تو قسم اٹھانے والا میراث کا مستحق ہوگا اور جو قسم سے انکار کرے گا وہ کسی چیز کا مستحق نہ ہوگا۔ اگر وہ آجائے جو غائب تھا اور قسم اٹھا دے جو اس پر واجب تھی تو وہ میراث کا مستحق ہوگا۔ یہ امام مالک کا مشہور قول ہے اور امام مالک سے ایک قول یہ بھی مروی ہے کہ وہ قتل خطا میں قسامت نہیں دیکھتے تھے۔ قسامت کے مسائل، اس کی فروع اور احکام اور اختلاف کتب فقہ میں موجود ہیں اور جو کچھ ہم نے ذکر کیا ہے اس میں کفایت ہے۔ مسئلہ : اس گائے کے قصہ میں دلیل ہے کہ ہم سے پہلے لوگوں کی شریعت ہمارے لئے بھی شریعت ہے۔ متکلمین اور فقہاء کی ایک قوم نے اسے اختیار کیا ہے۔ کرخی نے اسے اختیار کیا ہے۔ ابن بکیر قاضی جو ہمارے علماء سے ہیں انہوں نے اس پر نص قائم کی ہے۔ قاضی ابو محمد عبد الوہاب نے کہا : یہ وہ ہے جس کا تقاضا مالک کے اصول کرتے ہیں اور ان کا اختلاف ان کی کتب میں موجود ہے۔ امام شافعی کا میلان بھی اسی طرح ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فبھدھم اقتدہ (انعام :90) (ان کی ہدایت کی اقتداء کرو) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : کذلک یحی اللہ الموتیٰ یعنی طرح اس نے اس شخص کو مرنے کے بعد زندہ کیا اسی طرح اللہ تعالیٰ ہر مرنے والے کو زندہ کرے گا، اس میں کاف محل نصب میں ہے کیونکہ وہ مصدر محذوف کی صفت ہے۔ ویریکم ایتہ یعنی اپنی علامات اور اپنی قدرت لعلم تعقلون تاکہ سمجھ جاؤ۔ اس کا مفہوم پہلے گزر چکا ہے۔ یعنی تم اس کی نافرمانی سے رک جاؤ۔ عقلت نفسی عن کذا یعنی میں نے اپنے نفس کو اس چیز سے روکا۔ المعاقل، قلعے۔
Top