Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mutaliya-e-Quran - Al-Baqara : 73
فَقُلْنَا اضْرِبُوْهُ بِبَعْضِهَا١ؕ كَذٰلِكَ یُحْیِ اللّٰهُ الْمَوْتٰى١ۙ وَ یُرِیْكُمْ اٰیٰتِهٖ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ
فَقُلْنَا
: پھر ہم نے کہا
اضْرِبُوْهُ
: اسے مارو
بِبَعْضِهَا
: اس کا ٹکڑا
کَذٰلِکَ
: اس طرح
يُحْيِي اللّٰهُ
: اللہ زندہ کرے گا
الْمَوْتَىٰ
: مردے
وَيُرِیْكُمْ
: اور تمہیں دکھاتا ہے
اٰيَاتِهِ
: اپنے نشان
لَعَلَّكُمْ
: تاکہ تم
تَعْقِلُوْنَ
: غور کرو
اُس وقت ہم نے حکم دیا کہ مقتول کی لاش کو اس کے ایک حصے سے ضرب لگاؤ دیکھو اس طرح اللہ مُردوں کو زندگی بخشتا ہے اور تمہیں اپنی نشانیاں دکھاتا ہے تاکہ تم سمجھو
[ فَقُلْنَا : تو ہم نے کہا ] [ اضْرِبُوْهُ : تم لوگ مارو اس کو ] [ بِبَعْضِهَا ۭ : اس کے حصہ سے ] [ كَذٰلِكَ : اس طرح ] [ يُـحْىِ اللّٰهُ : اللہ زندہ کرتا ہے ] [ الْمَوْتٰى ۙ : مردہ کو ] [ وَيُرِيْكُمْ : اور وہ دکھاتا ہے تم کو ] [ اٰيٰتِهٖ : اپنی نشانیاں ] [ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ : شاید تم لوگ عقل کرو ] [ فَقُلْنَا اضْرِبُوْ بِبَعْضِھَا ] ابتدائی ” فَ “ = پس : پھر ہے اور ” قُلْنَا “ (ہم نے کہا) اس سے پہلے اسی سورت (البقرہ) میں سات دفعہ آچکا ہے۔ پہلی دفعہ یہ لفظ (قلنا) البقرہ :34 [ 3:25:1 (1)] (واذ قلنا للملئکۃ) میں آیا ہے، اور اس کے مادہ ’ باب ‘ تعلیل اور معنی وغیرہ پر وہاں بھی اور البقرہ :8 [ 2:7:1 (5)] میں بھی بات ہوئی تھی۔ ؤ [ اِضْرِبُوْ ] میں آخری ضمیر (ہ) تو ” اس کو “ کے معنی میں ہے اور فعل ” اِضْرِبُوْا “ کے مادہ (ض رب) باب اور معنی وغیرہ کی اس سے پہلے البقرہ :26 (ان یضرب مثلاً ) [ 2:19:1 (2)] میں اور البقرہ :60 [ 2:38:1 (2)] میں مزید وضاحت ہوئی تھی۔ یہ فعل (ضَرب یضرِب) ایک کثیر المعانی فعل ہے جو مختلف صلات کے ساتھ تیس سے بھی زائد معانی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اور خود قرآن کریم میں یہ متعدد معانی کے لیے آیا ہے جن کو ہم حسب موقع بیان کرتے جائیں گے۔ (دو حوالے اوپر دیئے گئے ہیں) ؤ [ ببَعْضِھَا ] کی ابتدائی ” بِ “ یہاں فعل ” ضربَ “ کا ایک صلہ ہے جو اس چیز سے پہلے لگتا ہے (پتھر، ڈنڈا وغیرہ) جس سے کسی چیز کو مارا جائے۔ اس کی مثال آپ ” اضرِبْ بعصاک الحجَر “ یعنی البقرہ :60 [ 2:38:1 (2)] میں پڑھ آئے ہیں۔ ” بعضھا “ کے ” بعض “ کے مادہ وغیرہ کی ” ضرب… بِ …“ کے معنی ہیں۔ ” اس نے … کو… سے مارا “ مثلاً کہیں گے ” ضربہ بالید : بالعصا : بالسوط “ یعنی اس نے اسے ہاتھ : لاٹھی : چابک سے مارا۔ “ ؤ اس طرح اس عبارت ” فقُلنا اضرِبُوہ ببعضِھا “ کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ” پس ہم نے کہا تم مارو اس (ہ) کو اس (ھا) کے بعض (کچھ حصے) سے “ اس آیت کی تفسیر میں ایک قصہ بیان کیا گیا ہے۔ اکثر مترجمین نے اسی تفسیری قصے کو سامنے رکھتے ہوئے یہاں ” بعضھا “ (اس کے بعض) کا ترجمہ ” اس کا ٹکڑا یا ایک ٹکڑا “ کے ساتھ کیا ہے۔ اور پھر اس ” تفسیر “ کی وجہ سے یہاں ” ضرب “ بمعنی ” پیٹنا “ (مارنا) بھی نہیں بنتا اس لیے یہاں فعل ” ضرب “ کا ترجمہ ” چھوا دینا “ سے کیا گیا ہے یعنی ” ہم نے کہا کہ اس کو اس کے کوئی (کسی) ٹکڑے سے چھو دو ۔ “ تاہم بیشتر مترجمین نے ” اضرِبُو “ کا ترجمہ ” اس کو مارو : ماردو “ سے ہی کیا ہے جو لفظ سے زیادہ قریب ہے۔ ؤ اور اسی تفسیری قصے کو ملحوظ رکھتے ہوئے (جسے آپ ان آیات کے ضمن میں کسی تفسیر یا تفسیری حاشیے میں دیکھ سکتے ہیں) اس عبارت میں ” اضربوہ “ کی ضمیر منصوب (ہ) اس مقتول کے لیے ہے جس کا ذکر ابھی اوپر ” اذ قتتم نفسًا “ البقرہ :73 [ 2:45:1] میں ہوا ہے اور ” ببعضھا “ کی ضمیر مجرور (ھا) اس گائے کے لیے ہے جس کا قصہ اوپر ” ان تذبحوا بقرۃ “ البقرہ :67 [ 2:33:1] کے ضمن میں (البقرہ :67 تا 71 میں) بیان ہوا ہے۔ اسی لیے بیشتر مترجمین یہاں تفسیری ترجمہ کرتے ہوئے ” اضربوہ “ اور ” ببعضھا “ کی ضمیروں (ھا) کے لیے ان کے مرجع کو اسم ظاہر کی صورت میں ہلائے ہیں یعنی ” اضربوہ “ = ” ماتو تم اس مردے کو : مقتول کو : اس میت پر : مردے پر “ اور ” ببعضھا “ یعنی اس گائے کا ایک : کوئی ٹکڑا : گائے کے ٹکڑے سے “ وغیرہ۔ ان تمام تراجم کو تفسیری تراجم ہی کہا جاسکتا ہے جن کی صحت اس قصے کی صحت پر منحصر ہے جو اس آیات کے ضمن میں بیان کیا گیا ہے۔ اور اس کے لیے کسی مستند تفسیر کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ ؤ اس تفسیری قصے میں چونکہ ایک خارق عادت (معجزانہ) طریقے کا ذکر آتا ہے لہٰذا اس کی روایتی پڑتال بھی ضروری ہے۔ بہرحال اس بارے میں نبی کریم ﷺ سے مرفوعاً (براہِ راست) کچھ ثابت نہیں اس لیے بعض مفسرین (مثلاً ابن کثیر اور صاحب النار) نے فہم آیت کے لیے اس قصہ کو ہی غیر ضروری قرار دیا ہے۔ ؤ تفسیری مباحث میں جانا ہمارے دائرہ کار سے باہر ہے۔ مگر زیر مطالعہ میں فعل ” ضرب “ کے استعمال (اضربو ببعضھا = اس کو اس کے بعض سے مارو) سے جو ایک ابہام اور استفہام پیدا ہوتا ہے (یعنی کس کو ؟ کس سے ؟ کیوں کر ؟ کس لیے ؟ ) اس کی ” وضاحت “ یا ” تسکین تجسس کے لیے ” مقتول، قتل یا قاتل “ کے بارے میں کچھ نہ کچھ بیان کرنا ضروری معلوم ہوا۔ اس ” بیان “ کی کانہ پری کے لیے قدمار مفسرین تو وہ روایت لائے جن کی طرف اوپر اشارہ کیا گیا ہے۔ اور جو بلحاظ سند کسی مضبوط اساس پر نہیں ہیں۔ ؤ صاحب النہار نے اسے توریت (کتاب استثنائ :21) کے ایک حکم سے متعلق قرار دیا ہے جس کا تعلق ” الزام قتل سے اظہار براءت کے طریقہ “ سے ہے۔ مگر اس صورت میں اسی فقرہ (اضربوہ ببعضھا) کی کوئی وضاحت نہیں ہوتی۔ ؤ اس ضمن میں حیران کن موقف منکرین سنت کا ہے جو احادیث اور روایات کے غیر مستند ہونے کا بہت شور مچاتے ہیں۔ مگر خود اس آیت کے ضمن میں پرویز صاحب نے ایک من گھڑت قصہ ” دریافت قاتل “ کا لکھ دیا ہے۔ کہ قاتل کا سراغ نکالنے کی ایک نفسیاتی ترکیب یہ بتائی گئی کہ ” تم میں سے ایک ایک جائو اور مقتول کے کسی حصۂ جسم کو اٹھا کر لاش کے ساتھ لگا دو (مقتول اور لاش دو الگ چیزیں تھیں ؟ ) چناچہ جو مجرم تھا جب وہ لاش کے قریب پہنچا تو خوف کی وجہ سے اس سے ایسے آثار نمایاں ہوگئے جو اس کے جرم کی غمازی کرنے کے لیے کافی تھے اس طرح اللہ نے اس قتل کے راز کو بےنقاب کردیا۔ “ اور اس ” خود ساختہ “ قصے کے لیے کسی حوالہ یا سند کی ضرورت تک محسوس نہیں کی گئی۔ بلکہ جدید تعلیم یافتہ حضرات کو محض الفاظ کی بازیگری (قاتل کا سراغ لگانے کی ” نفسیاتی “ ترکیب ” جرم کی غمازی، راز کو بےنقاب کرنا، خوف کے آثار “ (وغیرہ) سے مرعوب یا بیوقوف بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ عربی زبان سے ناواقف کیا جانیں کہ یہاں فعل ” ضرب “ کا بامحاورہ (Idiomatic) اور بلحاظ سیاق استعمال کیا معنی دیتا ہے ؟ اور مذکر و مونث ضمائر (” ہ “ اور ” ھا “ ) کا استعمال کس ضرورت کے لیے کیا گیا ہے ؟ (شاید ” حصۂ جسم “ اور ” لاش “ کا مفہوم اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے نکالا گیا ہے۔ کیونکہ اردو میں ” حصہ “ مذکر اور ” لاش “ مؤنث ہے۔ رہا تذکیر و تانیث کا عربی میں استعمال تو اس کو ” ملا ‘ کے سوا کون جانتا ہے ؟ ) ؤ اور اس سے بھی زیادہ جاہلانہ مفہوم قادیانیوں نے نکالا ہے جنہوں نے یہاں شخص مقتول سے مراد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) لے کر ” قَتَلْتُمْ “ کا ترجمہ ” تم نے قتل کرنے کا دعویٰ کیا “ کرکے اپنا ” لُچ تلنے “ کی کوشش کی ہے۔ گویا قاتل کی بجائے ” مقتول “ دریافت کرنا مطلوب تھا۔ پھر ” اضربو ببعضھا “ کا ترجمہ کیا ہے “ اس واقعہ کو اس کے بعض دوسرے واقعات کے ساتھ ملا کر دیکھو “ یہ ہے وہ انداز استدلال جس پر قرآن کریم کی آیت ” فما ذا بعد الحق الا الضلال “ (یونس :42) پوری طرح چسپاں ہوتی نظر آتی ہے (یعنی جب حق سے منہ موڑا تو پھر گمراہی کے سوا اور کس چیز کی توقع کی جاسکتی ہے) اور قرآن کے ساتھ اس قسم کی ” باطنی “ چالبازیوں اور ذہنی بازی گریوں کو دیکھ کر یہ احساس کتنی شدت سے ابھرتا ہے کہ قرآن کریم کے فہم کے لیے عربی بان کا سیکھنا کتنا ضروری ہے۔ ؤ ان لوگوں کے لغت ِ قرآن سے اس تلاعب (بازیگری) کی نسبت تو ان آیات کی اس تفسیری قصہ کے ساتھ (جو کتب تفسیر میں وارد ہوا ہے اور جس کی طرف پہلے اشارہ ہوا ہے) وضاحت اس لحاظ سے بہتر معلوم ہوتی ہے کہ اس میں کم از کم قرآن کریم کی نض (الفاظِ عبارت) سے تو انحراف نہیں ہوا۔ اور نہ ہی ضمائر کے مراجع کی تعیین میں سیاق عبارت سے تجاوز ہوا ہے۔ ؤ اور اگر ہم قصے کی تفسیری تفاصیل کو غیر ضروری سمجھ کر مضمون کے اجمال تک محدود رہیں کہ اس ” قتل “ اور ” گائے کے ذبح “ کرنے میں کوئی تعلق ضرور تھا اور یہ ” دریافت قاتل “ کا کوئی طریقہ تھا جو اگر معجزانہ اور غارق عادت طریقے پر ظاہر ہوا ہو تو ایسا ہونا ” بالکل ناممکن “ تو نہیں ہوسکتا البتہ اس کے اثبات کے لیے ” قوتِ روایت “ درکار ہوگی۔ جو موجودہ روایات میں مفقود یا ضعیف ہے۔ اس لیے اگر ہم اصل قصہ کے ابہام کو دور کرنے کی کوشش ترک کرکے صرف نفس واقعہ پر مجمل ایمان رکھیں تو کیا حرج ہے ؟ بقول حافظ ابن کثیر ” اگر اس واقعہ کی تفاصیل کی تعیین میں کوئی دینی دنیاوی فائدہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ ضرور اسے واضح کرتا۔ مگر جسے اللہ نے مبہم رکھا ہے اور جس کے بارے نبی معصوم ﷺ سے کوئی خبر صحیح بھی ثابت نہیں تو پھر ہم بھی اس کو مبہم رکھنا بہتر سمجھتے ہیں۔ ” فنحن نُبْھِمُہ کما اَبْھَمہُ اللّٰہ “ (تفسیر ابن کثیر 1:166 ۔ طبع دارالمعارف) [ کَذَلِکَ یُحْیِ اللّٰہُ الْموتٰی ] اس جملے کے تمام کلمات کے الگ الگ معانی و استعمال پہلے مختلف مقامات پر گزر چکے ہیں۔ مثلاً ” کذلک “ = ک+ ذلک اور ” ک “ کے معنی ہیں ” کی مانند، کی طرح، جیسا “ چاہیں تو تفصیل کے لیے دیکھئے البقرہ :17 [ 2:13:1 (1)] ” ذلک “ اسم اشارہ بعید بمعنی ” وہ “ ہے۔ (تفصیل کے لیے البقرہ :2 [ 2:1:1 (1)] دیکھ لیجئے) اس طرح ” کذلک “ کا ترجمہ ہوگا ” اس جیسا، اس کی مانند اور اس کی طرح “ اور اس کو بامحاورہ اردو میں ” اسی طرح “ سے ظاہر کیا جاتا ہے۔ ؤ ” یُحْیی “ کا مادہ ” ح ی ی “ اور وزن اصلی ” یُفْعِلُ “ ہے۔ یہ دراصل ” یُحْیِی “ تھا جس میں آخری یاء ماقبل مکسور ہونے کے باعث ساکن ہوجاتی ہے۔ یہ (یُحْیٖ ) اس مادہ سے باب افعال کا فعل مضارع صیغہ واحد مذکر غائب ہے۔ اس باب سے فعل ” اَحْیا یُحْیٖ إحْیائً “ (زندہ کرنا، زندگی دینا) کے معنی و استعمال پر البقرہ :28 [ 2:20:1 (3)] میں بات ہوچکی ہے۔ (اس مادہ سے فعل مجرد پر بات البقرہ :26 [ 2:19:1 (1)] میں ہوئی تھی) ۔ یہاں (زیر مطالععہ آیت میں) فعل ” یُحْیی “ کا ترجمہ فعل حال سے بھی ہوسکتا ہے اور مستقبل کے ساتھ بھی۔ یعنی زندگی کرتا ہے : کرے گا۔ اسم جلالت ” اللّٰہ “ پر لغوی بحث ” بسم اللّٰہ “ میں ہوئی تھی۔ ؤ ” المَوتٰی “ کا مادہ ” م و ت “ اور وزن لام تعریف کے بغیر ” فَعْلٰی “ ہے جو جمع کا ایک وزن ہے۔ جیسے قتِیْل سے قَتْلَی اور مریض سے مَرْضٰی جمع آتی ہے۔ اس طرح یہ (مَوْتٰی) لفظ ” مَیِّتٌ“ (بروزن فَیْعِلٌ مثل صَبِّبٌ و سَیّدٌ) کی جمع ہے اس مادہ (م و ت) سے فعل مجرد پر بات البقرہ :19 [ 2:14:1 (12)] میں ہوئی تھی۔ اور ” مَیِّتٌ“ اور ” مَیْتٌ“ (بمعنی مردہ، بےجان) کی ایک دوسری جمع ” اَمْوَاتٌ“ پر بھی البقرہ :28 [ 2:2:1 (2)] میں بات ہوئی تھی۔ ؤ یوں اس عبارت (کذلک یُحیِ اللّٰہُ الموتیٰ ) کا لفظی ترجمہ بنتا ہے، ” اسی طرح اللہ زندہ کرتا ہے مردوں کو “ اسی کو بعض نے بصیغۂ مستقبل ” زندہ کرے گا : جلائے گا “ کی صورت میں ترجمہ کیا ہے۔ 2:45:1 (2) [ وَیُرِیْکُمْ اٰیٰتِہٖ ] اس جملے کی ابتدائی ” وَ “ بمعنی ” اور “ ہے اور آخری ضمیر (کُمْ ) بمعنی ” تم “ ہے۔ ان کو نکلانے کے بعد باقی فعل ” یُرِی “ بچتا ہے۔ اس کا مادہ ” رأی “ اور وزن اصلی ” یُفْعِلُ “ ہے۔ اس کی اصلی شکل ” یُرْئِیُ “ تھی جس میں خلافِ قیاس ” ئ “ کی حرکت (کسرہ) ماقبل ساکن حرف صحیح (ر) کو دے کر فعل اجوف کی طرح (حالانکہ یہ مادہ مہموز العین ہے) ” ئ “ کو گرا دیا جاتا ہے اور آخری ” یائ “ ماقبل مکسور ہونے کی بناء پر ساکن ہوجاتی ہے۔ اس طرح یہ لفظ بصورت ” یُرِیْ “ لکھا اور بولا جاتا ہے۔ اس مادہ (رأی) سے فعل مجرد کے استعمال پر البقرہ :55 [ 2:35:1 (3)] میں بات ہوئی تھی۔ ؤ زیر مطالعہ لفظ (یُرِیْ ) اپنے مادہ سے باب افعال کا صیغہ مضارع (واحد غائب مذکر) ہے اور اس باب سے فعل ” أرَیْ … یُرِیْ (دراصل أَرْئَ یَ ، یُرْئِ یُ ) إِرَائَ ۃً “ (دراصل اِرْاَیٌ) کے معنی ہیں : .. کو ... دکھانا۔ “ یعنی یہ فعل متعدی ہے اور اس کے دو مفعول آتے ہیں ” جن کو دکھایا جائے “ اور ” جو چیز دکھائی جائے۔ “ اور اس کے دونوں مفعول بنفسہ (منصوب بغیر صلہ کے) آتے ہیں جیسے اسی زیر مطالعہ حصۂ آیت (بربکم آیاتہ) میں ایک مفعول ضمیر منصوب (کُمْ ) ہے اور دوسرا ” آیات “ (جو آگے مضاف بھی ہے) یعنی ” وہ دکھاتا ہے تم کو اپنی آیات “۔ ؤ ” آیاتہ “ (یہ رسم اور ضبط املائی ہے قرآنی رسم و ضبط پر آگے بات ہوگی) میں آخری ” ہ “ تو ضمیر مجرور بمعنی ” اس کی : اپنی “ ہے اور کلمہ ” آیۃ “ (برسم املائی) کی واحد ” آیۃ “ ہے جس کا مادہ ” ا ی ی “ یا بقول بعض ” اوی “ ہے۔ اس لفظ (آیۃ) کے وزن اور اس مادہ سے فعل مجرد کے باب اور استعمال وغیرہ پر البقرہ :39 (2:27:1 (13)] میں مفصل بحث گزر چکی ہے۔ ” آیات “ کا ترجمہ تو ” نشانیاں “ ہے مگر بعض نے اس مطلب کے لیے ” نمونے، قدرت کے نمونے، نظائر قدرت اور قدرت کی نشانیاں “ سے ترجمہ کیا ہے۔ [ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ ] ” لعلکم “ کے معنی ہیں ” شاید کہ تم “ اور بعض نے اس کا ترجمہ ” تاکہ تم اس لیے کہ تم، اس توقع پر کہ تم “ سے کیا ہے ” شاید “ میں تو (لعل والا) توقع اور ترجی (امیدکرنا) کا مفہوم ہوتا ہے مگر ” تاکہ “ اور اس لیے کہ میں توقع (امید) سے زیادہ تعلیل (سبب بتانا) کا مفہوم ہے۔ البتہ ” اس توقع پر “ اور ” شاید کہ “ کا مفہوم ایک ہی ہے۔ ” لعلکم “ اور اس میں شامل حرف مشبہ بالفعل (لعلَّ ) کے معنی وغیرہ پر بحث البقرہ :21 [ 2:16:1 (4)] میں ہوچکی ہے۔ ؤ ” تَعْقِلُوْنََ “ کا مادہ ” ع ق ل “ اور وزن ” تَفْعِلُوْنَ “ جو اس مادہ سے فعل مجرد کا صیغہ مضارع (جمع مذکر حاضر) ہے۔ اس فعل بلکہ خود اسی صیغہ (تَعْقِلُوْنَ ) کے باب اور معنی وغیرہ پر البقرہ :44 [ 2:29:1 (8)] میں بات ہوچکی ہے۔ اس کے مطابق ” تعقلون “ کا ترجمہ ” تم عقل سے کام لیتے ہو : لو گے “ بنتا ہے۔ ” لعلکم “ (شاید کہ تم) کے ساتھ لگنے سے اس کی بامحاورہ صورتیں ” تم سمجھو : غور کرو : عقل سے کام لیا کرو : سمجھ جائو : عقل پیدا کرو “ ترجمہ میں اختیار کی گئی ہیں۔ الاعراب زیر مطالعہ دو آیات کل چار جملوں پر مشتمل ہیں۔ اس لیے ہر جملے کے بعد وقف مطلق کی علامت (ط) ڈالی گئی ہے۔ ان میں آخری (چوتھا) جملہ ویسے تو دو جملوں کا مجموعہ ہے مگر واو عاطفہ کے ذریعے (اور بلحاظ مضمون بھی) ان کو ایک جملہ بنادیا گیا ہے۔ ہر ایک جملے کے اعراب کی تفصیل یوں ہے : ۔ واذقتلتم نفسا فاذارء تم فیھا [ وَ ] مستانفہ بھی ہوسکتی ہے کہ یہاں سے ایک اور قصہ شروع ہوتا ہے۔ اور اسے وائو العطف، کہہ سکتے ہیں کیونکہ اس کے بعد والے قصے کا اس سے پہلے والے قصے سے واقعاتی تعلق بھی ہے [ اذ ] ظرفیہ ہے جس سے پہلے ایک فعل (مثلاً اذکروا) محذوف سمجھا جاتا ہے [ قتلتم ] فعل ماضی معروف مع ضمیر فاعلین ” انتم “ ہے (اور مراد یہ ہے کہ ” تم “ میں سے کسی یا بعض نے قتل کیا کیونکہ سب تو قاتل نہیں تھے) ۔ [ نفساً ] اس فعل (قتلتم) کا مفہوم بہ (لہٰذا) منصوب ہے۔ علامت نصب خود تنوین نصب (-ً ) ہے۔ ویسے فعل فاعل مفعول مل کر یہاں تک ایک جملہ فعلیہ بن جاتا ہے مگر ” اذا “ کی وجہ سے جملہ ادھورا لگتا ہے کیونکہ آگے اس ” جب “ کے بعد ایک ” پھر “ یا ” تو “ بھی آنی چاہیے۔ [ فادّارء تم ] کی فاء (فَ ) عاطفہ ہے۔ ” ادّارَء تم “ فعل ماضی معروف کا صیغہ جمع مذکر حاضر ہے۔ جس میں ضمیر فاعلین ” انتم “ شامل ہے اور فاء عاطفہ کے ذریعے اس صیغۂ فعل (ادارء تم) کا عطف (ربط یا تعلق) سابقہ صیغہ فعل ” قتلتم “ پر بنتا ہے۔ “ یعنی قتل کیا پھر اس کے بعد جھگڑنے لگے “ [ فیھا ] جار (فی) مجرور (ھا) مل کر متعلق فعل ” ادارء تم “ ہے۔ اور مؤنث ضمیر ” ھا “ کا مرجع نفس بھی ہوسکتا ہے جو مؤنث سماعی ہے اور ایک محذوف مثلاً ” تُھۃ “ بھی یعنی اس ” نفس “ (جان) کے قتل کی تہمت ایک دوسرے پر ڈالنے لگے۔ یہاں تک ایک جملہ ہر لحاظ سے مکمل ہوجاتا ہے۔ اس لیے ہی یہاں وقف مطلق کی علامت (ط) ڈالی جاتی ہے۔ ۔ واللّٰہُ مُخرج ماکنتم تکمتون یہاں [ وَ ] مستأنفہ ہے مگر اس کے بعد کی عبارت (جملہ) اپنے سے سابقہ جملے (یعنی نمبر 1) اور بعد والے جملے (نمبر 3) کے درمیان ایک جمعلہ معترضہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لیے بعض نحوی اس (قسم کی) ” و “ کو ” واو اعتراضیہ “ بھی کہتے اور اس ” واو “ کو یہاں حالیہ بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔ تاہم اکثر مترجمین نے اس کا اردو ترجمہ ” اور “ سے ہی کردیا ہے۔ [ اللّٰہ ] مبتدأ (لہٰذا) مرفوع ہے اور [ مُخْرِجٌ] اس کی خبر (مرفوع) ہے [ مّا ] اسم موصول جو ” مُخْرِجٌ“ کا مفعول بہ (لہٰذا) نصب میں ہے۔ یہاں اسم ۔۔ (یخرِج) کا شامل کیا ہے جس کی وجہ سے ” مَا “ مفعول منصوب ہے اگرچہ مبنی ہونے کی وجہ سے اس (ما) میں کوئی اعرابی علامت ظاہر نہیں ہوتی۔ [ کنتم ] فعل ناقص ہے جس میں اس کا اسم ” انتم “ بھی شامل ہے اور [ تکتمون ] فعل مضارع معروف جمع مذکر حاضر ہے اور یہ ایک جملہ فعلیہ (فعل مع فاعل) ہے جو ” کنتم “ کی خبر (لہٰذا محلاً منصوب) ہے اور چاہیں تو پورے جملے ” کنتم تکتمون “ کو ماضی استمراری کا صیغہ سمجھ لیں جس کے بعد اسم موصول (ما) کے لیے ایک ضمیر عاید محذوف ہے یعنی ” کنتم تکتمونہ “ (تم اسے : جسے چھپا رہے تھے) بہرحال دونوں صورتوں میں یہ جملہ (کنتم تکتمون) اسم موصول (ما) کا صلہ ہے اور صلہ موصول مل کر ” مُخْرِجٌ“ کا مفعول بہ ہوکر محلاً منصوب ہے۔ بعض نحوی صرف اسم موصول کو ہی منصوب کہتے ہیں (جیسے ہم نے بھی اوپر لکھا ہے) اور ” صلہ “ کے متعلق کہتے ہیں کہ اس کا کوئی اعرابی محل نہیں ہوتا۔ حالانکہ صرف اسم موصول الگ جملے کا جزء نہیں ہوتا۔ بلکہ ہمیشہ صلہ موصول مل کر ہی جملے کا کوئی جزء (مبتداء خبر، فاعل، مفعول وغیرہ) بنتے ہیں اور حسب موقع وہی ان کی اعرابی حالت سمجھی جانی چاہیے۔ ۔ فقلنا اضربوہ ببعضھا یہاں فاء یعنی [ فَ ] عاطفہ ہے جس میں ترتیب کا مفہوم موجود ہے (پھر : پس) یعنی ” قتل “ اور پھر ” باہمی جھگڑے “ کے وقوع کے بعد یہ ہوا کہ [ قلنا ] فعل ماضی معروف صیغہ متکلم ہے جس میں ضمیر تعظیم ” نحن “ (اللہ تعالیٰ کے لیے) مستتر ہے [ اضربوئ ] میں ” اضربوا “ فعل امر صیغہ جمع مذکر حاضر ہے جس میں ضمیر الفالعین ” انتم “ شامل ہے اور آخر پر ضمیر منصوب (ئ) اس (فعل امر) کا مفعول بہ ہے اور یہ مذکرضمیر اس شخص (مقتول) کے لیے ہے (جس کے لیے لفظ ” نفس “ آیا تھا) پہلے لفظ ” نفس “ کی تانیث کی بناء پر اس کے لیے مؤنث ضمیر ” فیھا “ میں (ھا) آئی تھی۔ یہاں بلحاظ معنی یعنی ” شخص “ یا ” رجل “ یا ” قتیل “ کے معنی میں مذکر ضمیر (ہ) آئی ہے۔ یہاں ایک اور چیز بھی نوٹ کیجئے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ واو الجمع والے صیغہ فعل کے بعد اگر کوئی ضمیر مفعول ہوکر آئے تو زائد الف (جو واو الجمع کے بعد لکھا جاتا ہے) ساتھ نہیں لکھا جاتا۔ اس لیے ہم نے یہاں صیغۂ فعل (امر) سمجھانے کے لیے ضمیر سے الگ لکھتے ہوئے اس کے آخر پر زائد الف لکھا ہے (اضربوا میں) مگر ضمیر مفعول کے ساتھ اس کی ضرورت نہیں رہتی اس لیے آیت میں ” اضربوہ “ لکھا گیا ہے۔ [ ببعضھا ] میں ” بِ “ حرف الجر اور ” بعض “ مجرور (بالجبر) اور آگے مضاف بھی ہے جس کی وجہ سے وہ خفیف (تنوین اور لام التعریف سے خالی) بھی ہے اور آخر پر ضمیر مجرور ” ھا “ مضاف الیہ ہے۔ اور یہ پورامرکب جاری (ببعضھا) متعلق فعل (اضربوہ) ہے۔ اس میں مؤنث ضمیر (ھا) کا مرجع وہ گائے ( البقرۃ) ہے جس کو ذبح کرنے کا قصہ اوپر گزرا ہے۔ اس عبارت کے تراجم پر پہلے حصہ اللغہ میں مفصل بحث ہوچکی ہے۔ ۔ کذلک یحییٰ اللّٰہ الموتی و یریکم اٰیتہ لعلکم تعقلون [ کذلک ] جار (کَ ) اور مجرور (ذلک) مل کر دراصل یہاں بعد میں آنے والے فعل (یحی) کے محذوف مفعول مطلق کی صفت کے طور پر مقدم آگیا ہے۔ اور اس لیے محلاً منصوب ہے گویا عام سادہ عبارت (نثر) کی ترتیب یوں بنتی ہے : ” یحی اللّٰہُ الموتی کذلک “ (اس کے پہلے حصے ” یحی اللّٰہ الموتی “ پر اعرابی بحث آگے آرہی ہے اور اس کے معانی حصہ ” اللغہ “ میں بیان ہوچکے ہیں) اور بالحاظ اعراب تقدیر عبارت یوں بنتی ہے۔ ” یحی اللّٰہُ الموتی إحیائٌ کذلک الاحیائ “ یعنی مثلا ذلک الاحیاء (ک = مثل) یعنی ” اللہ زندہ کرے گا مردوں کو زندہ کرنا مانند اس (مردہ کے) زندہ کرنے کے گویا ” ذلک “ میں اشارہ ”إحیائ “ (زندہ کرنا) کی طرف ہے اور اس سے بظاہر یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کوئی مردہ زندہ ہوا تھا جس کے زندہ کیے جانے کی طرف ” کذلک “ میں اشارہ ہے۔ [ یحییٰ ] فعل مضارع معروف واحد مذکر غائب ہے اور [ اللّٰہ ] اس کا فاعل (لہٰذا) مرفوع ہے اور [ الموتیٰ ] مفعول بہ منصوب ہے جس میں مقصود ہونے کے باعث اعرابی علامت ظاہر نہیں ہے۔ یہاں ایک جملہ ختم ہوتا ہے جس کو ” وَ “ کے ذریعے آگے ملایا گیا ہے۔ [ وَ ] عاطفہ ہے جس کے ذریعے اگلے فعل (یُری) کو سابقہ فعل (یُحیی) پر عطف کیا گیا ہے یا یوں کہیے اس واو العطف کے دو جملوں کو ملایا گیا ہے۔ گویا دونوں جملوں کو ملا کر ایک جملہ بنادیا گیا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ یہاں ’ الموتیٰ ‘ کے بعد علامت عدم وقف (لا) لکھی جاتی ہے تاکہ اس ساری عبارت کو مربوط سمجھ کر (اسی طرح ملا کر) پڑھا جائے۔ [ یُرِیْکُمْ ] میں ” یُرِی “ تو فعل مضارع معروف کا پہلا صیغہ ہے اور اس میں ضمیر فاعلی (ھو) اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔ ” کُمْ “ ضمیر منصوب اس فعل (یُرِی) کا مفعول اول ہے اور (ایتہ) مضاف (آیات) اور مضاف الیہ (ضمیر مجرور ” ہ “ ) مل کر فعل ” یُرِیْ “ کا مفعول ثانی ہے اس لیے اس مرکب اضافی (ایتہ) کا پہلا جزء (مضاف) منصوب ہے اور علامت نصب اس میں مکسور ” تائ “ (تِ ) ہے [ لعلکم ] میں ” لعلّ “ حرف مشبہ بالفعل اور ” کُمْ “ ضمیر منصوب اس کا اسم ہے [ تعقلون ] فعل مضارع معروف مع ضمیر فاعلین ” انتم “ ہے اور یہ جملہ فعلیہ (تعقلون) ” لعلّ “ کی خبر ہے۔ اس لیے یہاں اسے محلاً مرفوع کہہ سکتے ہیں۔ 2:45:3 الرسم زیر مطالعہ دو آیات میں بلحاظ رسم صرف چار کلمات وضاحت طلب ہیں یعنی ” فادرء تم کذلک یحییٰ اور ایتہ “ ان میں سے مؤخر الذزکر تین پر پہلے بھی بات ہوچکی ہے۔ لہٰذا ان کا ذکر مختصراً ہوگا۔ اصل توجہ طلب نیا لفظ ” فادرء تم “ ہے۔ تفصیل یوں ہے : ۔ ” فَادَّرَئْ تُمْ “ جس کی رسم املائی یا قیاسی ” فَادَّارَأْتُمْ “ ہے اس کے رسم عثمانی میں حذف الالفین پر اتفاق ہے یعنی ” د “ کے بعد والا الف اور ” ر “ کے بعد والا الف (جو دراصل ہمزہ ساکنہ کی ” کرسی “ ہے) دونوں لکھنے میں حذف کردیئے جاتے ہیں۔ یہ لفظ مصاحف عثمانی میں ” فادرتم “ کی شاکل میں لکھا گیا تھا۔ (اعجام اور نقط یعنی نقطوں اور حرکتوں کے بغیر) ۔ اور دراصل اس میں تین ہمزے (یا الف) ہیں پہلا تو ”“ کے بعد ہے یہ ہمزۃ الوصل ہے جو ہمیشہ کسی کلمہ کے شروع میں ہی آتا ہے (یہاں یہ ” ادّرء تم “ کے شروع میں ہے) یہ ہمیشہ بصورت الف (ا) لکھا جاتا ہے اور یہ چند خاص صورتوں کے سوا کبھی لکھنے میں حذف نہیں ہوتا البتہ کسی ماقبل سے ملا کر پڑھتے وقت تلفظ سے گر جاتا ہے (جیسے یہاں ”“ کے بعد ہے) ۔ دوسرا الف وہ ہے جو ذال مفتوحہ (ذ) کے بعد ہے۔ یہ الف جسے ” لِینہ “ کہتے ہیں اپنے ماقبل کو اشباع (کھینچ کر یا ذرا لمبا کرکے پڑھنا) دیتا ہے اور یوں یہ تلفظ میں ضرور آتا ہے (چاہے کتابت میں محذوف بھی ہو) ۔ تیسرا الف اس کلمہ میں وہ ہے جو راء مفتوحہ (رَ ) کے بعد ہے مگر یہ ساکن (ہمزہ) ہے۔ اس لفظ (فادرء تم) میں جس حذف الالفین کی بات کی گئی ہے۔ اس سے مراد آخری دو الف (یا ہمزے) ہیں یعنی ” د “ کے بعد والا اور ” د “ کے بعد والا۔ ؤ عربوں کے طریق تلفظ کے مطابق کسی متحرک حر کے بعد والا ساکن ہمزہ (جیسے یہاں ” ر “ کے بعد ہے) اپنے ماقبل کی حرکت کے موافق حرف میں بدل کر پڑھا جاسکتا ہے۔ (جوازاً ) یعنی فتحہ (-َ ) کے بعد الف کسرہ (-ِ ) کے بعد یا (ی) اور ضمہ (-ُ ) کے بعد ” و “ میں بدل کر پڑھا جاسکتا ہے۔ اس طرح یہاں ” رَئْ “ کو ” رَا “ بھی پڑھا جاسکتا ہے اور کم از کم ایک قراءت (ابو عمرو البصری) میں اسے ” رَا “ ہی پڑھا گیا ہے گویا جن قراء نے اسے ہمزہ ساکنہ (رَئْ ) پڑھا ہے (اور اکثر نے اسی طرح پڑھا ہے) ان کے نزدیک ” ر “ کے بعد ایک ہمزہ (ئ) محذوف ہے اور جس نے اسے ہمزہ لینہ (الف) کے ساتھ پڑھا اس کے مطابق یہاں ” ر “ کے بعد الف لینہ (ا) محذوف ہے۔ اس اختلاف کی بنا پر اس لفظ (فادرء تم) کے ضبط کے لیی مختلف صورتیں اختیار کی گئی ہیں۔ جس پر مزید بحث ” الضبط “ میں آئے گی۔ خیال رہے کہ اصل رسم عثمانی (فادرء تم) دونوں قراءتوں اور اس کے مطابق مختلف طریق ضبط کا متحمل ہوسکتا ہے۔ (دیکھئے بحث ” الضبط “ ) ۔ ” کذلک “ بلحاظ رسم ” ذلک “ کی طرح ہے یعنی اس میں ” ذ “ کے بعد الف نہیں لکھا جاتا (گو پڑھا جاتا ہے) اور اس لفظ کا رسم املائی بھی یہی ہے۔ حالانکہ قیاسی رسم ” کذالک “ ہونا چاہیے تھا مگر بہت سے اور لفظوں کی طرح یہاں بھی عام املاء میں بھی رسم عثمانی کی ہی پیروی کی جاتی ہے۔ ۔ ” یُحیی “ کا رسم املائی تو ” یُحْیِی “ ہے مگر رسم عثمانی میں صرف ایک ” ی “ لکھی جاتی ہے۔ البتہ پڑھی دونوں جاتی ہیں (ایک متحرک دوسری ساکن) اور قرآن کریم میں یہ لفظ ہر جگہ اسی طرح (ایک ” ی “ کے ساتھ) لکھا جاتا ہے۔ البتہ اگر اس کے بعد کوئی ضمیر منصوب (مفعول) آرہی ہو تو اسے دو ” یائ “ سے ہی لکھا جاتا ہے۔ جیسے کلمہ ” یُحْیِیْکُمْ “ میں ہے۔ نیز دیکھئے ” الضبط “ میں۔ ۔ ” اٰیتہ “ جس کی رسم املائی ” آیاتہ “ ہے۔ قرآن مجید میں یہ لفظ (آیات) مفردیا مرکب (اضافی کے ساتھ) ہر جگہ ” ی “ کے بعد والے الف کے حذف کے ساتھ (آیت) ہی لکھا جاتا ہے۔ البتہ دو جگہ (یونس :15 ، 21) اور بقول بعض یوسف :7 میں بھی۔ سے ” ایات “ یعنی باثبات الف بعد الیاء لکھا گیا ہے۔ ان پر مزید بات حسب موقع ہوگی۔ خیال رہے کہ اس لفظ (ایات : ایت) کے شروع میں ایک ہمزہ مفتوحہ (ئَ ) بھی محذوف ہے جو تلفظ میں آتا ہے اور اسے بذریعہ ضبط مختلف طریقوں سے ظاہر کیا جاتا ہے۔ 2:45:4 الضبط رسم کی طرح بلحاظ ضبط میں کلمہ ” فادرء تم “ توجہ طلب ہے۔ رسم میں یہ بتایا جاچکا ہے کہ اس کلمہ میں ” ر “ کے بعد بھی ایک الف (یا ہمزہ) محذوف ہے۔ ہمزہ ساکنہ متوسطہ (یعنی وہ ساکنہ مزہ جو کسی لفظ کے اندر آرہا ہو۔ ابتداء میں یا آخر پر نہ ہو) کی املاء کے بارے میں رسم عثمانی اور رسم املائی دونوں میں یہ قاعدہ تسلیم کیا گیا ہے۔ کہ ایسے ہمزہ سے ماقبل متحرک حرف کی جو حرکت ہوگی یہ ہمزہ اس حرکت کے موافق حرف پر لکھا جائے گا (یعنی وہ حرف ہمزہ کی کرسی کا کام دے گا) اس طرح ماقبل مفتوح حرف کے بعد ہمزہ الف (1) پر، ماقبل مضموم ہو تو ہمزہ ” و “ پر اور ماقبل مکسور ہو تو ہمزہ ” ی “ پر (یا اس کے نبرہ : دندانہ پر) لکھا جاتا ہے جیسے بأس، بُؤْس اور بِئْس میں ہے۔ ؤ چونکہ ” فادرء تم “ کی ” ر “ کے بعد ایک ہمزہ ساکنہ (اکثر قراء ات میں) پڑھا جاتا ہے اور بعض میں وہ الف لینہ سے بھی پڑھا گیا ہے۔ اور ہمزہ ساکنہ ہو یا الف لینہ صرف تلفظ میں آتا ہے۔ لکھنے میں محذوف ہے (یہ بات پہلے بھی کہیں لکھی گئی ہے کہ مصاحف عثمانی میں کہیں بھی ہمزہ نہیں لکھا گیا تھا۔ اور الف لینہ کا حذف بھی بکثرت ہوا ہے) اور چونکہ ہمزہ متوسطہ ساکنہ ماقبل مفتوح الف کے اوپر لکھا جاتا ہے۔ اس لیے یہاں ہمزہ کے لکھنے کے طریقے میں اختلاف ہوا ہے۔ ؤ ہمزئہ ساکنہ پڑھنے والوں نے اسے الف کے اوپر لکھا (أ) تاہم چونکہ یہ الف اور صورت ہمزہ (ء یا ٔ یا ہ) دونوں اصل مصحف عثمانی میں نہ تھے اس لیے ان دونوں کو سرخ روشنائی سے لکھا جاتا تھا ۔ البتہ دور طباعت میں اس طرق کو برقرار رکھنے کے لیے اس (کرسی والے) الف کو عام الف سے نصف بلکہ اس سے بھی کم لمبائی میں (کھڑی زیر -ٖ کی طرح ) لکھا جانے لگا۔ یا بعض دفعہ اسے عام الف کی طرح لمبا مگر (اصل الف سے فرق کرنے کے لیے) سطر سے اونچا لکھا جاتا ہے (-:ٰ کی طرح اور بعض ” ر “ کے بعد صرف علامت ہمزۃ القطع (ئ) ڈالنے پر اکتفا کرتے ہیں (رَئْ ) اور جس قراءت میں ” ر “ کے بعد والے ہمزہ کو الف لینہ پڑھا گیا ہے اس کی رعایت سے ” ر “ کے اوپر ہی محذوف الف کو کھڑی زبر (-ٰ ) کی شکل میں لکھ دیتے ہیں۔ اور ضبط کی یہ ساری صورتیں اصل رسم عثمانی (فادرتم) کے مطابق ہیں یعنی بحذف الالفین ہیں۔ البتہ ایرانی مصاحف میں اس لفظ کو عام رسم املائی (دیکھئے ابتدائے بحث ” الرسم “ میں) کی طرح لکھنے کا رواج ہوگیا ہے۔ رسم عثمانی کے مخالف ہیں۔ زیر مطالعہ قطعہ کے کلمات میں ضبط کا تنوع مندرجہ ذیل مثالوں سے سمجھا جاسکتا ہے۔
Top